وَقَالُوا أَإِذَا ضَلَلْنَا فِي الْأَرْضِ أَإِنَّا لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ ۚ بَلْ هُم بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ كَافِرُونَ
اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ کیا جب ہم زمین میں غائب ہوجائیں گے تو از سر نو پیدا (٨) کئے جائیں گے، بلکہ یہ کفار اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں
(10۔22) اور کہتے ہیں کیا جب ہم مر کر زمین میں مل جائیں گے یعنی ہمارے ریزے ریزے ہو کر مٹی میں مٹی ہوجائیں گے تو کیا ہم پھر ایک دفعہ نئی پیدائش میں ہوں گے؟ ان لوگوں کا خیال ہے کہ یہ امور محال ہیں محال نہیں بلکہ یہ لوگ اپنے پروردگار کی ملاقات سے منکر ہیں ان کو یقین بلکہ انکار ہے کہ اعمال کا نیک و بد بدلہ کچھ نہ ہوگا اے نبی ! تو ان کو کہہ کہ تم کو موت کے فرشتے فوت کرتے ہیں جو تم پر مقرر کئے گئے ہیں بعد موت پھر تم اپنے پروردگار کے حضور میں واپس کئے جائو گے اس وقت تمہیں معلوم ہوگا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اے نبی ! اگر تو اس وقت ان کو دیکھے جب مجرم اپنے پروردگار کے حضور میں سروں کو نیچے ڈالے ہوں گے اس وقت کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ! ہم نے تیرا عذاب دیکھا اور تیرا ارشاد سناپس تو ہم کو دنیا کی طرف ایک دفعہ پھیر تاکہ ہم نیک عمل کریں کچھ شک نہیں کہ اب تو ہم کو بالکل یقین ہوگیا ہے کہ اللہ کی قدرت اور جلالت سب پر غالب ہے اور ہمارے مصنوع معبود بالکل ہیچکارہ ہیں پس اب ہم اس امر کو باور کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے اس روز یہ سب لوگ سچی ہدایت کے قائل ہوں گے اور تسلیم کریں گے اگر ہم (اللہ) چاہتے تو اس دنیا میں بھی سب کو ہدایت کردیتے اگرچہ ان کی طبیعتیں نہ چاہتیں تاہم کیا مجال تھی کہ ہمارے چاہے ہوئے کو کوئی روک سکتا ہے ہم اگر چاہتے تو جبرا ان کو سیدھا کردیتے لیکن ہم نے ان کو مجبور کرنا پسند نہیں کیا بلکہ ان کو عقل و ہوش دئیے ہیں ان سے یہ لوگ خود نیک و بد کی تمیز کرسکتے ہیں بات اصل یہ ہے کہ میری (یعنی اللہ) طرف سے یہ اعلان جاری ہوچکا ہے کہ میں تمام قسم کے جنوں اور انسانوں سے جہنم کو بھر دوں گا کیونکہ میرے علم میں تھا کہ یہ لوگ ایسے کام ضرور کریں گے اس لئے اسی علم کی بنا پر میں نے یہ اعلان کیا تھا کہ جو لوگ برے کام کریں گے جنوں سے ہوں یا انسانوں سے خواہ ان کی کسی قوم سے ہوں میں ان کو ضرور سزدونگا اس آیت سے بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ ہی ہم سے جبراً برے کام کراتا ہے پھر وہ ہم کو سزا کیوں دے گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ آیت تو جبر کی نفی کرتی ہے کیونکہ اس میں ارشاد ہے کہ اگر ہم چاہتے تو ہر ایک کو سیدھا کردیتے یعنی جبراً مسلمان بنا دیتے لیکن ہم ایسا نہیں کرتے کیونکہ ہم نے ان کو اختیاری کاموں پر انعام دینا ہے۔ جبری کام پر انعام کے مستحق نہیں ہوسکتے اس لئے جبر نہیں کیا۔ (منہ) وہ سزا یہی دوزخ ہے چونکہ تم اس دن کی ملاقات کو بھول گئے تھے پس اس دن کو بھولنے کی وجہ سے عذاب کا مزہ چکھو دیکھو ہم نے تم کو ایسا اس میں مبتلا رکھنا ہے کہ دیکھنے والا یہ سمجھے کہ گویا ہم تم کو بھول گئے ہیں اگرچہ ہم کسی چیز کو بھولا نہیں کرتے بھولے تو وہ جس پر ذہول اور نسیان غالب آئے مگر ہم پر کوئی چیز غالب نہیں آسکتی پھر ہم کیوں بھولیں ! پس ہمارے بھولنے کا مطلب یہ ہے کہ کہ تم سے برتائو ایسا کریں گے کہ تم یا کوئی اور ناواقف حال سمجھے گا کہ گویا ہم تم کو بھول گئے پس تم اس جہنم میں رہو اور اپنے کئے ہوئے اعمال کی وجہ سے دائمی عذاب کا مزہ چکھو۔ یہ انجام ان لوگوں کا ہے جو اللہ کی مقرر کردہ جزا و سزا کو بھول جاتے ہیں اور پرواہ نہیں کرتے کہ کوئی ہم پر حاکم اعلیٰ ہے وہ ہمارے اعمال نیک و بد کی ہم کو جزا وسزا دے گا گو ہمارے احکام کو ماننے کے دعویداروں کی اتنی کثرت ہے کہ شمار میں نہیں آسکے مگر بغور دیکھا جائے تو ہمارے احکام وہی لوگ مانتے ہیں کہ جب انکو ان احکام کی بابت نصیحت کی جائے یعنی کسی واعظ کے منہ سے وہ ان احکام کو پاتے ہیں تو سجدے میں گر پڑتے ہیں یعنی اپنے آپ کو اللہ کی تابعداری کے لئے ایسا آمادہ کرتے ہیں کہ گویا سجدہ میں ہیں اور دل میں اس بات کو جمالیتے ہیں کہ گذشتہ را صلوٰۃ آیندہ را احتیاط اور پروردگار کی حمد کے ساتھ تسبیحیں پڑھتے ہیں اور اس کی تعریف کے گیت گاتے ہیں اور وہ احکام الٰہی سن کر کسی قسم کا تکبر نہیں کرتے بلکہ ان پر ان آیات کا ایسا اثر ہوتا ہے کہ راتوں کو اپنے بستروں سے پہلوؤں کو الگ رکھتے ہیں اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اور اس کی رحمت کی طمع میں اپنے پروردگار سے دعائیں مانگتے ہیں اور حتی المقدور ہمارے دئیے میں سے خرچ کرتے ہیں اس لئے کہ انبیاء اور رسل کا سلسلہ قائم کرنے اور کتابیں بھیجنے سے غرض ہی یہ ہے کہ لوگ اخلاق فاصلہ سیکھیں اور الٰہی احکام کی پابندی کریں نہ کہ صرف منہ سے اللہ اللہ کہنے ہی پر کفایت کریں اور بس جس طرح مٹھائی کا نام صرف زبانی لینے سے منہ میٹھا نہیں ہوسکتا اسی طرح صرف زبانی کلمہ اسلام پڑھنے سے انسان اللہ کے ہاں معتبر مسلمان نہیں ہوسکتا پس ان ہی لوگوں کے لئے جو زبان اور دل سے اللہ کے فرمانبردار ہوں اللہ کے ہاں ایسی راحت اور آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کی مسرت مخفی رکھی گئی ہے جس کو کوئی شخص بھی اس دنیا میں نہیں جان سکتا یہ سب کچھ ان کے کئے ہوئے نیک اعمال کا بدلہ ہوگا کیا تم عرب والوں نے سمجھ رکھا ہے کہ نیک اعمال یونہی ہیں ان کا بدلہ کوئی نہیں؟ تو کیا پھر پکے ایماندار بدکاروں کی طرح ہوجائیں گے؟ ایک شخص جو تمام عمر اللہ کے زیر فرمان رہا ہر ایک بات میں مالک کی اجازت سے کام کرتا رہا دوسرا ہر ایک بات میں مخالفت کرتا رہا اللہ کے حقوق کے علاوہ مخلوق کی حق تلفیاں کرتا رہا ڈاکے مارتار ہا یتیموں اور بیوائوں کا مال کھاتا رہا کیا یہ دونوں بعدمرنے کے برابر ہوں گے؟ ہرگز نہیں برابر نہ ہوں گے۔ سنوجو لوگ مذکورہ طریق سے ایمان لا کر نیک اعمال کرتے ہیں بوجہ ان کے نیک اعمال کے ہمیشہ کے باغوں میں انکی مہمانداری ہوگی اور جو لوگ بدکار ہوں گے انکا ٹھکانہ جہنم کی آگ میں ہوگا وہ اس میں ایسے محبوس ہونگے کہ جب کبھی اس سے نکلنا چاہیں گے اور کوشش کر کے کہیں اس کے کنارہ تک آئے گے تو واپس اس میں لوٹادئیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ لو اب آگ کا عذاب چکھو جس کی تم تکذیب کیا کرتے تھے اور سنو ! اس بڑے عذاب سے پہلے ہم ان کو ایک ہلکا سا عذاب چکھا دیں گے تاکہ یہ لوگ ہماری طرف رجوع ہوں چاہے پورے نہ سہی اس تکلیف کے رفع کرانے کیلئے ہی سہی مگر یہ لوگ بجائے اس کے گناہوں پر نادم ہو کر اللہ کی طرف رجوع کریں الٹے اپنی اس بدکرداری پر نازاں ہیں کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے پیارے ہیں ہم اللہ کے مقرب ہیں حالانکہ اس قسم کی باتیں کرنا اس صورت میں زیبا ہے کہ اللہ نے خود ان کو بتلا دیا ہو کہ تم ایسے ہو بغیر بتلائے اللہ کے ایسا دعویٰ کرنے والا مفتری ہے باوجود مرات کرات سمجھانے کے بھی یہ لوگ الٹے بگڑتے ہیں اور ہدایت کی طرف نہیں آتے اور نہیں جانتے کہ جس شخص کو پروردگار کی آیات اور احکام سنا کر نصیحت کی جائے اور وہ ان سے منہ پھیر لے تو اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے پس یہ خوب سمجھ رکھیں کہ ہم (اللہ) ضرور مجرموں بدکاروں سے بدکاریوں کا بدلہ لینے والے ہیں یہ ہمارا آج کا اعلان نہیں بلکہ قدیم سے ہے اور اسی اعلان کے مطابق ہم نے ہمہشا برتائو