سورة فاطر - آیت 40

قُلْ أَرَأَيْتُمْ شُرَكَاءَكُمُ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ أَرُونِي مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ أَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمَاوَاتِ أَمْ آتَيْنَاهُمْ كِتَابًا فَهُمْ عَلَىٰ بَيِّنَتٍ مِّنْهُ ۚ بَلْ إِن يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُم بَعْضًا إِلَّا غُرُورًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اے میرے نبی ! آپ مشرکوں سے پوچھئے، کیا تم نے اپنے ان دیوتاؤں کے بارے میں کبھی غور (٢٢) کیا ہے جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، ذرا مجھے دکھلاؤ تو سہی کہ انہوں نے زمین کا کون سا حصہ پیدا کیا ہے، یا آسمانوں کی پیدائش میں اللہ کے ساتھ ان کی کوئی شرکت ہے ؟ یا ہم نے انہیں کوئی کتاب دی ہے جس میں ان کے شرک کے لئے کوئی دلیل موجود ہے؟ بلکہ یہ ظالم لوگ ایک دوسرے سے صرف دھوکہ اور فریب کی باتیں کرتے ہیں

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(40۔45) یہ تو ایک قسم کی نصیحت ہے جسے شاید نہ مانیں اور ایچ پیچ کریں اس لئے بطور مناظرہ ان سے کہہ کہ آئو تو تمہارا صدق و کذب میں اس طرح بھی جانچوں بتلائو تو جن شریکوں کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو مجھے دکھائو تو سہی انہوں نے بنایا کیا ہے؟ کیا زمین میں انہوں نے کچھ پیدا کیا ہے؟ یا آسمانوں میں ان کی کچھ شرکت ہے؟ اگر کچھ بھی نہیں تو پھر کیا یا باوجود اس بے قدرتی کے ہم نے انکو کوئی کتاب دی ہے کہ اسکی دلیل پر یہ لوگ قائم ہیں؟ جس میں اس امر کی بابت ان کو اجازت ہے کہ اللہ کے بندوں کو اللہ کا شریک بنائیں مگر ایسا نہیں بلکہ بعض ظالم لوگ بعض کو محض دھوکہ اور فریب کے وعدے دیتے ہیں جو ایسی ناجائز مشرکانہ حرکات کی طرف بلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم نے اس استھان سے یہ پھل پایا اس قبر سے فلاں مراد پائی جو کوئی یہاں چند ایام اخلاص اور راستی سے مجاور بنا رہے ہیں اس کو ضرور ہی مراد ملتی ہے حالانکہ یہ خیالات بالکل غلط ہیں اللہ تعالیٰ کے حکم کے سوا ایک پتہ بھی حرکت نہیں کرسکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی نے آسمانوں اور زمینوں کو باقاعدہ پیدا کیا ہے اور وہی ان کو گرنے سے تھامے ہوئے ہے کیا مجال کہ کوئی چیز اس کے انتظام سے باہر ہو کر سرتابی کرسکے ہر ایک چیز اپنے قانون کے مطابق پیدا ہوتی ہے بڑھیر ہے فنا ہوتی ہے اور اگر یہ دونوں اپنی جگہ سے ٹل جائیں تو اس اللہ کے سوا کوئی ان کو سنبھال نہیں سکتا کیونکہ سنبھالے تو وہ جس میں خالقیت کا وصف ہو اور خالقیت کا وصف مخلوق میں نہیں ہوسکتا خالق صرف وہی وحدہ لاشریک لہ ہے اس لئے وہ باوجود واحد خالق ہونے کے بڑا حوصلے والا اور بخشنے والا ہے نالائق مشرکوں کی شرارت اور شوخی پر تنک مزاجی سے جلد رنجیدہ نہیں ہوتا بلکہ تھوڑی سی توجہ کرنے پر بخش دیتا ہے مگر ان لوگوں کی بھی عجیب حالت ہے بقول ؎ کرم ہائے تو مارا کرد گستاخ جہالت پر جہالت کئے جاتے ہیں گستاخی پر گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں ایک زمانہ تھا کہ انہوں نے بڑی پکی قسمیں اٹھائی تھی کہ اگر ہمارے پاس کوئی سمجھانے والا آئے تو ہم ضرور ہی دیگر اقوام کتابیہ سے زیادہ ہدایت یاب ہوں گے یہ خواہش ان کی اہل کتاب (یہودو نصاریٰ) کی بد اطواری دیکھ کر ہوتی تھی پھر جب ڈرانے والا ان کے پاس آپہنچا یعنی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رسول ہو کر آگئے تو ملک میں تکبر اور بد اطواری کرنے کی وجہ سے ان کو سچی تعلیم اور حقانی تلقین سے نفرت ہی نفرت زیادہ ہوتی گئی کیونکہ ان کو عادت ہے ماتحتوں پر تکبر کرنے کی اور اسلام نے سب بنی آدم کو ایک نظر سے دیکھا ہے چونکہ تکبر اور بد اطواری اللہ کو ناپسند ہے اس لئے بداطواری کا اثر ہمیشہ کرنے والوں ہی پر پڑتا ہے سو ان سے بھی وہی برتائو ہوگا کیونکہ یہ بھی تو اب بس پہلے لوگوں کے سے برتائو کا سا انتظار کر رہے ہیں کہ جس طرح ان پر عذاب آیا ان پر بھی آئے پس تم اللہ کے قانون کو متغیر نہ پائو گے اور ہرگز الٰہی قاعدہ کو ٹلتا ہوا نہ دیکھو گے ضرور بالضرور ایسا ہی ہوگا جو وقت کسی کام کا اللہ کے نزدیک مقرر ہے وہ کام اس وقت پر اسی طرح ہو کر رہتا ہے کیا انہوں نے ملک میں پھر کر نہیں دیکھا؟ کہ ان سے پہلے لوگوں کا انجام کیسا ہوا جو جتھے میں زیادہ اور بل بوتے میں ان سے بڑھ کر تھے لیکن آخر کار ہلاک ہوئے کیونکہ مخلوق تھے اور اللہ تو خالق ہے اس کو تو کوئی چیز نہ آسمانوں میں عاجز کرسکتی ہے نہ زمین میں کہ کسی کام کو وہ کرنا چاہے اور بوجہ کسی مانع کے نہ کرسکے ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ یعنی اللہ بڑے علم والا اور بڑی قدرت والا ہے نہ اس کے علم کو کوئی پاسکتا ہے نہ اس کی قدرت کو کوئی پہنچ سکتا ہے باوجود اس علم اور قدرت کے حلم اور حوصلہ بھی اس قدر ہے کہ تمام مخلوق کو باوجود بے فرمانیوں کے مہلت اور ڈھیل دیتا ہے حالانکہ اگر اللہ لوگوں کو ان کے برے کاموں پر مواخذہ کرے تو کسی جاندار کو زمین پر زندہ نہ چھوڑے بالغوں اور شرعی مکلفوں کو تو گناہوں کے بدلے باقی ان کے ساتھ تبعیت میں ہلاک ہوجائیں کیونکہ ان کی پرورش کا انتظام انہی سے وابستہ ہے لیکن ایک مقررہ وقت (موت) تک ان کو ڈھیل دیتا ہے پس جب ان کا وقت آجائیگا تو اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کے مطابق ان کو بدلہ دیگا کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دیکھ رہا ہے۔ الٰہی برما منگر بر کرم خویش نگر