وَلَقَدْ فَتَنَّا قَبْلَهُمْ قَوْمَ فِرْعَوْنَ وَجَاءَهُمْ رَسُولٌ كَرِيمٌ
اور ہم نے ان سے پہلے قوم فرعون کو آزمائش (٨) میں ڈالا تھا، اور ان کے پاس ایک معزز رسول آئے تھے
(17۔31) ان مشرکین عرب سے پہلے بھی کئی قوموں کا یہی حال رہا ہے ان عربیوں سے پہلے مشہور ترین مصر کی فرعونی قوم ہے ان کو بھی ہم (اللہ) نے جانچا تھا اس جانچنے سے ہمیں تحصیل علم مقصود نہیں تھا بلکہ ان کا اظہار حال مطلوب تھا ان کے پاس ہم نے سچی تعلیم بھیجی اور بڑا معزز رسول (حضرت موسیٰ) ان کے پاس آیا اس نے آکر فرعون اور فرعون کے درباریوں کو کہا کہ اللہ کے بندے بنی اسرائیل کو غلامی سے آزاد کر کے میرے سپرد کر دو میں ان کو ان کے اصلی وطن فلسطین لے جائوں اور اگر یہ پوچھو کہ مجھے اس سوال کرنے کا کیا حق ہے تو جواب یہ ہے کہ میں تمہارے لئے اللہ کی طرف سے امانتدار رسول ہو کر آیا ہوں پس تم میری بات کو میرے بھیجنے والے (اللہ) کا حکم سمجھو۔ سب سے پہلے تو میں تم لوگوں کو یہ سناتا ہوں۔ کہ اللہ حقیقی مالک الملک کو مانو اور اسی کے ہو رہو۔ شرک کفر بے ایمانی دغابازی کی باتیں سب چھوڑ دو۔ دوم یہ کہ بنی اسرائیل کو میرے ساتھ جانے کی اجازت دو اور بڑی بات یہ کہ اللہ کے حکم کے آگے سرکشی مت کرو دیکھو میں تمہارے پاس کھلی دلیل لایا ہوں جو تم لوگ دیکھنا چاہو تو دکھا دوں اور اگر مجھے قتل یا پتھرائو کی دھمکی دو تو سنو ! میں اپنے اور تمہارے پروردگار کی پناہ میں ہوں اس سے کہ تم مجھے مار سکو۔ پس میں تم کو چیلنج دیتا ہوں کہ اگر تم سے ہوسکے تو بے شک مجھے مارنے کے سامان تیار کرو۔ میں اللہ کے فضل سے تمہارے ہاتھ سے کبھی نہ مروں گا۔ ہاں میں تم کو اللہ کی طرف بلاتا ہوں۔ اور اگر میری نہ مانو۔ تو خیر مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔ مگر ان بندگان اللہ بنی اسرائیل کو تنگ نہ کرو پھر حضرت موسیٰ نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ اے میرے اللہ یہ فرعونی لوگ بدکار ہیں تو ان سے ہمیں نجات دے پس حضرت موسیٰ کو وحی ہوئی کہ میرے بندوں بنی اسرائیل کو رات کے وقت نکال کرلے جا۔ مگر یہ سن رکھ کہ فرعون کی طرف سے تم لوگوں کا پیچھا کیا جائے گا۔ اور اگر راستے میں دریا کا اندیشہ ہو تو دریا کو خشک چھوڑ کر نکل جائیو یعنی وہ تمہارے جاتے وقت وہ خشک ہوجائے گا اور فرعونیوں کے اندر آتے ہی وہ زور پکڑے گا کیونکہ وہ لوگ وہاں غرق کئے جائیں گے ان کی تباہی کے دن قریب آگئے ہیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ فرعونی لشکر جو اسرائیلیوں کے پیچھے گیا وہ سب غرق ہوا اور وہ لوگ بہت سے باغ‘ میٹھے چشمے‘ لہلہاتی کھیتیاں بڑے شاندار مکان اور بڑی بڑی نعمتیں جن میں وہ مزے کیا کرتے تھے سب کچھ یہاں چھوڑ گئے تم یقین جانو ایسا ہی ہوا اور ہم (اللہ) نے ایک عرصہ کے بعد ان چیزوں کا وارث دوسری قوم (بنی اسرائیل) کو بنایا یہاں تک کہ ان کی ذلت کی نوبت پہنچی کہ بنی اسرائیل کی قوم باوجود کئی تنزلات کے آج تک تختہ دنیا پر خاص امتیاز سے بستی ہے ان کے بزرگوں کی عزت کی جاتی ہے۔ مگر فرعون کی عزت کرنے والا کوئی بھی نہیں۔ پھر ان کی تباہی پر آسمان اور زمین کے لوگ نہ روئے اور نہ ان کو دنیا میں رہنے کی مہلت ملی بلکہ حکم پہنچتے ہی تباہ کئے گئے اور ہم نے بنی اسرائیل کو فرعون کے سخت عذاب سے چھڑایا۔ بے شک وہ بڑا سرکش بیہودہ لوگوں میں سے تھا۔ اسلئے اس کی سرکشی جب انتہا کو پہنچ گئی تو نتیجہ بھی وہی ہوا جو ایسے کاموں کا ہوا کرتا ہے یعنی تباہی جیسا کسی عارف نے کہا ہے از مکافات عمل غافل مشو گندم از گندم بروئد جوزجو (بنی اسرائیل دریا سے سلامت نکل تو گئے۔ مگر بے فرمانی الٰہی کی وجہ سے چالیس سال تک میدان تیہ میں پھرتے رہے عرصہ مدید کے بعد وہ اپنے ملک فلسطین میں گئے وہاں ان کی سلطنت قائم ہوئی پھر انہوں نے جنگی طاقت حاصل کرنے کے بعد دور دراز کے ممالک فتح کئے اس لئے عرصہ کا لفظ بڑہانا ضروری ہے (منہ)