وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلًا أَصْحَابَ الْقَرْيَةِ إِذْ جَاءَهَا الْمُرْسَلُونَ
اور اے نبی ! آپ انہیں بطور مثال بستی والوں کا قصہ (٩) سنا دیجیے، جب ان کے پاس رسول آئے
(13۔30) پس یہ لوگ جلدی نہ کریں ہمیشہ برائی کا بدلہ برا اور نیکی کا بدلہ نیک ہوتا ہے اس لئے ان کو ایک بستی کی مثال سنا۔ (اس بستی کی نسبت بعض مفسروں کی رائے ہے کہ وہ انطاکیہ تھی جس کی طرف حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے شاگردوں کو بھیجا تھا۔ حضرت عیسیٰ کے شاگرد بھی بواسطہ حضرت ممدوح اللہ کے رسول تھے اس لئے اللہ نے ان کو اپنا رسول کہا۔ اس سے بعض عیسائیوں نے یہ نتیجہ نکالنا چاہا کہ قرآن مجید بھی حضرت عیسیٰ کی الوہیت کا قائل ہے کیونکہ قرآن میں مسیح کے رسولوں کو اللہ اپنے رسول کہتا ہے تو معلوم ہوا کہ اللہ اور مسیح ایک ہی ہیں۔ یا مسیح بھی الوہیت ہے۔ بغور دیکھا جائے تو عیسائیوں کے اس تمسّک اور دلیل کی بنا ان مفسرین کے قول پر ہے جنہوں نے ایسی تفسیر کی۔ لیکن اگر ہم قرآن کی آیت کو قرآن مجید ہی کی اصطلاح میں دیکھیں تو نہ کوئی اعتراض ہے نہ کسی کے جواب کی حاجت۔ کیونکہ جتنے اور مقامات پر یہ لفظ (اِنَّآ اَرْسَلْنَا) آیا ہے اس سے یہی مراد ہوتی ہے کہ اللہ نے بلاواسطہ اپنے رسول بھیجے بس یہاں بھی وہی مراد ہے۔ رہا یہ کہ وہ بستی کون سی ہے جس کا یہاں ذکر ہے سو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بستی کا نام نہیں بتلایا۔ نہ اس کے رسولﷺ نے اس کی تعیین کی ہے نہ تعیین کرنے میں کچھ مزید فائدہ ہے۔ اگر ہوتا تو اللہ خود ہی اس کا نام لے دیتا۔ پس ہم بھی اس کی تعیین نہیں کرسکتے جس کو اللہ نے مجمل چھوڑا (منہ) جب ہمارے فرستادہ رسول اس میں آئے یعنی جب ہم (اللہ) نے انکی طرف دو رسول بھیجے تو انہوں نے ان دونوں کی تکذیب کردی پھر ہم نے تیسرے سے ان دونوں کی مدد کی تو ان تینوں نے ملکر کہا ہم تمہاری طرف رسول ہو کر آئے ہیں لیکن اس بستی کے لوگ بھی عجیب دل و دماغ کے آدمی تھے کہ کسی بات نے ان پر اثر نہ کیا اس لئے انہوں نے رسولوں کے جواب میں بالاتفاق کہا کہ تم تو فقط ہماری طرح کے آدمی ہو۔ اللہ رحمان نے کوئی حکم نہیں اتارا اس کی صفت رحمانیت ہی متقاضی ہے کہ بندوں کو آسانی میں رکھے اس لئے تم بالکل جھوٹ کہتے ہو کہ ہم اللہ کے رسول ہی انہوں یعنی رسولوں نے کہا ہمارا پروردگار جانتا ہے کہ ہم تمہاری طرف رسول ہو کر آئے ہیں اور تمہارے انکار سے ہمارا کوئی نقصان نہیں نہ ہم پر گناہ ہے کیونکہ ہمارے ذمے تو واضح طریق سے تبلیغ کرنا ہے اور بس۔ اس کے جواب میں کوئی معقول بات تو بستی والوں کو سوجھی نہیں ہاں اتنا بولے کہ یہ جو آئے دن ہم پر آفات ارضی و سماوی نازل ہورہی ہیں ان میں ہم تمہاری نحوست سمجھتے ہیں جب سے تم آئے ہو ہمارے ملک اور شہر پر یہ آفات آنے لگی ہیں سو اگر تم اس نئے مذہب سے باز نہ آئے تو ہم تم پر پتھرائو کریں گے اور ضرور بالضرور تم لوگوں کو ہماری طرف سے سخت تکلیف دہ عذاب پہنچے گا بس اس گفتگو کو تم لوگ الٹی میٹم (اعلان جنگ) سمجھو اور اپنے وطیرے سے باز آجائو رسولوں نے اس جواب کو سن کر بڑی دلیری اور جوانمردی سے کہا تم لوگ بھی عجیب عقلمند ہو بقول ڈھنڈورا شہر میں لڑکا بغل میں تمہاری نحوست اور شامت اعمال تو خود تمہارے ساتھ ہے جو رات دن بدکاریوں میں مبتلا ہو۔ کیا یہ بھی کوئی انصاف یا ایمانداری ہے کہ اگر تم کو سمجھایا جائے تو تم سمجھانے والے سے لڑتے ہو۔ ہرگز یہ ایمانداری اور انصاف نہیں بلکہ عقلمندوں کے نزدیک تم بڑے بیہودہ ہو اس لئے تمہیں میٹھی دوا بھی بوجہ صفرا تلخ لگی ہے یہ سوال وجواب ہو ہی رہے تھے کہ اتنے میں لوگ جمع ہوگئے اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص جلدی جلدی بھاگتا ہوا آیا اس نے بھی اس گفتگو میں دخل دیکر کہا اے میرے بھائیو ! تم ان رسولوں کی تابعداری کرو دیکھو تم ان لوگوں کی تابعداری کیا کرو جو تم سے کسی قسم کا عوض اور بدلہ نہیں مانگتے اور وہ خود بھی ہدایت یاب ہیں ایسے لوگوں کی تعلیم بے لاگ اور خود غرضی سے خالی ہوتی ہے یہ تو اس نے اشارے سے بات کی جس کو خاص خاص لوگ ہی سمجھتے تھے مگر آخر کار وہ کھیل کھیلا جب لوگوں نے اسے دھمکایا اور کہا کیا تو انہی کے دین پر ہے؟ تو اس نے کہا میرا کیا عذر ہے کہ میں اس اللہ کی عبادت نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیا اور اسی کی طرف میں کیا تم بھی ہر آن رجوع ہو کیا تم لوگ جانتے نہیں؟ کہ ہماری ہستی اور ہمارا وجود سب اسی کے حکم سے وابستہ ہے پھر یہ کیا انصاف اور شعور ہے کہ میں اس کے سوا اوروں کو کبھی معبود بنائوں حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ اللہ رحمان باوجود صفت رحمانیت کے اگر مجھ کو کسی قسم کا ضرر پہنچانا چاہے تو ان مصنوعی معبودوں سے یہ تو کیا ہی ہوسکے گا کہ مجھ کو بحکم خود چھڑالیں ان کی تو سفارش بھی میرے کسی کام نہ آئے گی اور نہ وہ عذاب سے مجھ کو چھڑا سکیں گے بھلا جو خود مشکل میں کام آئے نہ اس کی سعی سفارش قبول ہوسکے تو پھر تم ہی بتلائو کہ ایسے لوگوں کی عبادت کرنے سے مجھے کیا فائدہ مل سکتا ہے؟ کچھ شک نہیں کہ میں ایسا کرنے سے فورا ہی صریح گمراہی میں جاپڑوں گا اس لئے چاہے تم خوش ہو یا ناخوش میں صاف کہتا ہوں کہ یقینا میں اپنے اور تمہارے پروردگار پر ایمان لایا ہوں دیکھو ! کچھ سوچو میں نے کوئی برا کام تو نہیں کیا مانا ہے تو کسی غیر کو نہیں مانا ہاں اپنے اور تمہارے پروردگار کو مانا ہے پھر تم مجھ سے کیوں الجھتے ہو؟ پس تم میری سنو ! دیکھو میں بھی ان رسولوں کی طرح تمہارا خیر خواہ ہوں مگر ان کم بختوں نے اس کی ایک نہ سنی بلکہ اس کو قتل کر ڈالا اللہ کی طرف سے اس کو کہا گیا تو جنت میں داخل ہوجا تیری بخشش ہوگئی مگر قومی شفقت سے اس نے کہا اے کاش میری قوم کو معلوم ہوجو اللہ نے مجھ پر بخشش کی اور مجھے اپنے مقرب بندوں میں کیا اگر میری قوم کو یہ معلوم ہوجائے تو کبھی حق سے سرتابی نہ کریں ہم نے اس کے بعد وہی کیا جو عموماً نبیوں کی مخالفت کا نتیجہ ہوا کرتا ہے کہ ایمانداروں کو نجات دی اور اس کی قوم کو تباہ کیا مگر ان کے تباہ کرنے کے لئے ان پر آسمان سے کوئی فوج نہ بھیجی تھی اور نہ ہم کو بھیجنے کی ضرورت تھی بلکہ انکی ہلاکت تو صرف ایک ہی ہیبت ناک آواز سے ہوئی پس وہ فورا ہی تیز آگ کی طرح ایک دم میں بجھ گئے ان کے حال کو دیکھ کر ہر ایک اہل بصیرت کہتا تھا بندوں کے حال پر افسوس جب کبھی کوئی رسول ان کے پاس آیا تو یہ اس کے ساتھ ٹھٹھے مخول ہی سے پیش آئے اختلاف ان کو بھی یہی تھا جو اس زمانے کے مشرکوں کو ہے کہ اللہ کے ساتھ اور کوئی معبود بھی ہے یا نہیں بس اسی ایک بات پر ساری نزاع تھی اور اب بھی ہے