سورة القصص - آیت 1

سم

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

طسم (١)

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(1۔14) لوگو ! سنو میں ہوں اللہ بڑی تونگری والا سب عیبوں سے پاک سلامتی والا یہ احکام جو تم کو اس سورت میں سنائے جاتے ہیں واضح کتاب قرآن مجید کے ہیں پس تم ان کو سنو ! ان حکموں سمجھانے کے لئے حضرت موسیٰ اور فرعون کا سچا سچا قصہ ہم ایمانداروں کے لئے تجھ کو سناتے ہیں کچھ شک نہیں کہ فرعون ایک بڑا مفسد آدمی تھا اس نے زمین پر ناحق تکبر کیا تھا اپنا رتبہ عبودیت چھوڑ کر الوہیت کے درجہ کا مدعی بنا تھا اور اس نے اپنی چال بازی سے ملک کے رہنے والوں کو الگ الگ گروہ گروہ بنا دیا تھا جن میں اختلاف ڈال کر سلطنت کرتا تھا جیسا کہ عموما بادشاہوں کا دستور ہوتا ہے ان میں سے ایک جماعت یعنی بنی اسرائیل کو کمزور کرتا تھا ان کے لڑکوں کو ذبح کرتا تھا اور ان کی لڑکیوں کو زندہ رکھتا تھا اس سے غرض اس کی یہ تھی کہ ان میں فوجی قوت پیدا نہ ہوسکے بے شک وہ فرعون بڑا ہی پولیٹیشن (ملکی منتظم) اور مفسدوں سے تھا کہ خواہ مخواہ مسکینوں کو ستاتا تھا اور ہمارے منشاء کے خلاف چلتا تھا جن لوگوں کو زمین میں کمزور کیا جاتا تھا ہم چاہتے تھے کہ ان پر احسان کریں اور ان کو دین کے امام بنائیں اور ان کو ملک کے وارث بنائیں اور زمین پر انہی کو حکومت دیں اور ہم یہ بھی چاہتے تھے کہ فرعون ہامان اور ان کی فوجوں کو ان بنی اسرائیلیوں سے جس بات کا خوف تھا وہی ان کو دکھا دیں یعنی زوال حکومت فرعونی آخر کار انہی کے ہاتھوں سے ہو چنانچہ ایسا ہی ہوا کیونکہ ہست سلطانی مسلم مردار نیست کس راز ہر ۂ چون چرا مگر چونکہ اتنا بڑا انقلاب اس بات پر موقوف تھا کہ مردے از غیب بروں آید دکارے مکند اس لئے ہم نے موسیٰ کو دنیا میں بھیجا اور موسیٰ کی ماں کو جو فرعون کے ظلم سے ڈرتی اور سہمگین ہو رہی تھی ہم نے الہام کیا یعنی اس کے دل میں القا کیا کہ اس بچے (موسیٰ) کو دودھ پلاتی رہ پھر جب تجھے اس پر کسی بات کا خوف ہو کہ فرعون کے آدمی حسب قانون فرعونی اس کو مار نہ ڈالیں تو اس کو دریا کے پانی میں ڈال دیجئیو اور کسی قسم کا نہ اندیشہ کیجئیو نہ کسی قسم کا غم کہ کہاں جائے گا اور اس پر کیا کیا وارداتیں ہوں گی کیونکہ ہم ضرور اس کو تیرے پاس واپس لائیں گے اور اس کو اپنے رسولوں میں سے کریں گے پس موسیٰ کی ماں نے ؎ مے روی دمے رود جانم بتو‘ کوش برو فاللہ خیر حافظا۔ کہہ کر بچے کو دریا میں ڈال دیا تو فرعون کے گھر والوں نے اس کو پکڑ لیا قدرت الٰہی نے ان سے یہ کام کرایا کہ آخر کار وہ ان کا دشمن اور باعث غم ہو کچھ شک نہیں کہ فرعون اور اس کا وزیر ہامان اور ان کی فوج سخت خطاکار تھے کہ ایک ایسے لڑکے کو انہوں نے پرورش کیا جس کا نتیجہ ان کے حق میں اچھا نہ ہوا مگر وہ کیا کرسکتے تھے جب کہ قدرت نے ان کو ایسا کرنے پر مجبور کیا پھر ان کی کیا مجال تھی کہ ایسا نہ کرتے مگر چونکہ یہ کام ان کی ملکی پالسی کے بر خلاف تھا اس لئے وہ خطاکار تھے خیر یہ قصہ تو رہا الگ اب سنیے ادھر کیا ماجریٰ پیش آیا فرعون کے گھر والوں نے اس کو پکڑا اور فرعون کی بیوی کو بچہ ایسا پیارا معلوم ہوا کہ اس نے دیکھتے ہی کہا کہ یہ میری اور تیری (فرعون) کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے دیکھو یہ کیسا خوبصورت لڑکا ہے اور بچوں کی طرح اس کو قتل مت کرناہم اس کی پرورش کریں