وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِن فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَ
اسی نے زمین میں پہاڑ بنا کر اس کے اوپر رکھ دیا ہے، اور اس میں برکت ڈال دی ہے، اور چار دنوں میں اس میں پائے جانے والے اسباب زندگی کا بندوبست کیا، پورے چار دنوں میں ( یہ جواب) پوچھنے والوں کے لئے ہے
(10۔18) اور سنو ! اس کی قدرت کا کرشمہ ہے کہ اسی نے زمین کے اوپر بڑے بڑے پہاڑ پیدا کر دئیے جو میخوں کا کام دیتے ہیں ان کے بغیر زمین میں ڈانوانڈول متحرک رہتی اللہ نے اس پر پہاڑوں کی میخیں لگا دیں علاوہ اس کے پہاڑوں سے بھی جو جو فوائد لوگوں کو حاصل ہوتے ہیں وہ بجائے خود مستقل نعمت ہیں اور اس کی قدرت کاملہ دیکھو کہ اس نے زمین میں بڑی برکت دی اور ہر ایک جاندار کی غذا پیدا کرنے کی طاقت اس زمین میں رکھی۔ آج تک جو کچھ زمین سے پیدا ہوا ہے اس کا شمار اور حساب نہیں ہوسکتا باوجود اس کے اس کی روزی اور روزی پیدا کرنے والی قوتوں میں کمی نہیں آئی۔ کیونکہ اللہ علیم قدیر کے زیر حکم کام ہو رہا ہے حالانکہ اس نے یہ سب کچھ مع پیدائش زمین چار یوم میں پیدا کردیا۔ گو امیر لوگ اپنی حیثیت کی غذا کھاتے ہیں اور غریب اپنی حیثیت کی مگر یہ دونوں غذائیں زمین کی پیداوار سے ہیں اس لئے زمین کی روزی سب محتاجوں کے لئے برابر ہے۔ کیا تم نے نہیں سنا۔ کسی بزرگ نے کیا اچھا کہا ہے ادیم زمین سفرۂ عام اوست چہ دشمن بریں خوان نعیماچہ دوست چُناں پہن خوان کرم گسترد کہ سیمرغ درقاف قسمت خورد (اقواتھا میں اضافت اصلی معنی میں نہیں کیونکہ اقوات جمع قوت کی ہے اور قوت گذارہ کی روزی کو کہتے ہیں چونکہ جانداروں کی روزی زمین سے پیدا ہوتی ہے اس لئے ادنیٰ مناسبت سے اقوات کو اس کی طرف اضافت کردیا۔ ورنہ دراصل مراد ہے اقوات ما سکن علیہا (منہ) وہ اپنی سب مخلوق کی برابر پرورش کرتا ہے اسی لئے اس کا نام رب العالمین ہے اس نے اپنی حکمت اور علم کے تقاضا سے زمین میں طاقتیں ودیعت کیں پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جبکہ وہ ابھی پہلی حالت میں دھواں تھا۔ پھر اس دھویں کو اور زمین کو جو ابھی پوری طرح تیار نہ تھی کہا یعنی قدرتی طور پر حکم دیا کہ تیار ہوجائو۔ چاہے خوشی سے چاہے نا خوشی سے یعنی ہر حال میں تم کو تیار ہونا پڑے گا۔ ان دونوں نے بزبان حال عرض کیا حضور ! بھلا ہم کون غلاموں کی کیا مجال کہ دم ماریں ہم برضائو رغبت تیار ہیں یعنی قدرت کے ماتحت ہیں جس صورت میں اللہ چاہے ہم کو بنا لے پس اس دھویں کو دو روز میں تہ بہ تہ سات آسمان بنا دئیے (عربیت کے قاعدہ سے ضمیر مرجع کی موافق ہونی چاہئے اس اصول سے فقضاھا ہونا چاہئے تھا مگر چونکہ جعل مرکب کے دو مفعول دراصل مبتدا خبر ہوتے ہیں اس لئے سبع کے لحاظ سے قضاھن کہا گیا۔ اللہ اعلم (منہ) اور ہر آسمان میں اپنا حکم نافذ کیا جو ہر روز بلکہ ہر ساعت نافذ رہتا ہے اور زمین کو بھی مقہور رکھا۔ غرض دونوں اس کے حکم کے ماتحت ہیں ان میں سے پہلے آسمان کو ستاروں کی قندیلوں کے ساتھ سجا دیا۔ گو بعض سیارے پہلے آسمان سے بہت فاصلہ پر ہیں مگر چونکہ دیکھنے میں پہلے آسمان پر ہیں اس لئے یہی کہا جائے گا کہ پہلے کو سجایا اور شیاطین اور دیگر خلل انداز چیزوں سے اس کو محفوظ کیا۔ کیا مجال کہ اس میں کبھی خلل آیا ہو۔ یا کبھی مرمت طلب ہوا ہو۔ کیونکہ یہ بناوٹ اور اندازہ بڑے غالب اور بڑے علم والے کا ہے جس کے علم اور غلبہ کے مقابلہ میں کوئی مانع ٹھہر نہیں سکتا اتنی قدرت کاملہ دیکھ کر بھی اگر یہ لوگ الٰہی توحید سے روگردانی کریں اور تجھے اس تبلیغ اور وعظ کرنے میں جھوٹا کہیں تو تو کہہ کہ میں تم کو عادیوں اور ثمودیوں جیسے عذاب سے ڈراتا ہوں وہ عذاب ان پر اس وقت آیا تھا جب ان کے پاس ان کے آگے اور پیچھے سے بکثرت پیغمبران اللہ آئے اور انہوں نے آکر ان کو یہ پیغام سنایا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو وہ جواب میں بولے کہ تم کون ہو جو ہم کو ایسی نصیحت کرتے ہو رسولوں نے کہا ہم اللہ کی طرف سے رسول ہیں انہوں نے جواب میں کہا ہمارا پروردگار اگر چاہتا تو فرشتوں کو رسول کر کے بھیجتا پس جبکہ تم فرشتے نہیں ہو ہم بھی تمہاری تعلیم سے جس کو تم اپنے خیال میں اللہ کے پاس سے لے کر آئے ہو منکر ہیں ان کی بے وقوفی دیکھئے کہ تعلیم کو نہیں دیکھا۔ معلم کو اپنا ہم جنس دیکھ کر انکار کر گئے۔ حالانکہ عام قانون ہے۔ کند ہم جنس باہم جنس پرواز کبوتر با کبوتر باز با باز مگر ان کے دلوں میں جو رسولوں کا انکار گھر کر گیا تھا انہوں نے اس کی بھی کوئی پرواہ نہ کی ان تباہ شدوں میں سے عادیوں کا تو یہ حال تھا کہ انہوں نے زمین پر ناحق تکبر کیا گو بہت قوی البحثہ اور طاقتور تھے مگر اصلیت سے زیادہ بڑھے اور بہت بڑے بنے اور بولے کہ بل پوتے میں ہم سے کون بڑا ہے ہم جس طرف توجہ کریں درودیوار ہم سے ڈریں۔ جس قوم پر حملہ کریں۔ پیس دیں کیا انہوں نے اس بات پر غور نہ کیا کہ جس اللہ نے ان کو پیدا کیا وہ ان سے قوی تر ہے اگر وہ دنیا میں سب سے بگاڑتے تو بگاڑتے مگر اس خالق سے تو نہ بگاڑتے جس کے قبضہ قدرت میں سب کچھ ہے لیکن وہ اس طرف نہ آئے کیونکہ وہ بدکار تھے اور ہماری (اللہ کی) آیات نشانات قدرتی اور آیات کتابی دونوں سے انکار کرتے تھے یعنی ان دونوں میں سے کسی سے عبرت حاصل نہ کرتے تھے پس جب ان کا وقت آیا تو ہم نے ان پر نحوست کے دنوں میں جو ان کے حق میں منحوس تھے ان پر بڑے زور کی تیز ہوا بھیجی تاکہ ہم ان کو دنیا کی زندگی میں ذلت کا عذاب چکھا دیں اور آخرت کا عذاب جو بہت خوار کرنے والا ہے۔ ہنوز باقی ہے جس میں وہ بری طرح پکڑے جائیں گے اور ان کو کسی طرح سے مدد نہ پہنچے گی اور ثمود کی قوم کو ہم نے رسولوں کی معرفت راہ نمائی کی مگر انہوں نے گمراہی کو ہدایت پر ترجیح دی وہی بداعمالی وہی بدمستی کرتے رہے جس کا انجام یہ ہوا کہ ان کی بداعمالی کی وجہ سے ذلت کے مہلک عذاب نے ان کو آدبایا پس وہ برباد کئے گئے اور جو لوگ ایماندار اور پرہیزگار تھے ہم نے ان کو بچا لیا باقی سب تباہ کئے گئے