سورة سبأ - آیت 31

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَن نُّؤْمِنَ بِهَٰذَا الْقُرْآنِ وَلَا بِالَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ ۗ وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الظَّالِمُونَ مَوْقُوفُونَ عِندَ رَبِّهِمْ يَرْجِعُ بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ الْقَوْلَ يَقُولُ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا لَوْلَا أَنتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور اہل کفر کہتے ہیں کہ ہم اس قرآن پر ہرگز ایمان (٢٦) نہیں لائیں گے، اور نہ اس کتاب پر جو اس سے پہلے آچکی ہے، اور کاش آپ ظالموں کا حال زار اس وقت دیکھتے جب وہ اپنے رب کے حضور کھڑے کئے جائیں گے، ایک دوسرے کو قصور وار ٹھہرائیں گے، جو لوگ دنیا میں کمزور سمجھے جاتے تھے وہ ان سے کہیں گے جو متکبر بنے پھرتے تھے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم ایمان لے آئے ہوتے

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(31۔47) اور سنو ! ایسے سوالات کرنے والے کافر لوگ کہتے ہیں کہ ہم نہ تو اس قرآن کو مانیں گے نہ اس سے پہلی کسی کتاب کو جائو ہم دونوں سے الگ ہیں ہم کسی کی نہیں سنیں گے لطف یہ ہے کہ یہاں تو بڑے لوگوں کی سن کر چھوٹے بھی وہی راگ الاپتے ہیں اے کاش تم وہ وقت بھی کہیں سے دیکھ پائو جب یہ ظالم اپنے پروردگار کے سامنے مجرمانہ حالت میں کھڑے کئے جائیں گے اس حال میں ایک دوسرے کی طرف سوال و جواب میں باتیں لوٹائیں گے کوئی کچھ کہیگا کوئی کچھ جس کی تفصیل یہ ہے کہ یہی ضعیف لوگ جو دنیا میں بڑوں کی تابعداری میں ہر ایک نیک و بدبات بلا تمیز کہہ دیتے ہیں بڑے آدمیوں کو کہیں گے۔ اے ظالمو ! اگر تم نہ ہوتے تو ہم ایماندار ہوتے اے باد صبا ایں ہمہ آوردہ تست بڑے لوگ ان ماتحت ضعیفوں کو جواب میں کہیں گے کیا ہم تم کو ہدایت آنے کے بعد ہدایت سے روکا تھا؟ یعنی ہمارا تم پر کوئی جبر تھا؟ نہیں بلکہ تم خود مجرم تھے کہ بے سوچے سمجھے ہماری ہاں میں ہاں ملاتے تھے اس کے جواب میں ضعیف لوگ بڑے لوگوں کو کہیں گے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ تمہارے شبانہ روز دائو گھات نے ہم کو روکا جب تم ہم کو ہر ایک طریق سے حکم کیا کرتے تھے کہ ہم اللہ کے حکموں سے انکار کردیں اور اس کیلئے شریک بنادیں اس لئے ہم بھی ایسا کرتے تھے ورنہ ہم کو کیا سمجھ تھی اور کیا یارا تھا کہ ہم ایسا کرتے اسی طرح جب وہ لوگ تابع اور متبوع عذاب دیکھیں گے تو چھپے چھپے پچھتاویں گے اور چپکے چپکے ایک دوسرے کو ملامت کریں گے اور ہم (اللہ) ان کافروں کی گردنوں میں طوق دلوادیں گے جو انہوں نے کیا ہوگا وہی ان کو بدلہ ملے گا یہ ہمیشہ سے چلا آیا ہے کہ ہم (اللہ) نے جس بستی میں کبھی رسول بھیجے تو وہاں کے آسودہ لوگوں پر چونکہ احکام کی پابندی ناگوار خاطر تھی اسلئے انہوں نے کہا کہ جو احکام دے کر تم کو بھیجا گیا ہے ہم ان سے منکر ہیں ہم سے ایسی غلامی نہیں ہوسکتی اور بولے کہ ہم ایسے گئے گذرے نہیں کہ باوجود آسودہ ہونے کے تمہارے جیسے ناداروں کے تابع ہوجائیں جبکہ ہم مال اور اولاد میں تم سے کئی ایک درجہ زیادہ ہیں اور یہ تو ظاہر ہے کہ جب یہاں ہماری عزت ہے تو آخرت میں بھی ہم کو کسی برے کام پر عذاب نہ ہوگا چونکہ یہی خیال اس زمانے کے لوگوں کا بھی ہے کہ دناہوی آسودگی پر آخرت کی نجات کو قیاس کرتے ہیں اس لئے اے نبی ! تو ان سے کہہ کہ یہ خیال تمہارا غلط ہے اصل یہ ہے کہ دنیاوی رزق کی حکمت اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے میرا پروردگار جو تمام دنیا کا مالک ہے جس کو چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے یہ اس کی حکمت کا تقاضا ہے لیکن اکثر لوگ اس راز حکمت کو جانتے نہیں اور محض اٹکل پچو حکم لگاتے ہیں حالانکہ تمہارے مال اور اولاد ایسے نہیں کہ تم کو ہمارے (اللہ کے) قرب میں پہنچائیں لیکن جو ایمان لائیں اور عمل نیک کریں انہی کے لئے ان کے اعمال کے مطابق دہرا بدلہ ہوگا اور وہ بڑے بڑے بلند بالا خانوں میں امن سے رہیں گے خواہ وہ دنیا میں امیر ہوں یا غریب خواہ دنیا داروں کی نگاہ میں معزز ہوں یا ذلیل کیونکہ دنیاوی وجاہت اور شے ہے اور اخروی عزت دار ان دونوں میں تعلق اور ملازمت اسی وقت ہوتی ہے جب کوئی شخص دنیاوی عزت کے نشہ میں مست ہو کر آخرت کو بھول نہ جائے اور جو لوگ دنیاوی عزت کے نشہ میں آخرت کو بھول کر مخالفانہ طور سے ہمارے احکام کو توڑنے میں لگتے ہیں وہ لوگ عذاب میں حاضر کئے جائیں گے اے نبی ! تو ان کو کہہ کہ تم کس خام خیالی میں ہو؟ میرا پروردگار اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے رزق تنگ کردیتا ہے اس تنگی اور فراخی پر تم ہرگز خیال نہ کرو اور اس کو مدار کار نہ جانو ہاں یہ یقین رکھو کہ جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچو گے اس کا بدلہ وہ تم کو ضرور دے گا اور وہ سب سے اچھا رزق دینے والا ہے ایک اصولی غلطی تو ان کی یہ ہے جو ذکر ہوئی دوسری غلطی یہ ہے کہ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ فرشتے جو ہماری نظر سے غائب ہیں اس لئے ان کا تعلق اللہ کے ساتھ ضرور کچھ ہے اس خیال میں پھنس کر یہ لوگ فرشتوں کو بھی الٰہی کاموں میں کچھ دخیل جانتے اور مانتے ہیں سو جس روز اللہ ان سب کو جمع کریگا یعنی قیامت کے دن تو فرشتوں کو بطور اظہار ناراضگی کہے گا کیا یہ لوگ تمہاری عبادت کرتے تھے؟ وہ فرشتے کہیں گے اے اللہ تو پاک ہے ہمارا تو والی ہے ان سے ہمارا تعلق نہیں ہم تو ان کو جانتے بھی نہیں نہ یہ ہم کو جانیں بلکہ یہ لوگ دراصل جنوں یعنی شیاطین کی عبادت کرتے تھے گو اس کا اظہار نہ کرتے ہوں کہ ہم جنوں کی پوجا کرتے ہیں لیکن انکی ایسی حرکات چونکہ انہی کی تحریکات سے ہوتی تھیں اس لئے یہ بالکل ٹھیک ہے کہ دراصل جنوں کی عبادت کیا کرتے تھے اکثران میں کے انہی کو مانتے تھے انہی پر انکا ایمان تھا اللہ کی طرف سے انکو جواب ملے گا اصل بات وہی ہے جو تم نے بتا دی پس اس روز تم میں سے کسی کو نہ تو کسی کے نفع پہنچانے کا