سورة آل عمران - آیت 139

وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور تم کمزور نہ (95) بنو، اور غم نہ کرو، اور اگر تم ایمان والے ہوگے تو تم ہی سب سے بلند ہوگے

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(139۔158)۔ اسی لئے ان کو سمجھا یا جاتا ہے کہ تم نہ تو سست ہوئو اور نہ غمگین اگر تم ایمانداری پر مضبوط رہو گے تو تم ہی غالب ہو گے ہاں بعض دفعہ بظاہر کسی قدر تکلیف تم کو بھی ہو تو اس سے گبھرائو نہیں شان نزول :۔ (وَلَا تَھِنُوْا) جنگ احد میں جو مسلمانوں کو بعد فتح ہونے کے اپنی غلطی کی وجہ سے قدرے تکلیف پہنچی اس کی تسلی کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔ اگر تم کو تکلیف پہنچے تو سست ہونے کی کوئی وجہ نہیں آخر کفار کی قوم کو بھی اتنی ہی تکلیفیں پہنچ چکی ہیں چنانچہ جنگ احد میں تمہاری جماعت کو تکلیف ہوئی تو اس سے پہلے جنگ بدر میں ان کو بھی ہوچکی ہے پھر جب وہ لوگ باوجود کفر وشرک کے سست نہیں ہوتے تو تم با وجود توحیدا وردعوی صداقت کے کیوں سست ہوتے ہو زمانہ کی گردش لوگوں میں ہم پھیرتے رہتے ہیں کبھی کسی کے ہاتھ ہے کبھی کسی کے اور اب کی دفعہ تکلیف کسی قدر تم کو اس لئے پہنچی ہے کہ اللہ خالص ایمان داروں کی منافقوں سے تمیز کردے کہ جو لوگ بعد تکلیف کے بھی رسول کا حکم بسرو چشم رکھیں گے وہی خالص مومن ہونگے اور جو تکلیف سے ڈر کر سستی کریں گے ان کے ایمان میں ضعف ثابت ہوگا اور اللہ تعالیٰ کو منظور تھا کہ بعض کو تم میں سے درجہ شہادت دے کر شہید بنائے وہ بھی اس جنگ احد کی تکلیف سے پو را ہوا ورنہ یہ مت سمجھو کہ اللہ تعالیٰ ان مشرکوں سے راضی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو ظالم مشرک نہیں بھاتے اور اس تکلیف رسائی سے یہ بھی ملحوظ ہے کہ اللہ مومنوں کو ان تکالیف سے نکھار لے اور کفار کو جڑ سے کاٹے کیونکہ وہ اب کی دفع سے کسی قدر خوشی سے آئندہ سال جمع ہو کر آویں گے اور ذلیل وخوار ہو کر واپس جاویں گے اصل تو یہ ہے کہ آسائش بعد تکلیف حاصل ہو تو قابل قدرہوتی ہے کیا تم سمجھ بیٹھے تھے کہ یونہی جنت میں چلے جائو گے حالانکہ ابھی تو اللہ نے نیت خالص سے جہاد کرنے والوں کو تم میں سے الگ نہیں کیا اور صابروں کی تمیز بھی نہیں کی اس آیت میں یَعْلَمَ کی نصب نے علماء نحو کو مجبور کیا ہے کہ اس سے پہلے کوئی ناصبہ تلاش کریں چنانچہ انہوں نے اس کی تقدیر یوں بنائی ہے قبل ان یعلم الصبرین مگر مینے اس ترکیب کو اختیار نہیں کیا کیونکہ یعلم کا حق جر کا ہے مگر ایسی حالت میں بوجہ خفت فتح بھی آتی ہے کتب نحو میں اس کی مثال بھی ملتی ہے۔ منہ اس تھوڑی سی تکلیف پر تمہاری سستی عجب ہے تم تو اس سے پہلے میدان جنگ میں مرنے کی خواہش رکھتے تھے پس اب تم اسے آنکھ سے دیکھ چکے ہو ابھی تو ہمارا رسول بھی تم میں موجود ہے پھر باوجود اسکے تمہیں تسلی نہیں تو مر نے کے بعد کیا ہوگی حالانکہ محمدﷺ اللہ کے صرف رسول ہیں جن کا ہمیشہ کے لئے جینا ممکن نہیں ان سے پہلے کئی رسول گزر چکے ہیں اگر وہ (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موت طبعی سے مر جائے یا میدان جنگ میں مارا جائے تو کیا تم لوگ دین سے پھر جائو گے شان نزول :۔ (وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ) جنگ احد میں عین تکلیف اور گریز کی وقت یہ آواز آئی کہ حضرت قتل ہوگئے جس سے صحابہ کرام کی کمریں ضعیف ہوگئیں جیسا کہ عام دستور ہے کہ سردار کے نہ ہونے سے ہوا کرتا ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم التنزیل یاد رکھوجو کوئی دین اسلام سے پھرجائے گا وہ اللہ کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے گا بلکہ جو کچھ بگاڑئے گا اپنا ہی بگاڑے گا اور اللہ شکر گزاروں تابع داروں کو بدلہ دے گا موت کوئی اختیاری امر نہیں بغیر حکم الٰہی کے کوئی مر نہیں سکتا اللہ تعالیٰ کا مقرر کیا ہوا وقت ہے البتہ بعض کوتاہ اندیش اس خدائی تقرر کو نہیں سمجھتے اور صرف دنیا ہی کو اپنا مدار کار جانتے ہیں سو جو کوئی ایسا ہے کہ اپنے کاموں سے دنیا ہی کا بدلہ فوائد یا نیک نامی چاہتا ہے ہم بھی اس میں سے اسے کچھ دے دیتے ہیں کہ چند لوگ اس کی چند روزہ واہ واہ کردیتے ہیں اور جو کوئی اپنے نیک اعمال سے صرف آخرت کا بدلہ چاہے ہم اس کو اس میں سے دے دیتے ہیں اور ہم ایسے شکر گزاروں کو اچھا بدلہ دیں گے بھلا تم اس تھوڑی سی تکلیف سے کیوں رنجیدہ ہوتے ہو کیا تم نہیں جانتے کہ بہت سے اللہ والے لوگ کئی نبیوں کے ساتھ ہو کر دشمنان دین سے لڑتے رہے۔ پھر نہ تو وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں تکلیف پہنچنے سے ہارے اور نہ سست پڑے اور نہ دشمنوں سے دبے وہ اس ثابت قدمی کا اجر عظیم پاویں گے اس لئے کہ اللہ ثابت قد موں اور صبر کرنے وا لوں سے محبت کرتا ہے وہ تو ایسے ثابت قدم تھے کہ عین تکلیف شدید میں بھی ان کی آواز یہی ہوتی تھی کہ اے ہمارے مو لا ! ہمارے گناہ بخش اور ہماری سستی جو دین کے بارے میں ہم سے ہوئی ہو ہم کو معاف فرما اور ہم کو دشمنوں کے مقابلہ میں ثابت قدم رکھ اور ہم کو کافروں کی قوم پر فتح نصیب کر پھر اللہ نے ان کو دنیا کا بد لہ یعنی غلبہ بھی دیا اور آخرت کا بدلہ بھی بہت خوب بخشا اس لئے کہ اللہ کو نیکو کار لوگ بھاتے ہیں مسلمانو ! اس قصہ سے تم سمجھ گئے ہو گے کہ مومن کافروں پر فتح یابی کی ہمیشہ دعا کرتے رہے ہیں اگر تم بجائے اس دعائے فتح کے ان کافروں کے کسی بات میں تابع ہوئے تو تم کو دین سے پھیر دیں گے پھر تم ٹوٹے میں پڑ جائو گے یہ غلط کہتے ہیں کہ اللہ تمہارا مددگار نہیں بلکہ اللہ تمہارا متولی ہے اور وہ سب سے اچھا مددگار ہے کسی کی مدد اس کے برا بر نہیں ہوسکتی چنانچہ آئندہ کو ہماری مدد کی ابتدا یوں ہوگی کہ ہم کافروں کے دلوں میں تمہارا رعب اور خوف ڈالیں گے شان نزول :۔ (سنلقی) جنگ احد سے فراغت پاکر مشرکین جب مکہ شریف کو واپس گئے تو راہ میں انہوں نے پھر حملہ کرنے کا قصد کیا مگر اللہ نے ان کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈال دیا۔ کیونکہ انہوں نے اللہ کے ساتھ ایسی چیز کو شریک ٹھرایا ہے جس کی شرکت کی اللہ نے کوئی دلیل نہیں اتاری اس لئے ان کا ٹھکا نا دوزخ میں ہے جس میں بے طرح تڑپیں گے اور وہ جہنم ظالموں کے لئے بہت بری جگہ ہے اللہ نے تو اپنا وعدہ فتح کے متعلق تم سے سچا کردیا تھا۔ جب تم ان کو اس کے حکم سے قتل کر رہے تھے یہاں تک کہ تم خود ہی اکھڑے اور رسول کے حکم میں جھگڑنے لگے کہ بعد اس کے اللہ تعالیٰ نے تمہاری پسندیدہ چیز یعنی فتح مندی تم کو دکھا دی تم نے بے فرمانی کی کیونکہ بعض تم میں سے دنیا چاہتے ہیں اور بعض آخرت چاہتے ہیں پھر تم کو ان سے ہٹا لیا الٹی تکلیف تم کو پہنچی تاکہ تمہاری غلط کاریوں کی وجہ سے تم کو مبتلائے تکلیف کرے اور اب تو تم سے یہ قصور معاف کردیا کیونکہ اللہ تعالیٰ مومنوں کے حال پر بڑے فضل والا ہے (لَقَدْ صَدَقَکُمُ اللّٰہُ) حضرت پیغمبر اللہ ﷺ نے جنگ احد میں ایک پہاڑ کے دروازہ پر چند آدمی مقرر کئے تھے اور ان سے فرمایا تھا کہ ہماری فتح ہو یا شکست تم نے اس جگہ کو نہ چھوڑنا جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمان غالب آگئے اور لوٹ میں مصروف ہیں اور کفار بھاگ گئے اب تو یہاں ہمارا ٹھیرنا فضول ہے ہرچند ان کے سردار نے سمجھایا اور حضرت کا فرمان عالی یاد کرایا مگر ظاہر داری سے وہ غلطی کھا گئے صرف دس بارہ آدمی اس سردار کے ساتھ اس دروازہ پر ٹھیرے رہے اتنے میں مشرکین کفار نے میدان خالی پاکر ان پر حملہ کیا تو مسلمانوں کو لنے دینے پڑگئے فتح سے شکست مبدل ہوگئی اس واقعہ کو اللہ تعالیٰ یاد دلاتا ہے۔ معالم الامر لفظ کے دو معنی ہیں اختیار حکم ! آبرو۔ عزت یا وقعت۔ منافق اپنے لئے عزت چاہتے تھے جواب میں امر کے معنی ” اختیار“ کے ہیں۔ یعنی اللہ عالم الغیب کو اختیار ہے جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذلیل کرے ١٢ منہ تم سخت غلطی کر رہے تھے جب تم بھاگے ہوئے چڑھے جا رہے تھے اور پھر کسی کو نہ دیکھتے تھے اور اللہ تعالیٰ کا رسول تم کو پیچھے سے بلا رہا تھا۔ پس تم کو غم پر غم پہنچا یا تاکہ تم ہاتھ سے گئی ہوئی چیز یعنی گئی ہوئی فتح پر غم نہ کرو اور پہنچی ہوئی مصیبت پر رنج نہ کرو یعنی بعد اس رنج کے دفع ہونے کے فتح کے جاتے رہنے کا بھی تم کو غم نہ رہے اس میں شک نہیں کہ تمہارا یہ قصور عناد اور سرکشی سے نہ تھا بلکہ ایک غلط فہمی کی وجہ سے تھا چونکہ اللہ تمہارے سب کاموں سے آگاہ ہے اس لئے پھر اللہ تعالیٰ نے بعد غم کے تم پر بغرض آرام جسمانی نیند ڈالی جو تم میں سے ایک جماعت پر غالب آرہی تھی جس سے ان کے تکان وغیرہ سب دور ہوگئے اور منافقوں کی ایک جماعت کو جان کے لالے پڑے ہوئے تھے اللہ کی نسبت جاہلانہ غلط گمان کررہے تھے اور منہ سے کہہ رہے تھے کہ ہمیں بھی کچھ اختیار یعنی عزت ہے تو کہدے کہ عزت اور ذلت دینے کا اختیار سارا اللہ کو ہے جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے جو عزت کے مستحق ہیں اللہ ان کو عزت دیگا۔ تم عزت کے اہل نہیں ہو ابھی تو یہ باتیں ان کے منہ کی ہیں تو وہ وہ باتیں رکھتے ہیں جو تیرے سامنے بیان نہیں کرسکتے عام مسلمانوں کے پھسلانے کو یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر ہماری (یعنی مسلمانوں کی) بھی اللہ کے ہاں کچھ عزت ہوتی تو ہم یہاں نہ مارے جاتے تو کہدے کہ موت کیلئے تو ایک وقت معین ہے اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو بھی جن کی تقدیر میں قتل ہونا لکھا ہوتا اپنی قتل گاہ میں ضروری آجاتے اور یہ تکلیف پہنچا کر اللہ کو سب لوگوں پر تمہارے جی کی باتیں ظاہر کرنی تھیں اور تمہارے دلوں کے خیالات کو نکھارنا تھا اور یوں تو اللہ بذات خود سب کے سینوں کے بھید جانتا ہے۔ یہ جانتا ہے کہ جو لوگ وہ دو فوجوں کے ملنے کے دن (یعنی بروز جنگ، احد) منہ پھیر گئے تھے ان کو شیطان ہی نے ان کے بعض اعمال کی شامت سے پھسلایا تھا مگر خیر اللہ نے ان کو معاف کردیا اس لئے کہ اللہ بڑا بخشنے والا حوصلہ والا ہے۔ یہ بھی اس کی بخشش ہے جو تم کو سمجھاتا ہے کہ اے مسلمانو ان لوگوں جیسے مت بنو جو خود بھی منکر ہوئے اور اپنے بھائیوں کے حق میں جب وہ دینی سفر کو جائیں یا کہیں جنگ کرنے کو روانہ ہوں اور بقضائے الٰہی وہیں مرجائیں تو یہ کافر کہتے ہیں کہ اگر وہ ہمارے پاس ٹھہرے ہوتے تو نہ مرتے اور نہ قتل ہوتے بھلا ان کا کہنا کہاں تک صحیح ہے اگر ان کی موت آجاتی تو یہ ان کو موت سے بچاسکتے تھے؟ ہرگز نہیں پھر اس بات کے کہنے سے کیا فائدہ ہاں اگر یہ ہوگا کہ اللہ ان کے اس خیال کو ان کے دلوں میں باعث حسرت اور افسوس کرے گا کہ جس قدر اپنی تدبیر پر بھروسہ کریں گے اسی قدر زیادہ افسوس اٹھاویں گے اور ناحق اپنا دل دکھاویں گے اصل بات تو یہ ہے اللہ ہی زندہ رکھتا ہے اور وہی مارتا ہے اور اللہ تمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہے باقی رہا مرنا اور جینا سواس کی بابت بھی سن لو کہ اگر تم اللہ کی راہ قتل کئے جاؤ یا دین سفر میں مرجاؤتو جو ایسے مرنے پر اللہ کے ہاں سے بخشش اور مہربانی ہے سب لوگوں کے اسباب جمع کئے ہوئے سے اچھی ہوئی ہے بھلا زندگی کے اتنے سامان بنانے اور اس پر اتنا رنج ظاہر کرنا کیا فائدہ آخر کو تو مرنا ہے پس گو تم موت طبعی سے مرے یا اللہ کی راہ میں مقتول ہوئے آخر تو اللہ کے پاس ہی جمع کئے جاؤ گے جہاں تم کو اپنے اپنے کئے کا پورا پورا بدلہ ملے گا