گے یہ لڑکا ہونہار معلوم ہوتا ہے امید ہے اپنی لیاقت سے بہت جلد ہم کو نفع دے گا یا ہم اس کو اپنا متبنے بنا لیں گے یہ باتیں وہ کرتے تھے اور وہ جانتے نہ تھے کہ پیش کیا آئے گا ادھر اس موسیٰ کی ماں کی کیفیت یہ ہوئی کہ اس کا دل بیٹے کے غم میں سب چیزوں سے خالی ہوگیا اور صرف موسیٰ کی طرف لگ گیا کہ ہائے میری ننھے سے بچے پر کیا کیا تکلیف آئی ہوگی ایسی گھبرائی کہ اگر ہم اس کے دل کو مضبوط نہ رکھتے تو وہ سارا راز ظاہر کردیتی کہ یہ میرا بچہ ہے پس پھر تو کیا تھا جونہی فرعون سنتا کہ یہ بچہ اسرائیل ہے تو وہ اپنے سابقہ حکم کے مطابق فورا اس کو مروا دیتا مگر ہم نے اس والدہ موسیٰ کو مضبوط رکھا تاکہ وہ انجام کار کامیاب ہو تو ہمارے وعدے پر پختہ ایمان لانے والوں میں سے ہوجائے خیر یہ تو ہوا جو ہونا تھا اب اس قصہ کی ابتدا سنیئے ! موسیٰ کی ماں نے بچے کو پانی میں ڈال دیا اور اس کی ہمشیرہ سے کہا کہ اس کے پیچھے پے چھ جا اری میں تو نہیں تو تو ہی جا دیکھ تو سہی یہ میرا ننھا سا لاڈلا کہاں کو جاتا ہے گو میں جانتی ہوں کہ جس اللہ نے مجھے یہ ڈھب بتایا اور دریا میں ڈلوایا ہے وہ اس کی ضرور حفاظت کرے گا مگر تو تو اس کی کوئی خبر لا کہ میری جان کہاں کو جاتی ہے پس اس لڑکی نے بڑی ہوشیاری سے یہ فرض ادا کیا اور دور سے فرعونیوں کی بے خبری میں اس موسیٰ کو دیکھا کہ فرعون کے گھر والوں نے اس صندوق کو پکڑا ہے اور حرم سرا میں لے گئے ہیں ادھر قدرت کا یہ کرشمہ ہوا کہ ہم نے فرعونیوں کے دلوں میں اس کی محبت ڈالی اور اس موسیٰ پر پہلے ہی سے سب دودھ حرام کر دئیے تھے تاکہ دونوں مقصد جن کے پورا کرنے کا وعدہ ہم نے موسیٰ کی ماں سے کیا تھا پورے ہوجائیں یعنی بچہ پرورش بھی پا جائے اور ماں کے پاس بھی آجائے پس اس لڑکی نے بڑی متانت اور لیاقت سے ان کو کہا میں تم کو ایک گھرانے کا پتہ بتاؤں جو تمہارے لئے اس بچے کو پرورش کریں اور وہ اس کے خیر خواہ بھی ہوں انہوں نے بحکم اندھا کیا چاہے دو آنکھیں کہا بتا نہیں بلکہ لے آ چنانچہ وہ گئی اور اپنی ماں کو خوشخبری سنائی کہ خواستی آنچہ تو فراز آب از جوئے رفتہ باز آمد لیجئے میری اماں ! آپ کا صبر پھل لایا نتیجہ اچھا ہوا چلئے اپنے بچے کو سنبھالئے اور مشاہرہ بھی لیجئے اور حرم شاہی میں عزت سے رہئے پس ہم نے ایک ذرہ سی تدبیر سے اس بچے کو اس کی ماں کی طرف واپس پہنچا دیا تاکہ اس کو دیکھ کر اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور غم نہ کرے اور دل سے جانے کہ اللہ کا ہر ایک وعدہ سچا ہے لیکن بہت سے لوگ جانتے نہیں مگر جو دور اندیش ہیں وہ واقعات سے اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کارزلف تست مشک افشانی اما عاشقاں مصلحت راتہمتے برا ہوئی چلیں بستہ اند خیر اسی طرح بچہ پرورش پاتا رہا اور بڑا ہوا یہاں تک کہ جب وہ اپنی جوانی اور قوت کو پہنچا اور خوب تنو مند ہوا تو ہم نے اسے محکم بات کرنے کا ملکہ اور اور دینی و ملکی امور کا علم دیا جس سے وہ پولٹیکل امور پر اکثر غور کرتا رہتا اور اپنی قوم بنی اسرائیل کے حال پر کڑھتا کہ کیسے ویران حال پریشان ہورہے ہیں اور وہ ان کی بہتری کی تدابیر سوچتا اسی طرح ہم نیکو کاروں کو بدلہ دیتے ہیں کہ وہ اپنی نیکی کی وجہ سے اس درجہ پر پہنچ جاتے ہیں کہ اللہ کی مخلوق سے ہمدردی کریں بلکہ ان کی عام پکار یہی ہوتی ہے کہ کرو مہربانی تم اہل زمین پر اللہ مہرباں ہوگا عرش بریں پر