وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا
اور جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے میں فیصلہ (29) کر دے، تو کسی مسلمان مرد اور عورت کے لئے اس بارے میں کوئی اور فیصلہ قبول کرنے کا اختیار باقی نہیں رہتا، اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا وہ کھلی گمراہی میں مبتلا ہوجائے گا
اسی لئے کسی مسلمان مرد یا عورت کو لائق نہیں کہ جب کسی دینی کام میں اللہ اور اس کا رسول ان کے متعلق فیصلہ کردیں یعنی حکم دیں تو ان مسلمانوں کو بھی اپنے کام میں اختیار باقی ہو یعنی جب اللہ کی طرف سے کوئی کام میں اختیار باقی ہو یعنی جب اللہ کی طرف سے کوئی حکم آجائے خواہ ان کی طبائع کے بر خلاف ہی ہو ان کو لائق نہیں کہ چون و چرا کرے اور کیونکہ کر چون و چرا کرسکیں جبکہ عام قانون وہ سن چکے ہیں کہ جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی بے فرمانی کرتا ہے وہ صریح گمراہی میں پڑجاتا ہے اس آیت کے متعلق تفسیروں میں شان نزول لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت زینب (رض) کا نکاح زید سے کرنا چاہا تھا مگر چونکہ زید عام نظروں میں ایک غلام تھا اور زینب ایک شریف خاندان کی آزاد عورت تھی اس لئے زینب اور اس کے بھائی دونوں نے یہ رشتہ نامنظور کیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ مگر بغور دیکھا جائے تو یہ شان نزول صحیح معلوم نہیں ہوتا۔ اصول شریعت کے مطابق دیکھا جائے تو گو نکاح کرنا ایک شرعی حکم ہے مگر یہ بات کہ نبی کسی خاص عورت کو کسی خاص مرد سے یا کسی خاص مرد کو کسی عورت سے نکاح کرنے پر شرعی طور پر مامور کرے صحیح نہیں یعنی یہ نہیں کہہ سکتا کہ تو فلاں مرد سے شادی کر۔ اور اگر وہ عورت نہ مانے تو نافرمان قرار پائے۔ ہمارے اس دعویٰ پر بریرہ (رض) والی حدیث قوی شہادت ہے جس میں مذکور ہے کہ بریرہ نکاح مغیث (رض) سے تھا مگر بریرہ جب آزاد ہوئی تو بحکم شریعت اس کو سابقہ نکاح رکھنے نہ رکھنے میں اختیار تھا۔ بریرہ نے مغیث کے ساتھ نکاح رکھنے سے انکار کردیا۔ مغیث اس کا شیفتہ تھا۔ دیوانہ وار اس کے پیچھے روتا پھرتا۔ یہاں تک کہ حضور نبوی تک بھی خبر پہنچی تو حضور کو رحم آیا۔ آپ نے اپنی مجلس میں ایک دفعہ سرسری طور پر فرمایا کہ مغیث کی محبت اور بریرہ کا بخل بھی قابل دید ہے۔ یہاں تک آپ کو رحم آیا کہ آپ نے بذات خود بریرہ سے کہا کہ تو مغیث کو قبول کرلے۔ اس دانا عورت (رضی اللہ عنہا) نے کیسا آزادانہ جواب دیا کہ حضور آپ مجھ کو حکم فرماتے ہیں یا مشورہ دیتے ہیں؟ حضور نے فرمایا کہ حکم نہیں کرتا مگر مشورہ دیتا ہوں۔ بریرہ نے کہا حضور مجھے معاف فرمائیے۔ میں اس پر عمل نہیں کرتی۔ یہ سن کر حضور نے بھی کوئی رنج ظاہر نہ فرمایا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نکاح۔ طلاق وغیرہ گو احکام شرعی ہیں لیکن خصوصیت سے ان میں مسلمان مجبور اور مامور نہیں کہ فلاں عورت سے فلاں مرد سے نکاح کرے خواہ نبی کی طرف سے بھی سفارش ہو۔ تاہم مسلمان اس میں مختار ہے۔ جب ہم اس اصول عامہ کو ملحوظ رکھ کر روایت مذکورہ کو جانچتے ہیں تو وہ ہم کو راوی کا اپنا فہم معلوم ہوتا ہے جو واقعہ نہیں۔ ہمارا یہ کہنا کہ ” راوی نے اپنے فہم سے یہ شان نزول بیان کردیا ہے جو واقعہ نہیں“ کوئی صاحب نیا دعویٰ نہ سمجھیں حضرت استاد الہند شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی قدس سرہ اپنے رسالہ فوز الکبیر فی اصول التفسیر میں شان نزول کے متعلق ایک بسیط مضمون لکھتے ہیں اسی میں یہ بھی فرمایا ہے کہ بسا اوقات راوی اپنے فہم سے کسی آیت کو ایک واقعہ کے ساتھ چسپان سمجھتا ہے تو وہ حکم لگا دیتا ہے کہ اسی واقعہ کے متعلق اتری ہے چنانچہ اس کی بہت سی مثالیں بھی ملتی ہیں۔ شان نزولوں کا تعدد بھی اسی اصول پر مبنی ہے چنانچہ اس آیت کے متعلق بھی متعدد“ شان نزول آئے ہیں۔ غالباً اسی لئے حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ فھٰذہ الاٰیۃ عامۃ فی جمیع الاَمور وذٰلک انہ اذاحکم اللّٰہ ورسولہ بشیء فلیس لاید مخالفۃ ولا اختیار لاحد (تفسیر ابن کثیر) یعنی یہ آیت سب احکام میں عام ہے جب کبھی اللہ اور رسول کسی کام میں حکم دیں تو کسی مسلمان کو اس کی مخالفت جائز نہیں اس تشریح کے بعد ہم اس آیت کے دوسرے حصے پر آتے ہیں جس میں ہم کو کفار سے روئے سخن ہے۔ عیسائیؔ اور آریہ وغیرہ نے اپنی تصنیفات میں پیغمبر اسلام (علیہ السلام) پر جس قدر مطاعن لکھے ہیں ان میں بہت سا حصہ اسی آیت کی وجہ سے ہے کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام نے معاذ اللہ شہوت سے مغلوب ہو کر اپنے بیٹے (زید) کی بیوی اس سے چھڑوا کر آپ شادی کرلی۔ یہ حرکت ایک شائستہ آدمی کی شان کے بھی مخالف ہے چہ جائیکہ ایک نبی کے شایان شان ہو۔ ہمارے خیال میں ان مخالفین کے اعتراضوں کی بنا زیادہ تر ہمارے ہی نادان دوستوں کی تحریریں ہیں جنہوں نے اپنی کم فہمی سے اس آیت کے متعلق وہ الفاظ تفسیروں میں جمع کردیئے ہیں کہ ایک شریف آدمی کو سننے سے شرم آتی ہے۔ کہتے ہیں کہ :۔ ” آنحضرت ﷺ ایک دفعہ زید کے گھر میں تشریف لے گئے تو زینب جو ایک خوبصورت عورت تھی دوپٹہ لئے بیٹھی تھی آپ کی نگاہ اس پر پڑگئی بس ایک ہی نگاہ میں دل ایسا بے قابو ہوا کہ حضور کے منہ سے بھی بے ساختہ یہ الفاظ نکل گئے کہ سبحان اللّٰہ مقلب القلوب (اللہ دلوں کے پھیرنے والا ہے) جب زید (اس کا خاوند) آیا تو زینب نے اس سے یہ واقعہ ذکر کیا اور یہ سن کر اس کے دل میں زینب کی طرف سے کچھ کراہت سی پیدا ہوگئی اور اس نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر زینب کو طلاق دینے کا منشا ظاہر کیا۔ “ یہ ہے وہ روایت جو بعض کم فہم مفسرین نے بے تنقید نقل کردی ہے۔ اس کی تردید کرنے کی ہمیں حاجت نہیں بلکہ جو کچھ سلف مفسرین نے اس کی تردید کی ہے ہم وہی نقل کرتے ہیں۔ تفسیر خازن میں لکھا ہے :۔ کہ ایسا کہنے والے نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان پر بہت بڑا حملہ کیا ہے بھلا یہ کیونکر کوئی کہہ سکتا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو اب دیکھا ہو۔ حالانکہ زینب آپ کی پھوپھی زاد تھی۔ لڑکپن ہی سے آپ اس کو دیکھتے رہے اس وقت چونکہ پردہ کا حکم بھی نہ تھا اس لئے عورتیں آپ سے چھپا بھی نہ کرتی تھیں آپ ہی نے اس کی شادی زید سے کرائی تھی۔ پھر یہ کیونکر ہوسکتا ہے؟ کہ آپ بظاہر تو زید کو سمجھادیں کہ اسے مت چھوڑ اور دل میں اس کی طلاق کی خواہش ہو۔ “ اس تردید کے علاوہ بغور دیکھا جائے تو خود اسی روایت میں اس کی تردید کے الفاظ ملتے ہیں۔ اسی روایت میں ہے کہ زید نے جب اس کو طلاق دینے کا ارادہ ظاہر کیا اور حضور نے فرمایا ارابک منھا شیء کیا تجھے اس کی کوئی بات ناپسند آئی ہے زید نے عرض کیا مارایت منھا الا خرماً ولٰکنھا تتعظم علیٰ بشر فھاوتؤذینی بلسانھا (میں نے اس میں سوا بھلائی کے اور کچھ نہ پایا لیکن وہ اپنی خاندانی شرافت کی وجہ سے مجھ پر علو رکھتی ہے اور مجھے کمینہ جانتی ہے اور زبان کی بدگوئی سے مجھے ایذا دیتی ہے) ان الفاظ میں زید نے زینب کی ناچاقی اور طلاق تک نوبت پہنچنے کے اسباب خود ہی بتلائے ہیں اور حضور کا روک رکھنے کی بابت اس کو حکم دینا بھی قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ اب ناظرین کا اختیار ہے کہ اس روایت کے مصنف کو سچا سمجھیں اور جناب رسالت مآب اور صحابی زید کو جھوٹا جانیں کہ انہوں نے اس طلاق کی جو وجوہات بتلائیں وہ غلط تھیں بلکہ دراصل کچھ اور تھیں (معاذ اللہ) اس روایت کی تنقید کے بعد اب مخالفین سے تصفیہ بہت آسان ہے اصول گفتگو تو یہ ہے کہ نبی کی شان کے مخالف ہے کہ وہ کسی قسم کی بدکاری یا فسق و فجور کرے مگر گناہ کی تعریف ” حکم کے خلاف کرنا“ ہے یعنی جس کام کا حکم ہو اس کے برخلاف کرنا گناہ ہے۔ ہر ایک شریعت اور قانون میں یہی تعریف ہے۔ یہی باعث ہے کہ جب تک کسی کام کی ممانعت کا قانون پاس نہ ہو وہ جرم میں داخل نہیں سمجھا جاتا ١٩٠٨ئ میں جب تک اخباروں کے متعلق ایڈیشن (فتنہ انگیز تحریروں) کا قانون سخت نہ کیا گیا۔ کسی ایسی تحریر پر کوئی گرفتار نہ ہوتا تھا مگر جونہی قانون جاری ہوا۔ تو بڑے بڑے معزز اس جرم میں جلا وطن کئے گئے۔ قرآن مجید میں بھی اسی طرف اشارہ ہے اِنْ تَجْتَنِبُوْا کَبَآئِرَ مَا تُنْھَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ یعنی اگر تم ان کاموں کے کرنے سے بچتے رہو گے جن سے تم کو منع کیا جاتا ہے تو ہم معمولی لغزشیں تمہاری معاف کردیں گے۔ اس آیت میں گناہ کی تعریف یہ کی ہے کہ جس کام سے منع کیا گیا ہو اس کا کرنا گناہ ہے پس تعریف کے مطابق مطلع بالکل صاف ہے کہ جو کچھ آنحضرت ﷺ نے کیا وہ اسلامی شریعت میں تو کیا کسی دین و مذہب میں بھی منع نہیں۔ متبنے (لے پالک) بنانا فطرت انسانی اور قانون قدرت کے صریح خلاف ہے اس لئے کہ باپ بیٹے کا تعلق یہ ہے کہ بچہ باپ کے نطفے سے وجود پذیر ہوتا ہے اسی سبب سے وہ اس کا باپ اور وہ اس کا بیٹا کہلاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ بچہ اپنے باپ کا تو بیٹا کہلاتا ہے مگر چچا کا باٹگ نہیں کہلاتا لیکن جن قوموں میں متبنی بنانے کا دستور ہے وہ متبنی کو اصل والد سے بالکل الگ کر کے مصنوعی باپ سے جوڑ دیتے ہیں اور اس کی نسل کو اس بچہ سے جاری ہونا خیال کرتے ہیں (ملاحظہ ہوستیارتھ پرکاش ص ١٤٦) اس لئے قرآن مجید نے اس رسم کو مٹانے کے لئے متعدد ذریعے اختیار کئے۔ پہلے تو یہ فرمایا ماجَعَلَ اَدْعِیَآئَ کُمْ اَبْنَآئَ کُمْ ذٰلِکُمْ قَوْلُکُمْ بِاَفْوَاھِکُمْ جن بچوں کو تم لے پالک بنا لیتے ہو اللہ نے ان کو تمہارے بیٹے نہیں بنایا یہ تو صرف تمہاری منہ کی باتیں ہیں جن کا اثر قدرتی کارخانہ پر کچھ بھی نہیں پڑتا۔ اتنا کہنے سے اس رسم کے حامیوں کو کسی قدر اس رسم سے نفرت ہوئی تو فرمایا اُدْعُوْھُمْ لِاٰبَآئِھِمْ ان لے پالک بچوں کو ان کے اصلی باپوں کے ناموں سے پکارا کرو ھُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ اللہ کے نزدیک یہی انصاف ہے۔ جب یہ حکم سنا کہ ان کی ولدیت اپنے نام سے نہ کہا کرو تو پھر کون تھا کہ ناحق کے جھمیلے میں پڑتا اور خواہ مخواہ کے اخراجات اپنے ذمہ لیتا کیونکہ جو لوگ متبنے بناتے ہیں ان کی غرض یہی ہوتی ہے کہ یہ بچہ ہمارے نام سے پکارا جائے تاکہ دنیا میں ہمارا نام رہے چونکہ یہ ایک جاہلانہ رسم ہے لہٰذا اسلام اگر اس فضول رسم کی طرف خیال نہ کرتا تو اس کا مقصد ناتمام بلکہ بہت کچھ ناقص رہتا۔ چونکہ یہ رسم بھی کوئی معمولی رسم نہ تھی بلکہ تمام ملک کے رگ دریشہ میں سرایت کررہی تھی۔ اس لئے اسلام نے اس بدرسم کی طرف معمولی الفاظ میں توجہ کافی نہ جان کر اپنے نبی کو حکم دیا کہ تم اس بدرسم کی اصلاح یوں کرو کہ ” لے پالک“ بیٹے کی مطلقہ بیوی سے خود شادی کرلو تاکہ تمہاری سنت کے مطابق مسلمانوں کو اس پر عمل کرنا آسان ہو اور ملک سے یہ بدرسم دور ہوجائے چنانچہ اس علت کی طرف اللہ تعالیٰ نے خود اشارہ فرمایا ہے لِکَیْلَا یَکُوْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیٓ اَزْوَاجِ اَدْعِیَآئِھِمْ۔ ہم نہیں سمجھتے کہ اس رسم سے ہمارے مہربانوں (عیسائیوں اور آریوں وغیرہ) کو کیا محبت اور الفت ہے۔ عیسائیوں پر تو اتنا افسوس نہیں کیونکہ وہ پہلے کون سے قانون قدرت کے پابند ہیں؟ ان کی ابتدائی تعلیم اور مذہب کا بنیادی پتھر (تثلیث) ہی گورکھ دھندا ہے۔ ایک میں تین اور تین میں ایک۔ اس لئے وہ تو قابل معافی ہیں البتہ افسوس آریوں پر ہے کیونکہ ان کا رشی دیانند ان کو تعلیم دیتا ہے کہ :۔ ” جو بات قانون قدرت کے خلاف ہے وہ جھوٹی ہے۔“ (ستیارتھ پرکاش ص ٦٧٩) تاہم وہ اس خلاف قدرت رسم کے ایسے مؤید ہیں کہ اس کے مٹانے والوں سے مخالفت کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں عیسائیو ! اللہ کے نبیوں کی توہین کرنے سے شرم کرو۔ سماجیو ! اپنے رشی کی تعلیم کی قدر کر کے اس بدرسم کی اصلاح کرنے میں اسلام کا ہاتھ بٹاؤ۔ (منہ) اصلی معنے میں لے پالک وہ ہوتا ہے جس کو بنانے والا اپنا والد کہے اور ولدیت لکھاتے ہوئے وہ لے پالک اسی کی ولدیت لکھائے (منہ)