سورة الفرقان - آیت 29

لَّقَدْ أَضَلَّنِي عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ إِذْ جَاءَنِي ۗ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِلْإِنسَانِ خَذُولًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

جس نے میرے پاس قرآن آجانے کے بعد اسے قبول کرنے سے مجھے بہکا دیا، اور شیطان کا کام انسان کو رسوا کرنا ہی ہے۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(29۔35) اس نے مجھے ہدایت پہنچنے کے بعد ہدایت سے گمراہ کردیا کمبخت نے مجھے قرآن کی ہدایات پر عمل نہ کرنے دیا اور شیطان تو انسان کی خواری میں لگا ہی ہوا ہے اس لئے اس نے اپنے دام افتادوں کے ذریعہ سے مجھے گمراہ کیا یہ تو ادھر چیختا ہوگا۔ ادھر رسول اللہ ﷺ کہیں گے اللہ تعالیٰ ! میری قوم نے جن میں تو نے مجھے بھیجا تھا اس قرآن کو غلط جان کر چھوڑ دیا تھا بتلائو ایسے وقت میں ان مجرموں کی کیسی گت ہوگی۔ ایک تو رسول اللہ کی نالش دوئم خود مجرموں کا اعتراف سوئم اللہ تعالیٰ کا علیم کل ہونا یہ سب امور ایسے ہیں کہ ان مجرموں کی خیر نہ ہو اور دنیا میں جو یہ لوگ شرارت اور فساد کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اسی طرح ہم نے فطرۃ ہر ایک نبی کے دشمن مجرموں کو بنایا ہے جو عادتا اور خصلتاً اس شرارت پر مجبور ہیں اور تیرا پروردگار خود اپنے بندوں کو ہدایت کرنے اور مدد کرنے کو کافی ہے جس میں جتنی استعداد ہوتی ہے اتنا مستفیض ہوتا ہے مگر جو لوگ شرارت ہی میں روز و شب لگے رہتے ہیں وہ اور جو لوگ کافر ہیں خواہ مخواہ کے فضول اعتراضات کرتے رہتے ہیں انہیں نالائقوں کو دیکھو ان کے کیسے خیال ہیں کہتے ہیں کہ یہ نبی جو آیت آیت اور سورت سورت سناتا ہے ایک ہی دفعہ تمام کا تمام قرآن اس پر کیوں نازل نہیں ہوتا دیکھو تو یہ کیسا سوال ہے؟ اگرچہ ایسا سوال کرنا ان کا حق نہیں تاہم ہم جواب دیتے ہیں کہ بات اسی طرح ہے کہ ہم اس قرآن کو متفرق متفرق نازل کرتے ہیں تاکہ تیرے دل کو ثابت رکھیں کو منکہ وحی الٰہی کا تحمل ایک دم مشکل ہے ظاہری استادوں کے شاگرد بھی ساری کتاب ایک دم میں نہیں پڑھ سکتے تو یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ تو اتنے بڑے بوجھ کی برداشت ایک دم میں کرسکے اسی لئے ہم اس کو تھوڑا تھوڑا اتارتے ہیں اور آہستہ آہستہ پڑہاتے ہیں اور یہ لوگ یادر کھیں کہ جب کبھی وہ کوئی مثال ابطال نبوت کی تیرے پاس لائیں گے ہم اس کا درست جواب اور عمدہ اور واضح بیان بھی تجھے دیتے رہیں گے کبھی یہ نہ ہوگا کہ ان کا کوئی معقول اعتراض لاجواب چھوڑا جائے ان لوگوں کا حال تو یہ ہے کہ کہو کچھ سمجھیں کچھ ہر بات میں الٹے چلیں گے اسی لئے تو قیامت کے روز بھی ان کو الٹا ہی چلایا جائے گا یعنی منہ کے بل سر نیچے کو اور پائوں اوپر کو پس یاد رکھیں کہ جو لوگ مونہوں پر جہنم کی طرف گھسیٹے جائیں گے وہی سب سے برے مرتبہ والے اور سب سے زیادہ گمراہ ہوں گے اس لئے اپنے کئے کی سزا پائیں گے