سورة لقمان - آیت 31

أَلَمْ تَرَ أَنَّ الْفُلْكَ تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِنِعْمَتِ اللَّهِ لِيُرِيَكُم مِّنْ آيَاتِهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

کیا آپ دیکھتے نہیں کہ کشتی (٢٣) سمندر میں اللہ کے فضل سے چلتی رہتی ہے، تاکہ وہ تم سب کو اپنی بعض نشانیوں کا مشاہدہ کرئاے، بے شک اس میں ہر اس آدمی کے لئے نشانیاں ہیں جو صبر اور شکر کرنے والا ہے

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(31۔34) کیا تم نے اس کی بزرگی کو نہیں دیکھا کہ دریائوں اور سمندروں میں کشتیاں اور جہاز اللہ کی نعمت کے ساتھ چلتے ہیں یعنی ان کا چلنا بندوں کے حق میں حصول نعمت کا سبب ہے یہ کس نے بنایا اسی مالک الملک ذوالجلال والاکرام نے تاکہ تم کو اپنی قدرت کے نشان دکھا دے سمندر میں جب تم جاتے ہو تو تم کو کیا کچھ نظر آتا ہے ایک دم بھر خوشی ہے تو فورا ساتھ ہی غموں کا دریا امڈا چلا آتا ہے غرض سمندروں میں بیٹھ کر دونوں باتیں تم لوگوں کو حاصل ہوتی ہیں اس لئے یہ کہنا بالکل ٹھیک ہے کہ اس دریائی سیر میں بہت سے نشان ہیں تکلیفوں پر صبر کرنے والوں اور نعمتوں پر شکر کرنے والوں کے لئے کون نہیں جانتا کہ سمندروں میں ان لوگوں کی یہ کیفیت کیسی مختلف ہوتی ہے کبھی تو شاداں فرحاں ہوتے ہیں اور کبھی نالاں و گریاں خصوصا جب ان مشرکوں کی کشتیوں اور جہازوں پر سائبانوں کی طرح سمندر کے پانی کی موج ڈھانپنے کو ہوتی ہے تو اس وقت خلوص دل سے اللہ کی بندگی کا اظہار کرتے ہیں اور اللہ کے سوا اپنے مصنوعی معبودوں کو بھول جاتے ہیں پھر جب اللہ ان کو بچا کر کنارہ تک پہنچا دیتا ہے بعض ان میں سے تو میانہ رو رہتے ہیں مگر اکثر وعدہ شکن ہی ثابت ہوتے ہیں اور یہ تو عام قاعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات قدرت سے وہی لوگ انکار کرتے ہیں جو بدعہد اور ناشکرہوتے ہیں اس لئے تم لوگوں کو سمجھایا جاتا ہے کہ تم ایسے نا شکر گزار نہ بنو ) اس آیت میں جو مضمون ہے وہ تو ظاہر ہے کہ پروردگار عالم اپنی قدرت کے مظاہر بتلا کر دلیل بتلاتا ہے کہ یہ سب کام اس لئے ہیں کہ میں ان صفات کا مالک ہوں اور میرے سوا مصنوعی معبود بیچ ہیں خیر یہ تو ہوا۔ پنجاب میں ایک فرقہ اھل قرآن پیدا ہوا ہے جن کا دعویٰ ہے کہ سب احکام شرعی قرآن ہی میں ہیں سوائے قرآن شریف کے اور کسی کتاب کی حاجت نہیں فقہ کی نہ حدیث کی۔ انہوں نے اپنی نماز کا ایک رسالہ لکھا ہے جس میں تکبیر تحریمہ یعنی اللہ اکبر کی بجائے یہ آیت رکھی ہے یعنی و ان اللہ ھو العلی الکبیر جب ان پر اعتراضات وارد ہوئے کہ اس میں واؤکیسا ہے ان مفتوحہ کیوں ہے ان سب سوالات کے جوابات علم نحو سے تو دے نہ سکے اس لئے انہوں نے یہ ترمیم مناسب سمجھی کہ اس آیت سے پہلے کے چند الفاظ ساتھ ملا دئیے جائیں۔ پس اب جدید رسالہ مفصلہ میں انہوں نے تکبیر تحریمہ یوں لکھی ما یدعون من دونہ الباطل وان اللہ ھو العلی الکبیر اس ترمیم کو دیکھ کر اہل علم عربی کی مثل مشہور کی تصدیق کریں گے فرمن المطر قام تحت المیزاب یعنی مینہ سے بھاگ کر پرنالہ کے نیچے کھڑا ہوا جو شخص سہل بلا سے بھاگ کر عظیم بلا میں پھنس جائے اس کے حق میں یہ مثل کہا کرتے ہیں وہی حال ان لوگوں کا ہوا کہ وائو اور انّ مفتوحہ کی اصلاح کرنے کو پیچھے ہٹے تھے مگر ایسے ہٹے کہ خندق میں جا پڑے۔ ناظرین غور سے دیکھیں کہ مایدعون کا ما موصولہ اور ان کا اسم ہے یعنی یعنی اس پر بھی انّ مفتوحہ اور وائو موجود ہے پھر کیا ان دونوں (ان اور وائو) کو چھوڑ دینے سے قرآن میں سے بھی حذف ہوجائیں گے؟ علاوہ اس کے ان الفاظ کو تکبیر تحریمہ سے کیا تعلق۔ کیا اس آیت میں یا کسی اور آیت قرآنی میں یہ حکم یا ذکر ہے کہ نماز پڑھنے سے پہلے تم اس آیت کو پڑھا کرو۔ اگر ہے تو وہ حکم دکھائو۔ نہیں ہے تو جس طرح تم لوگوں نے اس آیت کو اس کام میں استعمال کیا ہے اور کسی کا بھی حق ہے کہ اس کے سوا کسی اور آیت کو اس کام میں استعمال کرسکے بحالیکہ وہ ہو بھی اسی کام کے لئے۔ لیجئے ہم آپ لوگوں کو بتلاتے ہیں۔ غور سے سنئیے ! تکبیر تحریمہ کی بجائے اگر تم اپنے قیاس ہی سے کسی آیت کو رکھنا چاہتے ہو تو اس کو رکھ لو ولذکر اللہ اکبر (اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے) اس آیت پر اعتراضات مذکورہ بالا میں سے کوئی اعتراض ہو بھی نہیں سکتا لیکن ہمیں اس کی بی ضرورت نہیں اس لئے کہ قرآن مجید ہم کو سکھاتا ہے۔ لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ لمن کان یرجوا اللہ والیوم الاخر وذکر اللہ کثیرا یعنی جو لوگ اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور اللہ کو بہت بہت یاد کرتے ہیں ان کے لئے اللہ تعالیٰ کا رسول (حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عمدہ نمونہ ہیں۔“ ان کو چاہئے کہ اس نمونہ کی پیروی کریں پس ہم تو اس نمونہ کے مطابق نماز روزہ وغیرہ احکام شرعیہ ادا کرتے ہیں اسی اسوۂ حسنہ نے ہم کو بتلایا ہے کہ نماز میں تکبیر تحریمہ کے وقت اللہ اکبر کہا کریں پس ہم تو اسی طرح کہتے ہیں لیکن جو لوگ اس اسوۂ حسنہ کو قبول نہیں کرتے اور تمام احکام شرعیہ قرآن ہی سے سمجھتے ہیں ان کو چاہئے کہ اپنے مسلمہ احکام کو تو قرآن مجید سے نکال کر دکھا دیں۔ ان لوگوں کو مغالطہ ہوا ہے کہ کہتے ہیں۔ جس طرح حکم کے الفاظ قرآن شریف میں ہیں اسی طرح ان احکام کی تعمیل کے لئے بھی الفاظ قرآن ہی میں ہونے چاہئیں حالانکہ یہ اصول ہی غلط ہے بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ حکم کے لئے تو الفاظ ہوں لیکن ان احکام کی تعمیل کے الفاظ کا ہونا ضروری نہیں مثلاً قرآن مجید میں یہ حکم تو ہے کہ کبرہ تکبیرا یعنی اللہ کی تکبیر پڑھو۔ اس حکم کے الفاظ تو قرآن مجید میں ہیں مگر اس حکم کی تعمیل جن لفظوں میں ہونی چاہئے وہ الفاظ قرآن میں نہیں نہ ان کا ہونا ضروری ہے کیونکہ قرآن مجید عربی زبان میں ہے عربی قاعدہ کے مطابق کبر کا حکم جن الفاظ سے تعمیل ہوتا ہے وہ الفاظ ہم کو عربی کے محاورہ سے ملیں گے جب ہم تلاش کرتے ہیں تو ہمیں پتہ ملتا ہے کہ کبر کی تعمیل کے لئے اللہ اکبر کا لفظ ہے۔ پس ہم بلا خوف تردید کبر کی تعمیل اللہ اکبر سے کریں گے اور اس کے کرنے میں کسی طرح کا ہم پر سوال یا اعتراض نہ ہوگا اور نہ ہم اس سوال کو سنیں گے لیکن جو لوگ حکم کے علاوہ تعمیل کے الفاظ بھی قرآن مجید میں ہونے کو ضروری کہتے ہیں۔ ان پر یہ سوال ہوگا جس کا وہ جواب نہیں دے سکتے۔ اس فرقہ کے جواب میں ہمارا ایک مفصل رسالہ بھی ہے جس کا نام ہے دلیل الفرقان بجواب اہل القرآن (منہ ( پس اے لوگو ! سنو ! اپنے پروردگار سے ڈرتے رہو دل میں اس کا خوف رکھو اور اس دن سے ڈرو جس میں نہ ماں باپ اپنے بچے کو نہ بچہ اپنے ماں باپ کو کچھ فائدہ پہنچا سکیں گے یقین جانو ! اللہ کا وعدہ برحق ہے جو جو خبر اس نے بتلائی ہے اور جو جو وعدے اس نے نیک یا بد اعمال پر کئے ہیں سب پورے ہوں گے پس تم دنیا کی زندگی اور اس کی آسائش و آرائش سے فریب نہ کھائیو اور اللہ کے بارے اس بڑے فریب دینے والے شیطان اور اس کی جماعت کے فریب بھی مت آئیو خبردار ہوشیار رہنا اس کے دائو کئی ایک طرح کے ہوتے ہیں بیدینوں کو تو کفر و شرک اور فسق و فجور میں مبتلا کرتا ہے لیکن دینداروں کو اس سے بڑھ کر بلا میں پھنساتا ہے جو بظاہر تو دیندار ہی ہوتی ہے مگر در حقیقت وہ فسق و فجور سے بدتر ہے یعنی ان کے خیال میں ڈالتا ہے کہ بزرگان دین انبیاء و اولیاء صلوٰت اللہ علیہم اجمعین ہمارے حالات سے آگاہ ہیں ہماری حاجات کو جانتے ہیں گو وہ مردے ہیں مگر ہماری حاجات کو پورا کرنے پر قدرت رکھتے ہیں حالانکہ یہ تمام اوصاف اللہ ہی کے خواص میں قیامت کی گھڑی کا علم اللہ ہی کے پاس ہے وہی جانتا ہے کہ کب ہوگی اور وہی بارش اتارتا ہے اور وہی بارش کے اترنے کے وقت کو جانتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ ماواوں کے رحموں میں کیا ہے اور وہی جانتا ہے کہ کل کیا ہوگا اس کے سوا کسی نفس کو اپنا حال بھی معلوم نہیں کہ کل کیا کریگا اور نہ کسی متنفس کو یہ معلوم ہے کہ کس زمین پر مریگا جب لوگوں کو خود اپنے واقعات کا علم نہیں تو اور کسی کا کیا ہوگا اس سے تم اس نتیجہ پر پہنچو کہ بے شک اللہ ہی علم والا اور سب کی خبر رکھنے والا ہے پس تم نے جو کچھ مانگنا ہو اسی سے مانگو وہی تمہارے حال سے آگاہ ہے وہی دینے پر قادر ہے ؎ در بلا یاری مخواہ از ہیچ زانکہ نبود جز اللہ فریاد رس