مَن كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ ۖ وَمَن كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِن نَّصِيبٍ
جو شخص آخرت کی کھیتی (١٥) (یعنی اجر و ثواب) کا خواہاں ہوتا ہے، ہم اس کی کھیتی میں اضافہ کرتے ہیں، اور جو شخص دنیا کی کھیتی ( یعنی فائدہ) چاہتا ہے تو ہم اسے اس کا کچھ حصہ دے دیتے ہیں، اور آخرت میں اجر و ثواب کا اسے کوئی حصہ نہیں ملے گا
(20۔24) سنو ! ہم اپنے ایک قاعدہ کا اعلان کرتے ہیں جو کوئی آخرت کی کھیتی چاہتا ہے یعنی ان کو یہی فکر ہے کہ میری دوسری زندگی درست ہوجائے اسی دھن میں لگا رہتا ہے ہم بھی اس کی کھیتی میں برکت دیتے ہیں یعنی اس کو توفیق دیتے ہیں کہ وہ اعمال صالحہ کرے اور جو کوئی صرف دنیا کی کھیتی یعنی دنیوی فوائد چاہتے ہیں ہم ان کو بھی اپنی مشیت کے مطابق جتنا چاہتے ہیں دے دیتے ہیں مگر آخرت کی زندگی میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ غرض اس سخت ضرورت کے وقت وہ بے نصیب رہے گا۔ ان لوگوں کو اس بات کی سمجھ نہیں کہ جو کام بوقت ضرورت کام آئے وہ اچھا ہے یا جو اکارت جائے وہ اچھا؟ کون دانا پچھلی بات کہے گا؟ پھر جو یہ لوگ راہ راست پر نہیں آتے کیا ان لوگوں کے بنائے ہوئے شریک اللہ کی سلطنت میں واقعی شریک ہیں ؟ جنہوں نے ان کو دین میں ایسے کاموں کی اجازت دے رکھی ہے جن کی بابت اللہ نے حکم نہیں دیا۔ اللہ تو فرمائے توحید اختیار کرو۔ یہ اس کے برعکس شرک اختیار کریں اللہ فرمائے نیک اعمال کرو۔ یہ اس کے برعکس بداعمال کریں۔ اگر فیصلہ کا حکم پہلے صادر نہ ہوا ہوتا کہ حقیقی فیصلہ قیامت کے روز ہوگا تو اسی دنیا میں ان کے درمیان فیصلہ کیا جاتا مطیعوں اور مجرموں میں امتیازی نشان لگا یا جاتا۔ گو فیصلہ کا دن ابھی دور ہے۔ لیکن فیصلہ کا طریق ابھی بتلائے دیتے ہیں کہ نیک کار موحد اللہ کے ہاں مقبول ہوں گے اور نااللہ ترس ظالموں کو سخت دکھ کا عذاب ہوگا۔ اے دیکھنے والے تو اس وقت دیکھے گا کہ ظالم لوگ اپنے کئے ہوئے بداعمال کے بدلے کو دیکھ کر دور سے ڈریں گے اور اس سے بچنا چاہیں گے لیکن بچ نہ سکیں گے اور وہ عذاب ان پر ضرور آن پڑے گا۔ نہ کہیں بھاگ سکیں گے نہ چھپ سکیں گے جب تک اللہ کے ہاں سے رہائی کا حکم نہ ہوگا اسی میں مبتلا رہیں گے اور جن لوگوں نے ایمان لا کر نیک کام کئے ہیں وہ اعلیٰ درجہ کے باغوں میں ہوں گے ان باغوں میں جو وہ چاہیں گے ان کو ان کے رب کی طرف سے ملے گا یہی تو اللہ کا بڑا فضل ہے جسے ملے وہ اپنے آپ کو خوس قسمت جانے یہی نعمت ہے جس کی اللہ تعالیٰ اپنے ایماندار نیکوکار بندوں کو خوش خبری دیتا ہے مگر یہ لوگ ایسے ضدی ہیں کہ کسی کی سنتے ہی نہیں الٹے مخالفت پر اڑے ہیں اس لئے اے نبی ! تو ان کو کہہ میں تو تم کو محض نیک نیتی اور تمہاری اصلاح کی غرض سے تم کو تبلیغ کرتا ہوں ورنہ میں اس کام پر تم سے کوئی مزدوری نہیں مانگتا جو مانگوں وہ اپنے پاس رکھو مگر میرے ساتھ رشتہ داری کے تعلقات اور قرابت کی محبت کا تو لحاظ رکھا کرو بالکل اغیار اعدا نہ بن جائو سنو ! میرا بھیجنے والا فرماتا ہے جو کوئی نیکی کا کام کرے گا۔ ہم (اللہ) اس کی نیکی میں اور نیکی بڑھائیں گے یعنی اس کی نیکی بعض دفعہ اور نیکی کا سبب بن جاتی ہے اور اس کے گناہ بھی معاف ہوجاتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا قبول کرنے والا ہے وہ کسی کی نیکی خواہ ذرے جتنی ہو ضائع نہیں کرتا اس کی رحمت کے امیدوار رہنا چاہیے۔ (بعض لوگوں خصوصا شیعہ گروہ نے اس آیت کے معنی سمجھنے میں بہت غلطی کھائی ہے کہتے ہیں مودۃ فی القربی سے مراد ہے آل نبی کی محبت۔ یعنی رسول اللہ کو ارشاد ہے کہ تو ان کافروں کو کہہ دے کہ میں تم سے اور کچھ نہیں مانگتا صرف یہ مانگتا ہوں کہ میری قرابت داروں (اولاد) سے محبت کیا کرو۔ محبت اہل بیت کا مسئلہ الگ رکھا جائے (کیونکہ) اس میں اختلاف نہیں اور اس آیت موصوفہ کو بقاعدہ عربی اور باصطلاح قرآن مجید دیکھا جائے تو مطلب بالکل صاف ہے القربی مصدر ہے بمعنی قرابت اسی لئے اس پر ذو اور ذا مضاف کی صورت میں آتے ہیں چنانچہ ارشاد ہے اٰت ذا القربی حقہ (قرابت داروں کو ان کے حقوق دیا کرو) اس قربی کے استعمال میں مامور کی قرابت کا ضرور لحاظ ہوتا ہے۔ مثلا یہ جو حکم ہے کہ آت ذا القربی حقہ اس میں قرابت سے مراد وہی قرابت ہے جس کا تعلق مخاطب سے ہے۔ ایسی قرابت مراد نہیں ہوسکتی جس سے مخاطب بالکل بے تعلق ہو۔ مثلا ہم اپنی زبان میں بطور و عظ کہیں۔ مسلمانو ! قرابتداروں کے حقوق ادا کیا کرو۔ تو مراد اس سے یہی ہوگی کہ مخاطبو ! اپنے قرابتداروں سے سلوک کیا کرو۔ یہ نہیں کہ واعظ کے قرابتداروں کے حقوق ادا کرو۔ ایسا کہنا قطع نظر خود غرضی کے کچھ موزون بھی نہیں۔ پس معنی آیت موصوفہ کے وہی صحیح ہیں جو ہم نے تفسیر میں کئے ہیں ان معنی کی تائید دوسری آیت سے ہوتی ہے۔ جس میں کفار کی مذمت ان لفظوں میں کی گئی ہے۔ لا یرقبون فی مؤمن الا و لا ذمۃ (پ۔ ع ٨) یہ کفار مؤمن کے حق میں نہ رشتہ کا لحاظ کرتے ہیں نہ وعدہ کا۔ ایسے لوگوں کو کہا گیا ہے کہ میں تم کفار سے کوئی بدلہ نہیں مانگتا۔ ہاں اتنا تو ضرور کہتا ہوں کہ اور کچھ نہیں میرے اور اپنے رشتہ کے تعلق کا لحاظ تو ضرور رکھو۔ ان معنی سے الا المودۃ مستثنیٰ منقطع ہی ہوگا جیسے ان معنی سے یہی منقطع ہے۔ اللہ اعلم (منہ) کیا ان لوگوں کو دیکھ کر بھی کوئی کہہ سکتا ہے؟ کہ یہ بھی اللہ کی رحمت کے امیدوار ہیں جو رسول کی اطاعت کرنے کی بجائے الٹے کہتے ہیں اس نے نبوت کا دعوی کر کے اللہ پر افترا لگایا ہے جو کہتا ہے میں رسول ہوں حالانکہ رسول نہیں سو ایسی صورت میں اگر اللہ چاہے تو اے نبی ! تیرے دل پر مہر لگا دے اور جو کچھ تو نے از خود بنایا ہو اس باطل کو بالکل مٹا دے ایسا کہ اس کا نام ونشان نہ چھوڑے مگر ایسا تو جب کرے کہ واقعی تو نے افترا کیا ہو اور اللہ کے ذمہ جھوٹ لگا یا ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے قدرتی احکام کے زور سے حق کو ثابت رکھا کرتا ہے کوئی شخص کتنا ہی بنے مگر اس سے کسی کی اصلیت مخفی نہیں کیونکہ وہ سینوں کے بھیدوں سے بھی واقف ہے لہذا اس سے کسی کا کھوٹ اور اخلاص چھپ نہیں سکتا اور وہی ذات پاک ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کی برائیاں معاف کردیتا ہے۔ کیونکہ وہ ازراہ اخلاص توبہ کرتے ہیں اور جو کچھ تم کرتے ہو اس کو خوب جانتا ہے تمہارے اعمال کا نتیجہ تم کو پورا دے گا