سورة السجدة - آیت 1

لم

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

الم (١)

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(1۔9) تفسیر سورۃ السجدہ :۔ میں ہوں اللہ سب سے بڑا علم والا منکرین آگاہ رہیں کہ اس کتاب کا نزول بیشک رب العالمین کے ہاں سے ہے وہی اس کا ثبوت اور اس کی شہادت خود دیگا کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس نبی نے اپنے پاس سے اس قرآن کو بنایا ہے نہیں نہیں بلکہ وہ تیرے پروردگار کے ہاں سے سچائی کے ساتھ اترا ہے تاکہ تو اس قوم کو ڈرائے جن کے پاس تجھ سے پہلے کوئی ڈرانیوالا نہیں ایا یعنی جب سے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ان میں گذرے ہیں ان کے بعد کوئی نبی ان میں نہیں ایا اب تجھے رسول کر کے بھیجا ہے تاکہ یہ لوگ راہ حق کی طرف ہدایت پاویں وہ راہ حق کیا ہے؟ یہ کہ اللہ تعالیٰ کی عبودیت کا جوا اپنے کندھوں پر اٹھائیں اللہ کو بھول گئے تو سنو ! اللہ وہ ذات پاک ہے جس نے آسمانوں زمینوں اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کو چھ دنوں کی مدت میں پیدا کیا ہے یعنی تمام دنیا کی کائنات کی انواع چھ دنوں میں موجود کردیں آج دنیا میں جو کچھ نظر آتا ہے ان سب کی نوع اس وقت موجود تھی ان کو پیدا کر کے پھر تخت نشین ہوا یعنی تمام دنیا کا انتظام حکومت اس نے اپنے ہاتھ میں لیا سنو ! وہ ایسا مالک الملک اور متصرف ہے کہ اس کے سوا نہ تمہارا کوئی والی ہے جو خود بخود تم کو فائدہ پہنچا سکے نہ کوئی سفارشی ہے جو بلا اجازت سفارش سے تمہاری نفع رسانی کرسکے کیا تم نے نہیں سنا کہ ؎ جسے دے مولا اسے دے شاہ دولا۔ کیا پھر بھی تم نہیں سمجھتے؟ اور سنو ! وہ اللہ ہی آسمانوں سے زمین تک حکومت کا انتظام کرتا ہے پھر وہ حکم اور انتظام مکمل ہو کر اس کی طرف ایک روز میں پہنچتا ہے جس کی مقدار تمہارے حساب سے ایک ہزار سال کی ہے اس آیت میں رب العالمین اپنی کمال قدرت اور کمال علم بتلاتا ہے علماء مفسرین نے اس کے متعلق بہت کچھ لکھا ہے اور خوب لکھا ہے گو بعض نے دو راز کار باتیں بھی لکھی ہیں۔ مختصر طور پر اردو خوان اصحاب کے لئے غالباً یہ کافی ہوگا کہ ان کو ایک مثال سے اس آیت کا مطلب سمجھایا جائے کیونکہ رب العالمین نے بھی اس آیت میں اپنی حکومت کو دنیاوی حکومتوں کی مثال میں سمجھایا ہے۔ دنیاوی سلطنتوں کا کمال ضبط اور بڑا زبردست انتظام یہ ہوتا ہے کہ روزانہ ڈائری افسر کو پہنچے کہ ماتحتوں نے کیا کیا۔ افسر کے احکام اور اصلاحات کو کہاں تک بنایا جو سلطنت اس اصول سے غافل ہو وہ اس کی مصداق ہے۔ اگر ماندشبے ماند شب دیگر نمے ماند۔ اس قانون اور ضابطہ کی طرف اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اشارہ کیا ہے کہ جس طرح دنیاوی سلطنتوں میں ڈائری یومیہ باعث تقویت سمجھی جاتی ہے اللہ کے ہاں بھی ڈائری ہے مگر وہ ڈائری ایسی ہے کہ اس کا ایک ایک دن ہزار ہزار سال کا ہے چنانچہ ایک اور مقام پر فرمایا ان یوما عند ربک کَاَلْفِ سنۃ مما تعدون یعنی تمہارے پروردگار کی سلطنت ایسی زبردست ہے کہ اس کے ہاں ایک ایک دن تمہارے حساب سے ہزار ہزار سال جتنا ہے۔ دنیا کی سلطنتوں میں ہزار سال تک ڈائری نہ پہنچے تو سلطنت تباہ ہوجائے مگر الٰہی سلطنت میں ڈائری کے لئے ہزار سال ہے تو بتلائو کہ اللہ کی سلطنت کتنی بڑی زبردست ہوگی۔ یہاں پر ایک سوال ہوسکتا تھا کہ گو الٰہی ڈائری کے لئے ہزار سال ہو۔ تاہم اتنا تو ثابت ہوا کہ اللہ کو آئندہ کے واقعات کی بذات خود خبر نہیں تو اس سوال کے دور کرنے کو اللہ تعالیٰ نے اسی تمثیل کے ساتھ ہی فرمایا عالم الغیب والشھادۃ العزین الرحیم الذی احسن کل شیء خلقہ یعنی جو چیزیں بندوں کی نظر میں حاضر اور غائب ہیں اللہ ان سب کو بذات خود جانتا ہے وہ اپنی ذات بابرکات میں سب پر غالب اور سب کے حال پر مہربان ہے اس قرینہ سے اس سوال کا جواب مل گیا اور مطلب بھی صاف ہوگیا کہ اللہ کی طرف تدبیر کا چڑھنا یا اس کی طرف سے احکام اور تدبیر کا نازل ہونا ایک تمثیل ہے ورنہ وہ ذات پاک ہر ایک چیز کو خود بخود جانتی سے اور سب پر غالب ہے۔ خیر یہ تو ہوئی اس آیت کے متعلق تقریر۔ ایک دوسرے مقام پر رب العالمین نے اس ڈائری کی مدت اور بھی وسیع فرمائی ہے وہاں ارشاد ہے تعرج الملائکۃ والروح الیہ فی یوم کان مقدارہ خمسین الف سنۃ اللہ کے کارندے فرشتے اور اعلی فرشتہ جبرئیل پچاس پچاس ہزار سال میں اس کی طرف جاتے ہیں یعنی پچاس ہزار سالہ ان کی ڈائری ہے۔ لطف یہ ہے کہ ان تینوں آیتوں میں اللہ ذوالجلال والاکرام نے اس تمثیل کے بتلانے کے لئے بہت سے قرائن حالیہ اور مقالیہ بھی رکھے ہم ان تینوں آیات کو ایک جگہ جمع کر کے ان کی اصلی صورت ناظرین کو دکھاتے ہیں۔ ) ١) پہلی آیت پارہ سترہ رکوع ١٣ کی ہے۔ یستعجلونک بالعذاب ولن یّخلف اللہ وعدہ وان یوما عند ربک کالف سنۃ مّما تعدّون وکایّن من قریۃ املیت لھا وھی ظالمۃ ثم اخذتھا والّی المصیر۔ (پ ١٧ ع ١٣) (٢) دوسری آیت یہی جو زیر بحث ہے جس کے الفاظ یہ ہیں۔ یدبر الامر من السمآء الی الارض ثم یعرج الیہ فی یوم کان مقدارہ الف سنۃ مّما تعدّون ذلک عالم الغیب والشھادۃ العزیز الرحیم الذی احسن کل شیء خلقہ وبدء خلق الانسان من طین۔ (٣) تیسری آیت سورۃ معارج کی ہے جس کے الفاظ ہیں : سأل سائل بعذاب واقِعٍ للکافرین لیس لہ دافعٌ مّن اللہ ذی المعارج۔ تعرج الملٓئکۃ والروح الیہ فی یوم کان مقدارہ خمسین الف سنۃٍ فاصبر صبرًا جمیلاً انھم یرونہ بعیدًا ونراہ قریبًا (پ ٢٩ ع ٧) پہلی آیت کا ترجمہ یہ ہے : ” کفار تجھ سے جلدی عذاب مانگتے ہیں اور اللہ اپنے وعدے کو کبھی خلاف نہ کرے گا اور اللہ کے نزدیک ایک دن تمہارے حساب سے ایک ہزار برس کا ہے۔ کئی ایک ظالم بستیوں کو میں (اللہ) نے تھوڑی سی مہلت دی پھر فوراً ان کو پکڑا اور میری طرف ہے سب کاموں کا رجوع۔ “ اس آیت میں پروردگار نے کفار کی درخواست کا ذکر کیا ہے کہ وہ عذاب جلدی چاہتے ہیں۔ اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا کہ میرے نزدیک ایک دن ہزار برس کا ہے۔ یہ کہہ کر فرمایا کہ میں نے بہت سی قوموں کو مہلت دے کر بھی نہ چھوڑا۔ بظاہر ہزار برس کا دن ہونے کا ذکر یہاں پر بے تعلق ہی نہیں بلکہ مخالف معلوم ہوتا ہے کیونکہ کفار کے جواب میں یہ فرمانا کہ اللہ کے نزدیک ایک ایک دن ہزار برس کا ہوتا ہے۔ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ گھبراتے کیوں ہو آخر کبھی تو عذاب پہنچ ہی جائے گا۔ یہاں تو ہزار برس بھی ایک دن کی میعاد ہے جس میں موجودہ کفار کی کئی ایک نسلیں ختم ہوسکیں گی۔ تو پھر عذاب ہی کیا اور کس کو ! حالانکہ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا ہے کہ پہلے لوگوں کو ہم نے مہلت دے کر خوب پکڑا۔ پس معلوم ہوا کہ ظاہری معنی مراد نہیں بلکہ اللہ کی جبروت۔ سلطنت کا اظہار مراد ہے کہ یہ لوگ جلد ہی عذاب مانگتے ہیں اس خیال سے کہ اللہ کے عذاب سے کہیں بچ سکیں گے۔ ہرگز نہیں۔ دوسری آیت کا ترجمہ مع مطلب تو اسی جگہ تفسیر میں لکھا گیا ہے۔ تیسری آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ : ایک سائل عذاب کا بابت پوچھتا ہے جو کافروں پر اللہ کی طرف سے اٹل آنے والا ہے جو اللہ بڑی بلندیوں والا ہے اس کی طرف فرشتے اور روح ایک دن میں چڑھتے ہیں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے یہ کہہ کر فرمایا : ” پس تو اچھی طرح سے صبر کر۔ “ اس آیت میں پچاس ہزار برس کی میعاد سے مراد قیامت کا دن لینا صحیح نہیں ہوسکتا کیونکہ قیامت کے دن کی انتہا نہیں اور پچاس ہزار برس کی تو آخر انتہا ہے پس آیت موصوفہ کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی جبروت۔ حکومت۔ قدرت اور علم کا اظہار کرتا ہے ان تینوں آیتوں کے ملانے سے جو معنے میری سمجھ میں آئے ہیں میں نے خود لکھے ہیں میں ان کی صحت پر مصر نہیں ممکن ہے کوئی اللہ کا بندہ اس سے بھی اچھی تفسیر کرے۔ فلہ الحمد فی الاولی والاخرۃ (منہ) یہ اللہ ہے غیب اور ظاہرسب کو جاننے والا یعنی جو تمہاری نظروں میں حاضر اور غائب ہے سب کو جانتا ہے اور سب پر غالب بڑا رحم کرنے والا ہے جس نے اپنی مخلوق کو ہر طرح سے عمدہ بنایا جو جس کے مناسب حال تھا اس کو ویسا بنایا اور انسان کی پیدائش مٹی سے شروع کی یعنی آدم کو پہلے مٹی سے بنایا پھر اس کا سلسلہ نسل انسانی جسم کے نچوڑ یعنی ذلیل پانی منی سے جاری کیا پھر وہ اللہ اس انسان کو درست اندام بناتا ہے اور اس میں اپنی پیدا کی ہوئی روحوں میں سے مخلوق روح پھونکتا ہے اور تمہارے یعنی بنی آدم کے لئے وہ (اللہ) کان یعنی قوت سامہ آنکھیں یعنی قوت باصرہ اور دل پیدا کرتا ہے مگر تم بہت ہی کم شکر کرتے ہو یہ بھی کوئی شکر ہے کہ اللہ کے ہوتے اس کی مخلوق سے حاجات چاہتے ہیں اور سمجھانے پر الٹے بگڑتے ہیں