اختیار ہوگا نہ نقصان کا بلکہ اصل مالک مختار ہماری (اللہ کی) ذات ہوگی اور جن لوگوں نے تم (فرشتوں اور صالحین) بندوں کو مشکل کشا حاجت رواجانا تھا ان کی غلطی اس روز اظہر من الشمس ہوجائے گی اور ہم (اللہ) ظالموں سے کہیں گے کہ آگ کا عذاب مزے سے چکھو جس کی تم لوگ تکذیب کیا کرتے تھے دیکھئے یہ لوگ تکذیب کرتے ہیں اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ نبی کے منہ سے نکلی ہوئی ہر ایک بات کی تکذیب کرتے ہیں اور جب ہمارے کھلے کھلے احکام ان کو سنائے جاتے ہیں تو معقول جواب یا عذر تو کر نہیں سکتے ہاں اتنا کہتے ہیں یہ شخص (حضرت محمدﷺ) تو صرف ایک آدمی ہے جو تم کو تمہارے باپ داد اکے معبودوں سے روکنا چاہتا ہے اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کی یہ تعلیم تو صرف ایک گھڑا ہوا جھوٹ ہے دیکھو ان کافروں کی شومی قسمت کہ ان کے پاس جب خالص سچائی کی تعلیم آئی تو کہتے ہیں کہ یہ تو صریح جادو ہے کیونکہ اس تعلیم کی روشنی سے ان کی آنکھیں چکا چوند ہوجاتی ہیں اس لئے وہ اس کا نام جادو رکھتے ہیں اے نبی ! اصل بات یہ ہے کہ تجھ سے پہلے ہم نے ان کو کوئی کتاب نہیں دی جس کو یہ لوگ پڑھتے ہیں اور نہ تجھ سے پہلے حضرت اسماعیل کے بعد ان کے پاس ڈرانیوالا کوئی رسول آیا اس لئے ان کی غفلت حد سے بڑھ گئی تو اللہ کی رحمت ان کے حال پر متوجہ ہوئی مگر ان لوگوں نے وہی طریقہ اختیار کیا جو ان سے پہلے لوگوں نے اختیار کیا تھا کہ نبیوں کی تکذیب کی اور بضد تکذیب کی ایسی کہ تمام عمر ایسی ضد پر اڑے رہے یہ لوگ بھی انہی کی ریس پر چلے حالانکہ جو کچھ ہم نے ان کو دے رکھا تھا یہ لوگ عرب کے رہنے والے اس کے عشر عشیردسویں بیسویں حصے کو بھی نہیں پہنچے پھر ان لوگوں نے تکذیب کی تو میری ناراضگی ان پر کیسی ہوئی؟ سب کو معلوم ہے کہ انکو نیست و نابود کر کے جڑ سے اکھیڑ دیا تو کیا یہ لوگ اس برائی کا بدلہ نہ پائینگے؟ بے شک پائینگے اے نبی ! تو انکو سمجھانے کیلئے کہہ کہ میں تم کو صرف ایک بات بتلاتا ہوں تم اس پر عمل کرو گے تو میرا مطلب پاجائو گے وہ بات یہ ہے کہ تم لوگ باہمی ملکر اور اکیلے اکیلے ہو کر اللہ تعالیٰ کی طرف لگ جائو یعنی اس کا خیال اور خوف دل میں رکھو پھر فکر کرو تو اس نتیجہ پر پہنچ جائو گے کہ تمہارے ہم نشین (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جنون نہیں ہے پھر جو یہ تمہاری رسومات اور عادات اور عبادات وغیرہ کی مخالفت کرتا ہے تو اس کی وجہ کیا ہے ؟ وجہ صرف یہی ہے کہ وہ اپنے باطنی نور سے تم کو گناہوں اور بدکاریوں کی ظلمات میں پھنسا ہوا پاتا ہے اس لئے وہ بڑے سخت عذاب سے پیشتر تمہیں برے کاموں سے ڈرانے کو آیا ہے اور کچھ نہیں اے نبی تو یہ بھی کہہ دے یہ مت سمجھو کہ اس میں میرا کوئی ذاتی فائدہ ہے میں نے اس کی کوئی مزدوری مانگی ہو تو وہ تم ہی کر رہے میری اجرت اور مزدوری تو اللہ ہی کے ذمہ ہے اور کسی سے میرا مطلب نہیں اس کے سوا نہ میں کسی کا اجیر ہوں نہ کسی سے توقع رکھتا ہوں اور وہ ہر ایک چیز پر ناظر اور حاضر ہے