سورة لقمان - آیت 1

لم

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

الم (١)

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(1۔12) تفسیر سورۃ لقمان :۔ میں ہوں اللہ سب سے بڑا علم والا اپنے علم کے مقتضٰے سے تم کو بتلا تا ہوں کہ یہ آیتیں باحکمت کتاب کی ہیں جو سب لوگوں کیلئے ہدایت اور نوک کاروں کیلئے رحمت ہے چونکہ ہر ایک اپنے خیالات اور مقالات میں نیک ہونے کا مدعی ہے اس لئے نیک بختوں کی تعریف ہم خود ہی بتلاتے ہیں کہ نیکو کار وہ ہیں۔ جو پابندی شریعت نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور آخرت کو دل سے مانتے ہیں یعنی ان کے سب کام بااخلاص ہوتے ہیں نہ کہ ریا اور فخر سے وہ اگر کسی سے سلوک کرتے ہیں تو اس نیت سے کرتے ہیں کہ اللہ کا حکم ہے وہ جانتے ہیں کہ اس نیکی کا عوض اللہ سے ہم کو ملے گا اس لئے نہ وہ اپنے سلوک کا احسان جتلاتے ہیں نہ اس کو تکلیف دیتے ہیں یہی لوگ اپنے پروردگار کی ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ آخرت میں کامیاب ہونے والے ہیں اور ان کے مقابلہ میں بعض لوگ ایسے ہیں جو واہیات خرافات مسخری اور کھیل تماشہ کی باتیں خریدتے ہیں اور لوگوں کو سناتے ہیں تاکہ محض جہالت کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے گمراہ کریں اور راہ اللہ کی باتوں کو ہنسی مخول سمجھیں انہی اور ان جیسے لوگوں کے لئے ذلت اور خواری والا عذاب ) ایک شخص ایران سے رستم و اسفندیار کے قصے خرید لایا اور مجلس لگا کر لوگوں کو سناتا اور کہتا کہ قرآن کے قصوں سے یہ قصے اچھے ہیں مگر اس بیوقوف کو یہ معلوم نہ تھا کہ شیر قالیں دگر است شیر نیستاں دگر است اس کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی مگر جتنے لوگ ایسے بیہودہ خرافات قصوں کے پڑھنے میں وقت لگائیں اور قرآن شریف کی طرف خیال نہ کریں ان کے حق میں اس آیت کا حکم شامل ہے۔ (منہ ( صیغہ مفرد کا ہے گر مراد اس سے وحدت شخصی نہیں بلکہ نوعی ہے چنانچہ لھو عذاب مھین میں جمع کی ضمیر اس معنی کی طرف اشارہ ہے (منہ ( ایسے معاند ہیں کہ جب ان کو ہماری آیات با حکمت کتاب پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو اکڑتے ہوئے منہ پھیر کر چل ! دیتے ہیں ایسے متکبرانہ وضع سے چلتے ہیں گویا انہوں نے ہماری وہ آیتیں سنی ہی نہیں گویا ان کے کان بہرے ہیں اور ان میں ایک قسم کا ٹھونس ہے پس تو اے نبی ! انکو درد ناک عذاب کی خبر سناہاں جو لوگ ایمان لائے ہیں اور ایمان لا کر نیک عمل بھی انہوں نے کئے ہیں بے شک ان کے لئے نعمتوں کے باغ ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اللہ نے سچا وعدہ کیا ہے اور وہ اپنے وعدے کا پورا کرنے پر بڑا غالب اور بڑی حکمت والا ہے جو کام کرنا چاہے اس کو ایسی حکمت کاملہ سے کردیتا ہے کہ لوگ خبر تک بھی نہیں رکھتے دیکھو تو اس کی کیسی حکمت ہے کہ اس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے پیدا کیا ہے جنہیں تم بھی دیکھ رہے ہو کہ اتنی بڑی جسمانی چھت کے لئے کوئی سہارا نہیں اور اس نے زمین پر بڑے بڑے پہاڑ پیدا کر دئیے تاکہ تم لوگوں کو نہ لے گرے یعنی اس کی ڈانواں ڈول حرکت سے تم کو نقصان نہ پہنچے اب اگر ١ ؎ اس میں حرکت ہے تو باقاعدہ ہے ڈانواں ڈول نہیں اس حرکت سے کوئی نقصان نہیں ہوسکتا اس کی مثال سمجھنی چاہو تو بیڑی کو دیکھو کہ باقاعدہ سیدھی جائے تو کچھ نقصان نہیں اگر دائیں بائیں بے ڈول حرکت کرے تو نقصان ہے۔ ٹھیک اسی طرح اس حکیم مطلق نے ایسا کیا ہے اور زمین پر ہر قسم کے جاندار پھیلائے ہیں اور اوپر سے پانی اتارتا ہے پھر اس کے ساتھ زمین پر ہر قسم کی عمدہ عمدہ چیزیں اگاتا ہے یہ تو اللہ کی مخلوق ہے جسے تم بھی دیکھتے ہو پس اب تم لوگ مجھے دکھاؤ اللہ کے سوا دوسرے معبودوں نے کیا کچھ بنایا ہے؟ کچھ نہیں بنایا بلکہ ظالم یونہی صریح گمراہی میں ہیں اسی بات کے سکھانے کو ہم نے دنیا میں کئی ایک ایسے نیک بندے پیدا کئے جو اللہ کے بندوں کو اللہ کے ساتھ ملنے کی تعلیم دیتے اور شب و روز سمجھاتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا دلی تعلق پیدا کرو اسی لئے ہم نے حضرت لقمان کو حکمت دی بعض لوگ جن کے دماغ میں حکمت بعنے فلسفہ طبعی اور طب جسمانی نے اثر کیا ہوا ہے سمجھیں گے کہ حضرت لقمان کو یہی حکمت ملی تھی اس لئے خود ہی بتلاتے ہیں کہ ہم نے اس کو ایمانی حکمت دی تھی جس کی بابت کہا جاتا ہے چند چند از حکمت یونانیاں حکمت ایمانیاں را ہم بخواں ) اس ” اگر“ کے لفظ میں اشارہ ہے کہ حرکت زمین کا ثبوت اگر کسی علمی دلیل سے ہوجائے تو قرآن شریف کے مخالف نہیں نہ قرآن مجید کو اس سے انکار ہے ہاں اگر کچھ ضعیف ہے تو ان دلائل میں ہے جو اس دعوی (حرکت) کے اثبات میں پیش کی جاتی ہیں سو اگر کسی قوی دلیل سے یہ دعوی ثابت ہوجائے تو چشم ما روشن دل ماشاد۔ ہمیں بھی اس کی تسلیم سے انکار نہیں۔ (منہ ( گو یہ صیغہ بھی ماضی کا ہے مگر جو فعل بار بار دنیا میں ہوتا ہے اس کو استمرار سے ترجمہ کیا جائے تو اچھا ہے اس لئے حال سے تعبیر کی گئی۔ نیز متکلم کے صیغے کی بجائے غائب سے ترجمہ کیا گیا ہے کیونکہ اس قسم کا التفات اردو میں نہیں ہے۔ (منہ) حضرت لقمان ایک ولی اللہ گزرے ہیں ان کو حکیم کہنا بمعنی عارف ہے (منہ ( اس حکمت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کا شکر کر تم جانتے ہو شکر ہر چیز کا الگ الگ اس کے مناسب حال ہوتا ہے زبان کا شکریہ ہے کہ مالک کا ذکر کرے آنکھوں کا شکریہ ہے کہ مظاہر قدرت کو عبرت کی نگاہ سے دیکھیں اسی طرح تمام اعضا کا شکر الگ الگ ہے علیٰ ہذا لقیاس دل و دماغ کا شکریہ ہے کہ جو خیالات اپنے اپنے اندر رکھیں وہ اپنے خالق کی مرضی کے خلاف نہ ہوں بلکہ اسی قسم سے ہوں جن سے مالک کی رضا حاصل ہوتی ہو پس حضرت لقمان کو جو شکر کرنے کا حکم ہوا تھا وہ کوئی معمولی شکر نہیں تھا جو زبانی شکر الحمدللہ کہنے سے ادا ہوجاتا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ اپنی تمام طاقتیں اور قوتیں ظاہری ور باطنی سب کو اللہ کے حکم کے ماتحت کردو جس کا اثرتم پر یہ ہو کہ بیساختہ تمہارے دل اور منہ سے نکلے کہ سب کام اپنے کرنے تقدیر کے حوالے نزدیک عارفوں کی تدبیر ہے تو یہ ہے پس اس قسم کے شکر کرنے کی تعلیم حضرت لقمان کو اللہ کی طرف سے دی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ جو کوئی شکر کرتا ہے وہ اپنے ہی لئے کرتا ہے اس کا عوض اسی کو ملے گا اور کو نہیں اور جو کوئی نا شکری کرتا ہے یعنی اللہ کے احکام کی پوری پوری تابعداری نہیں کرتا تو وہ کسی کا کچھ نہیں بگاڑتا نہ کسی مخلوق کا نہ خالق کا کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی سب مخلوق سے بے پروا اور تعریف کے لائق ہے یہ ہے مختصر سی نصیحت جو حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو کی تھی