سورة البقرة - آیت 21

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اے لوگو، اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا (41) کیا اور ان لوگوں کو پیدا کیا جو تم سے پہلے گذر گئے، تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(21۔25)۔ اب ہم تمہیں ١ ے۔ لوگو ! ایک ضروری امر بتلاتے ہیں زرا دل کے کان لگا کر سنو ! اور اس کی تعمیل بھی کرو۔ وہ یہ کہ تم اپنے مولا کریم کی صدق دل سے عبادت کرو اور اسی سے اپنی مرادیں مانگو جس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا۔ اس پیدا کرنے کے شکر میں نہ سہی اس خیال سے کر وکہ شائد تم اس کے عذاب سے جو گردن کشوں پر آنیوالا ہے بچ جاؤ۔ بھلا ایسے مالک کی عبادت سے منہ پھیرنا کیسی نادانی ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو مثل فرش کے بنایا جہاں چاہو سورہو جہاں چاہو لیٹ رہو باوجود اس کے اگر کھیتی بھی چاہو تو کرسکو چنانچہ کرتے ہو اور آسمان کو مثل چھت کے سجایا اور علاوہ اسکے ہمیشہ تمہارے لئے بادلوں سے بارش اتارتا ہے۔ پھر اس بارش کے پانی کے ساتھ تمہارے لئے ہر قسم کے میوہ جات سے رزق پیدا کرتا ہے۔ پس جبکہ وہ ذات پاک ان سب کاموں میں اکیلا خود مختار ہے تو تم بھی دیدہ دانستہ اس اللہ کے لئے شریک نا بناؤ اور ہماری رضا جوئی ہمارے رسول کی معرفت سیکھو اور اگر تمہیں بوجہ غلط فہمی یا سوء ظنی کے اس کتاب کی سچائی میں شبہ ہو جو ہم نے اپنے بندے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بزریعہ وحی نازل کی ہے۔ تو اس غلطی کا دفعیہ یوں ہوسکتا ہے کہ چونکہ تم بھی اس جیسے آدمی ہو تمہاری انسانیت اور اس آدمیت میں کوئی فرق نہیں ظاہر تعلیم و تعلم میں بھی وہ تم لوگوں پر مزیت نہیں رکھتا۔ سو تم بھی اس جیسا ایک ٹکڑہ بنالاؤ اور سوا اللہ کے سب اپنے مددگاروں کو بلالو جو اس امر میں تمہاری مدد کریں اور تم کو اس مقابلہ میں کامیاب کرائیں اگر اس دعوٰی میں سچے ہو کہ اس رسول نے آپ ہی آپ بغیر الہام الٰہی کے کتاب بنالی ہے۔ تو ضرور مقابلہ پر آؤ۔ پس باوجود اس ابھارنے کے نہ کرو اور ہم تو ابھی سے کہے دیتے ہیں کہ تم نہ کرو گے پس باوجود عاجز آنے کے تو عناد سے باز آؤ اور اس آگ سے بچو جس کا ایندھن مشرک آدمی اور ان کے جھوٹے معبودوں، بتخانوں اور قبروں کے پتھر ہونگے جن سے تمام عمر ان کی منتیں مانگتے ہی گزری ہوگی وہ بھی ان کے ہمرکاب بھڑکتی جہنم میں ہونگے اب تم اس کی گرمی کا اندازہ خود ہی کرلو۔ کہ دنیا کی آگ میں جب پتھر ڈالے جائیں تو سرد ہوجاتی ہے مگر وہ آگ اس غضب کی ہوگی کہ اس میں ایسی چیزیں مثل ایندن کے کام دینگی کیوں نہ ہو جبکہ تیار ہی کی گئی ہے کافروں گردن کشوں کے کئے تو اس کی اس درجہ حرارت بھی مناست ہے۔ پس تو اے پیغمبر ایسے سرکشوں مفسدوں سے منہ پھیر اور جو لوگ ایمان لاکر نیک عمل کرتے ہیں ان کو مژدہ سنا۔ کہ ان کے لئے اللہ کے ہیں باغ ہیں جن کے مکانوں کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ وہ ان باغوں میں نعمتوں کی ایسی کثرت میں ہونگے کہ کثرت اقسام کی وجہ سے جب کبھی انکو کوئی پھل کھانے کے لئے ملے گا، وہ بوجہ مغائرت قلیلہ کے کہیں گے کہ یہ تو وہی ہے جو ہمیں ابھی ملا تھا اس کی وجہ یہ ہوگی کہ انکو ملتا جلتا ہی ملے گا صورت میں مشابہ ہوگا۔ بھر یہ نہیں کہ اس عیش وعشرت میں تجرد کی وجہ سے انکو تکلیف ہوگی بلکہ ان کے لئے ان باغوں میں بیویاں بد اخلاقی وغیرہ سے پاک ہوں گی۔ اور خاوندوں کی بڑی پیاری یہ بھی نہیں کہ ایسی نعمتوں میں چند روزہ ہی رہیں گے۔ بلکہ وہ ان باغوں میں ہمہشب رہیں گے۔ (ایک ٹکڑا بنا لائو) اس آیت میں اللہ جل شانہٗ قرآن کریم کی صداقت بیان فرماتا ہے۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ اگر تم کفار مکہ وغیرہ اس قرآن کو سچی الہامی کتاب نہیں مانتے تو اس جیسی ایک سورت تم بھی بنا لائو اگر نہ بنا سکو اور یقین ہے کہ نہیں بنا سکو گے حالانکہ تم بھی اسی رسول محمدﷺ کی طرح آدمی ہو۔ بلکہ اس سے کسی قدر دنیاوی معاملہ فہمی میں زیادہ واقف۔ تو پھر کیا وجہ کہ وہ بنا سکے اور تم نہ بنا سکو بیشک اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں کوئی طاقت تم سے زیادہ ہے جو تم میں نہیں۔ وہ وہی ہے مایَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی یہ خلاصہ ہے اس آیت کی تقریر کا۔ سر سید کی دوسری غلطی : رہیؔ یہ بحث کہ مثل سے کیا مراد ہے سو اس کے متعلق بیان کس قدر بسیط چاہیے۔ پہلے ہم مفسرین کی رائے دریافت کرتے ہیں پھر ان میں جس رائے کو بقرائن قرآنیہ مرحج سمجھیں گے ترجیح دیں گے۔ مفسرین تو سلفاً و خلفاً اس پر متفق ہیں کہ مثل سے مراد مثل فی البلاغت ہے۔ تفسرا کبیر الوسعود۔ فتح البیان۔ ابن کثیر۔ کشاف۔ معالم۔ بیضادی۔ جامع البیان۔ جلالین۔ کو اشی وغیرہ سب کے سب متفق ہیں کہ مثل فی البلاغت مراد ہے۔ مگر سرسید نے اس مسئلہ میں بھی سب کا مقابلہ کیا ہے۔ کہتے ہیں :۔ ” مثلیت قرآن کی فصاحت بلاغت کے لحاظ سے نہیں“ گویہ بھی مانتے ہیں کہ :۔ ” قرآن مجید بیشک بہت بڑا فصیح ہے مگر اس کی فصاحت کی بے نظیری اس کے من اللہ ہونے کی دلیل نہیں ہوسکتی اس لئے کہ بہت سے کلام دنیا میں بے نظیر ہیں مگر وہ من اللہ نہیں ہوسکتے۔ اور نہ قرآن میں اس کا کوئی اشارہ ہے کہ مثلیت سے مراد فصاحت ہے بلکہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ مثلیت سے مراد ہدایت مثلیت ہے۔ سورۃ قصص میں فرمایا کہ ” کافروں سے کہ دی کہ تورٰیت اور قرآن سے زیادہ ہدایت کرنے والی کتاب لائویں اس کے پیچھے چلوں گا“ پس ثابت ہوا کہ قرآن گو کیسا ہے فصیح ہو مگر جو معارضہ ہے وہ اس کے ہادی ہونے میں ہے۔ ہاں فصاحت بلاغت اس کو زیادہ روشن کرتی ہے“ (تفسیر احمدی جلد اوّل صفحہ ٣٠٣) پسؔ پہلے ہم ان آیتوں میں قریتہ تلاش کرتے ہیں جن میں معارضہ چاہا گیا ہے۔ تاکہ سید صاحب کے قول (نہ آیت قرآنیہ میں اس کا کوئی اشارہ ہے) کی تصدیق یا تکذیب ہوسکے۔ علاوہ اس آیت سورۃ بقرہ کے سورۃ یونس میں ارشاد ہے : اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرَاہُ قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّثْلِہٖ وَادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ سورۃ ہود میں فرمایا اَمْ ! یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰہٌ قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِہٖ مُفْتَرَیَاتٍ وَّادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ سورۃ بنی اسرائیل میں فرمایا قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ" الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰیٓ اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْ کَانَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ ظَھِیْرًا۔ اس میں تو شک نہیں کہ یہ آیات تحدی سب کی سب اس پر متفق ہیں کہ کفار عرب کے مقابلے اور ان کے عاجز کرنے کو نازل ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صرف مخاطبوں ہی کو نہیں بلکہ تمام ان کے اعوان اور انصار کو اس میں دعوت دی گئی ہے کہ مل کر مقابلہ پر آئو اور ساتھ ہی اس کے پیش گوئی بھی ہو رہی ہے کہ نہ کرسکو گے پڑے ایک دوسرے کے مددگار بھی بنو کچھ نہ بن سکے گا۔ اور یہ امر ظاہر ہے کہ مقابلہ میں ایسی باتوں کا ذکر کہ تم سب کے سب مل کر اتفاق بھی کرلو تو بھی ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکو گے وہاں بھی مناسب ہوتا ہے کہ جس امر پر اتفاق کرنے سے فریق مقابلہ کو بھی کچھ امید کامیابی ہوجیسا کہ ایک بڑی زبردست سلطنت ماتحت ریاستوں سے مقابلے کے وقت کہے کہ تم سب کے سب بھی متفق ہوجائو۔ تو بھی تم ہمارا کچھ بگاڑ نہیں سکتے نہ کہ ایسے امر کی نسبت ان کا اتفاق ذکر کر کے دھمکی دی جاتی ہے کہ جس امر کے حصول کی نسبت ان کو بعد اتفاق بھی وہم و گمان نہ ہو کجا وہ امر کہ اس کے حصول ہی کو برا سمجھیں پس بعد اس تمہید کے ہم دیکھتے ہیں کہ کفار عرب کو یہ جتلانا کہ تم سب کے سب مل کر بھی اس سورت بنانا چاہو تو نہ بنا سکو گے کیا معنے رکھتا ہے؟ اگر مثلیت سے مراد ہدایت میں مثل ہوجیسا کہ سید صاحب کہتے ہیں تو کلام بالکل بے معنے ہے۔ اس لئے کہ ان کا خیال ہی نہ تھا کہ ہم اتفاق کرلیں تو قرآن جیسی ہادی کوئی کتاب بنا لیں بلکہ ان کو تو قرآن کی ہدایت سے سخت نفرت تھی۔ بار بار یہی کہتے تھے کہ اس قرآن کو بدل ڈال۔ کوئی اور کتاب ہمارے پاس لا۔ یہ تو اچھا نہیں۔ ہمارے معبودوں کو برا کہتا ہے اس کی تکذیب کی وجہ معقول ان کے نزدیک ہی تھی کہ اَجَعَلَ اْلاٰلِھَۃَ اِلٰھًا وَّاحِدًا اِنَّ ھٰذَا لَشَیْئٌ عُجَابٌ پس ایسے لوگوں کے سامنے جو اس کتاب کی ہدایت سے بیزار اور سخت متنفر ہوں اور یہی وجہ ان کی نفرت کی ہو۔ اور کبھی اس کی ہدایت کو پسند نہ کریں اور کبھی اس جیسی ہادی بنانے کی طرف رخ نہ لادیں۔ ایسے لوگوں کو کیا کافر کہتے ہیں کہ رسول نے قرآن کو خود بنا لیا ہے تو کہہ اس جیسی ایک سورت تو لائو اور اللہ کے سوا جن کو بلا سکتے ہو بلا لو اگر تم سچے ہو۔ ! کیا کافر کہتے ہیں کہ قرآن اس جیسی بنائی ہوئی دس سورتیں تو لے آئو اور اللہ کے سوا جن کو چاہو بلا لو اگر تم سچے ہو۔ " تو کہہ اگر تمام انسان اور جن بھی جمع ہو کر اس قرآن جیسی کوئی کتاب لانا چاہیں گے تو اس جیسی نہ لا سکیں گے گو ایک دوسرے کے مددگار بھی ہوں۔ یہ کہنا کہ تم سب کے سب مل کر اس کتاب جیسی کوئی کتاب ہادی انام بنا لائو اور ساتھ ہی یہ پیش گوئی بھی کردینا کہ ” ہرگز نہ لا سکو گے“ بالکل اس کے مشابہ ہے کہ جیسے کوئی ہندو بت پرست یا عیسائی تثلیث پرست کسی مسلمان کو (جو ان کی کتابوں سے ایسی ہی تعلیم کے سبب سے بیزار ہو) یہ کہے کہ اگر تو ہماری کتاب متضمن تعلیم بت پرستی اور تثلیث پرستی کو نہیں مانتا تو اس جیسی کوئی ہادی کتاب بنا لا اور ساتھ ہی اس کے یہ پیش گوئی بھی کرے کہ تو اور تیرے حمایتی ہرگز ایسی نہ بنا سکو گے‘ تو میں نہیں سمجھتا کہ کوئی دانا اہل الرائے اس کی اس پیش گوئی کی کچھ وقعت کرے ہاں اس قائل کی حمایت کی دلیل کافی جانے گا۔ کیونکہ جو وجہ مسلمانوں کو اس کتاب کی تسلیم سے مانع ہے اسی قسم کی کتاب کا اس سے مطالبہ کرنا گویا ایک تکلیف بالمحال ہے اسی قاعدہ پر کفار عرب کا جواب پر آمادہ ہونا اور لَوْ لَشَآئُ لَقُلْنَا مِثْلَ ھٰذَٓا اِنْ ھٰذَا اِلَّآ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ کہنا صاف جتلاتا ہے کہ وہ اس کے طرز بیان کی نسبت معارضہ سمجھے تھے ورنہ یہ نہ کہتے اور ساتھ ہی اس کے اس آمادگی اور استعداد کی وجہ بھی بتلانا کہ اِنْ ھٰذَٓا اِلَّآ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ بالکل واضح کر رہا ہے کہ مثل سے مراد مثل فی الہدایت نہیں۔ ورنہ ایسی مستعدی نہ بتلاتے بلکہ بجائے اس کے یہ کہتے کہ ہم تو اس قرآن کو اور اس کے مثل ہادی بنانے کو ہی کفر جانیں سونکن کے ساڑے اپنی ناک تھوڑی ہی کٹوانی ہے۔ نیز اس موقع پر کفار عرب کا کہنا کہ قرآن کا بنانا کیا مشکل ہے۔ یہ تو پہلے لوگوں کی داستانیں ہیں۔ قابل غور ہے اس لئے کہ ہدایت کی وجہ سے تو اس کو وہ بالکل نیا سمجھتے تھے مَا ! سَمِعْنَا بِھٰذَا فِیْ المِلَّۃِ الْاٰخِرَۃِ اِنْ ھٰذَآ اِلَّا اخْتِلَاقْ صاف مظہر ہے کہ قرآن کو باعتبار ہادی ہونے کے ایک نئی چیز جانتے تھے بلکہ باعتبار ہادی ہونے کے موجب نفرت کہتے تھے۔ پس ان دونوں آیتوں کے ملانے سے صاف سمجھ میں آتا ہے۔ کہ کفار عرب خود اس معارضہ کو باعتبار ہدایت نہیں جانتے تھے بلکہ باعتبار طرز بیان سمجھتے تھے جب ہی تو اس سہولت کی وجہ بتلانے میں حکایات سابقہ کہتے تھے ہاں سرسید نے جس آیت سورۃ قصص کا ذکر کیا ہے اور دلیل بیان کی ہے کہ مثل سے مراد ہادی ہے۔ ان کی نسبت حیرت افزاء ہے۔ سید صاحب نے (حسب دستور قدیم) یہ تو خیال نہ فرمایا کہ دعوٰی کیا ہے اور دلیل کیا۔ دعوٰے مثلیت کا اور دلیل افضل کی اور وہ بھی من عند اللّٰہ۔ سید صاحب ! دعوٰے تو آپ کا یہ ہے کہ آیات تحدی میں جو معارضہ چاہا گیا وہ ہدایت میں ہے جس کی دلیل آپ نے یہ بیان کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر قرآن اور تورات دونوں سے منہ پھیر کر (اے کفار مکہ) اپنے آپ ہی کو ہدایت پر جانتے ہو۔ اور ان دونوں کی تعلیم توحید کو غلط جانتے ہو اور ان کو بناوٹی کتابیں سمجھتے ہو اور خود دین الٰہی کے تابع کہلاتے ہو تو ان دونوں سے بڑھ کر کوئی ہادی کتاب اللہ کی طرف سے آئی ہوئی لاکر دکھائو۔ اگر وہ واقع میں اللہ کی طرف سے ہوئی تو میں اسی کے پیچھے ہو لوں گا۔ اس مضمون کو آیت تحدی سے کوئی علاقہ نہیں۔ یہ تو کفار کو صرف اس بات پر الزام دیا جاتا ہے کہ باوجود یکہ تمہارے پاس کوئی سمادی کتاب بھی نہیں۔ پھر بھی اس قدر مخالفت پر جمے ہوئے ہو کہ پناہ اللہ جیسا کہ کوئی بڑا واقف اسرار الٰہی اپنی کہتا ہوا دوسرے کی نہیں سنتا۔ پس اگر تم بھی دین سے ایسے ہی واقف اور آگاہ ہو تو اس کتاب الٰہی کو جس کے ذریعہ سے تمہیں ایسی آگاہی ہوئی ہے لا کر دکھائو۔ معلوم ہوجائے گا کہ حق بجانب کس کے ہے۔ اس مضمون کو کئی آیات میں بیان کیا ہے۔ سورۃ قلم میں فرمایا اَمْ لَکُمْ کِتَابٌ فِیْہِ تَدْرُسُوْنَ اِنَّ لَکُمْ فِْیِہ لَمَا تَخَیَّرُوْنَ سَلْھُمْ اَیُّھُمْ بِذٰلِکَ زَعِیْمٌ پس اس آیت کو جس میں اَھْدی کتاب اور وہ بھی من عند اللّٰہ کی طلب ہے ان آیات کی تفسیر بنانا جن میں مثل کا معارضہ ہو۔ صریح غلط فہمی اور تفسیر الکلام بمَا لا یرضیٰ بہ قائلہ نہیں تو کیا ہے۔ بھلا اگر یہ آیت ان آیات کی تفسیر ہوتی تو اس میں من عند اللّٰہ کا ؔ اگر ہم چاہیں تو اس جیسا کلام ہم بھی کہہ لیں یہ تو پہلے لوگوں کی صرف حکایتیں ہیں۔ ! ہم نے یہ (توحید) پہلی قوموں میں نہیں سنی یہ تو بالکل نہیں ہے۔ لفظ کیوں ہوتا؟ حالانکہ ان آیات تحدی میں کفار کی بنائی ہوئی کتاب کا مطالبہ ہے اور اس آیت میں (جو بقول آپ کے ان کی تفسیر ہے) اللہ کی طرف سے آئی ہوئی کتاب کا تقاضا نہیں۔ تفاوت راہ از کجا ست تا بکجا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آپ نے ترجمہ میں من عند اللّٰہ کو (جس کے معنے اللہ کے پاس سے ہیں) اڑا دیا۔ کیونکہ آپ کے دعویٰ کو مضر تھا۔ حضرت ! قرآن کریم کا کوئی لفظ مضر نہیں۔ بلکہ شِفَآئٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ ہے۔ یہ تو انسان کی اپنی ہی غلط فہمی ہے۔ پس اصل مطلب ان آیات کا وہی ہے جو ہم نے بد لائل بینہ ثابت کیا ہے کہ قرآن کی مثل سے مراد فصاحت بلاغت اور طرز بیان میں مثل ہے کہ مقدمات یقینیہ سے نتیجہ نکالنا اور ایسے طرز پر نتیجہ نکالنا کہ ہر مرتبہ کا آدمی اس سے مستفیض ہو۔ ذرہ سورۃ قیامت ہی پر غور کیجئے اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَکَ سُدًی دعویٰ ہے اَلَمْ یَکُ نُطْنَۃً مِّنْ مَّنِیٍّ یُمْنَی ثُمَّ کَانَ عَلَقَۃً فَخَلَقَ فَسَوّٰی فَجَعَلَ مِنْہُ الزَّوْجَیْنِ الذَّکَرَ وَاَلْاُنْثٰی دلیل بیان فرما کر نتیجہ پر اطلاع دیتے ہیں اَلَیْسَ ذٰلِکَ بِقَادِرٍ عَلٰٓی اَنْ یُّحْیِیَ الْمَوْتٰی اس دلیل پر جس مرتبہ کا آدمی غور کرتا ہے اپنی طبیعت کے موافق نتیجہ پیدا کرسکتا ہے۔ ایسا باریک مسئلہ انسانی پیدائش اور معاد کا جس میں بڑے بڑے حکماء حیران پریشان ہیں ایسے سہل اور نرم الفاظ میں بیان کردیا کہ جن سے بڑھ کر ممکن ہی نہیں۔ یہی قرآن کی اعلیٰ درجہ کی بلاغت ہے اور یہی اس کی فلاسفی۔ ہاں سرسید کا یہ کہنا کہ ” بہت سے ایسے کلام فصیح ہیں جن کی مثل بنایا نہیں گیا۔ مگر وہ من اللّٰہ نہیں ہوسکتے۔“ محض دعویٰ ہی دعویٰ اور مدعی سست گواہ چست والا معاملہ ہے۔ ورنہ کوئی کلام یا متکلم ایسا بتلا دیں؟ جس نے اہل زبان کے سامنے دعوٰے کیا ہو۔ نہ صرف دعویٰ بلکہ وَلَنْ تَفْعَلُوْا کے اعلان سے منکروں کی عاجزی کو دوبالا کردیا بجز اس ایک ذات ستودہ صفات آپ کے جدا مجد فداہ ابی و امی کے پس ہمارا ایمان ہے کہ قرآن مجید بے مثل بلیغ کلام ہے۔ اس جیسا نہ کسی نے کلام بنایا نہ کوئی بنا سکے گا۔ نظیر اس کی نہیں جمتی نظر میں غور کر دیکھا بھلا کیونکہ نہ ہو یکتا کلام پاک رحماں ہے