سورة القصص - آیت 36

فَلَمَّا جَاءَهُم مُّوسَىٰ بِآيَاتِنَا بَيِّنَاتٍ قَالُوا مَا هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّفْتَرًى وَمَا سَمِعْنَا بِهَٰذَا فِي آبَائِنَا الْأَوَّلِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

جب موسیٰ فرعونیوں کے پاس ہماری کھلی نشانیاں (١٧) لے کر گئے تو انہوں نے کہا یہ تو ایک گھڑا ہوا جادو ہے، اور ہم نے اپنے گزشتہ باپ دادوں کے زمانے میں ایسی کوئی بات نہیں سنی۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(36۔43) پس خوشخبری اور تسلی آمیز مژدہ سن کر جب موسیٰ (علیہ السلام) ہمارے کھلے کھلے احکام لے کر ان کے پاس آیا اور ان کو سب کچھ دکھایا تو انہوں نے اور تو کوئی معقول جواب نہ دیا یہی کہا کہ یہ جو موسیٰ نے دکھایا ہے جادو ہے اللہ پر بہتان لگایا ہوا کہ یہ اس کا نام معجزہ اور نشان پیغمبری رکھتا ہے حالانکہ دراصل ایک جادو کا کرشمہ ہے ہم نے یہ بات اپنے پہلے باپ دادا سے نہیں سنی پھر ہم کیونکر اس کو باور کرلیں۔ حضرت موسیٰ سلام اللہ علیہ نے یہ سن کر کہا کہ کوئی اللہ کے ہاں سے ہدایت لایا ہے اور جس کی عاقبت بخیر ہے اللہ اس کو خوب جانتا ہے اس کو سب کچھ معلوم ہے پس تم یاد رکھو کہ ظالم لوگ جو اللہ پر بہتان لگائیں یا اس کے احکام کی تکذیب کریں کبھی کامیاب نہ ہوں گے نہ فلاح پاویں گے اور فرعون نے کہا اے درباریو ! میں تمہارے لئے اپنے سوا کوئی معبود نہیں جانتا اور یہ موسیٰ تمہارے لئے اور معبود کے ہونے کی خبر دیتا ہے پس اے ہامان ! تو مٹی کے برادے پکا کر میرے لئے ایک محل بنا تاکہ میں موسیٰ کے معبود کی طرف جھانکوں گو اس میں شک نہیں کہ وہ جو کچھ کہتا غلط کہتا ہے اور میں اس کو جھوٹا سمجھتا ہوں اسی گھمنڈ میں اس نے موسیٰ کی سچی تعلیم کو نہ مانا اور اس نے اور اس کی فوج نے زمین پر ناحق فخرہ تکبر کیا اور وہ سمجھتے تھے کہ ہماری طرف لوٹ کر نہیں آئیں گے پس ان کے اس تکبر کی شامت سے ہم نے اس فرعون کو اور اسکی فوج کو پکڑ کر نیل دریا میں غرق کردیا سو دیکھو ان ظالموں کا انجام کیسا برا ہوا کہ جس ترکیب سے وہ بنی اسرائیل کو پکڑنے گئے تھے اس میں ناکام رہے بلکہ خود پکڑے گئے ہلاک اور تباہ ہوئے ہم نے ان کو دنیا کے کاموں میں پیشوا بنایا تھا حکومت دی تھی ہر قسم کی آسودگی بخشی تھی انہوں نے اس نعمت کی قدر نہ کی بلکہ ناشکری کی بلکہ وہ لوگوں کو بھی جہنم کے لائق کاموں کی طرف بلاتے تھے فرعون کی الوہیت منواتے اور بنی اسرائیل اور دیگر ما تحت اقوام پر ظلم و ستم ڈھاتے تھے پس اسی حال میں ہم نے ان کو تباہ کردیا اور قیامت کے روز ان کو کسی طرح کی مدد نہ پہنچے گی ہم نے اس دنیا میں ان کے پیچھے لعنت لگائی اور قیامت کے روز یہی وہ نہایت ہی ذلیل وخوار ہوں گے یاد رکھو یہی فرعونی قوم نہ تھی جو ہمارے غضب میں آئی بلکہ ان سے پہلے بھی کئی ایک قومیں ایسی ہو گذری تھیں اور کئی ایک قومیں عاد ثمود وغیرہ ہلاک اور تباہ کرنے کے بعد ہم نے حضرت موسیٰ کو کتاب تورات دی تھی جو لوگوں کے لئے باطنی بینائی ہدایت اور رحمت تھی تاکہ وہ لوگ جو اس کے زمانہ میں تھے نصیحت پاویں اور اللہ کے احکام سے واقف ہو کر عمل کریں (یہ آیت صاف بتلا رہی ہے کہ حضرت موسیٰ کو جو کتاب ملی تھی وہ انہی احکام کا نام ہے جو آج تک بھی بائیبل میں ملتے ہیں استثنا وہ باب میں بعد چند احکام بتانے کے لکھا ہے کہ یہی باتیں اللہ نے یہاں پر میرے سپرد کیں اور اس سے زیادہ نہ فرمایا پس تورات صرف انہی کا نام ہے نہ کہ مجموعہ کتب خمسۂ بائیبل (منہ)