سورة المؤمنون - آیت 84

قُل لِّمَنِ الْأَرْضُ وَمَن فِيهَا إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اے میرے پیغبر ! آپ ان سے پوچھیے اگر تمہیں معلوم ہے تو بتاؤ کہ زمین اور اس میں رہنے والوں کا مالک کون (٢٦) ہے؟۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(84۔96) پس اگر تم کو اس اصل مضمون میں بھی شک ہے تو ہم تم کو ایک اور طرح سے بھی یہ مضمون ذہن نشین کرا سکتے ہیں پس بتلائو کہ زمین اور زمین کے لوگ جو اس پر بستے ہیں کس کی ملک اور ماتحت ہیں اگر تم جانتے ہو تو بتلائو امید ہے یہ سوال سن کر یہ لوگ خود ہی کہیں گے کہ اللہ ہی کی ہے جب یہ کہیں اور مان لیں اور ضرور مانیں گے کیونکہ بقول شیخ سعدی مرحوم جہاں متفق بر الہتیش ان کے دل مانتے ہیں کہ ہمارا خالق ہمارا مالک وہی ایک ذات پاک ہے تو پھر ان سے کہئیو کہ کیا تم نصیحت نہیں پاتے اور اپنے اعمال کا نجام بد نہیں سوچتے اے نبی ! تو ان سے کہئیو کہ ساتوں آسمانوں اور زمینوں کا پروردگار اور عرش عظیم کا مالک کون ہے کس نے ان سب کو پیدا کیا ہے کون ان کی حفاظت کرتا ہے امید ہے یہ خود ہی کہہ دیں گے کہ اللہ ہی کی یہ شان ہے پھر تم کہئیو کہ تم جو اس کے ساتھ دوسری چیزوں کو اس کی مخلوق میں سے اس کا شریک کرتے ہو کیا تم ڈرتے نہیں کہ اس جرم کی پاداش میں کیا کچھ مصیبت تم کو جھیلنی ہوگی پھر ان سے کہہ کہ بتلائو تمام چیزوں کی حکومت کس کے قبضے میں ہے اور کون ہے جو بھاگے ہوئے کو پناہ دیتا ہے اور اس سے بھاگے ہوئے کو کہیں پناہ نہیں مل سکتی اگر جانتے ہو تو بتلائو امید ہے یہ خود ہی کہیں گے کہ اللہ ہی کی یہ شان ہے تو کہہ کہ پھر تم کہاں کو بہکائے جاتے ہو کیا تمہیں کوئی جادو کرجاتا ہے کہ اللہ کے ہوتے ہوئے اس کی موجودگی میں تم اس کے بندوں سے حاجات چاہتے ہو گو تم اللہ سے بھی مانگتے ہو مگر اتنا کرنے سے تم شرک کی بیماری سے بچ نہیں سکتے کیا تم نے کسی بزرگ اہل دل کا قول نہیں سنا کہ ؎ اللہ سے اور بزرگوں سے بھی کہنا یہی ہے شرک یارو اس سے بچنا جب تک کل اغراض اور مطالب اللہ ہی سے نہ چاہو گے بلکہ بقول ؎ لگائو تو لو اس سے اپنی لگائو جھکائو تو سر اس کے آگے جھکائو اپنے آپ کو اسی کی ذات ستودہ صفات سے پیوستہ نہ کر دو گے کسی طرح توحید کا دعویٰ صحیح نہ ہوگا اسی توحید کے پھیلانے کیلئے ہم نے سلسلہ انبیاء دنیا میں قائم کیا یہی سچی بات ہم ان کے پاس لائے ہیں اور یہ لوگ جو نہیں مانتے تو اس میں شک نہیں کہ یہ لوگ اس انکار میں بالکل جھوٹے ہیں اس سے زیادہ جھوٹ کیا ہوگا کہ اللہ کی اولاد ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں کوئی کہتا ہے فرشتے اللہ کی لڑکیاں ہیں کوئی کہتا ہے مسیح اللہ کا لڑکا ہے حالانکہ اللہ نے کسی کو اولاد نہیں بنایا اور نہ ان کے ساتھ کوئی اور معبود ہے اگر ہوتا تو ہر ایک معبود اپنی اپنی مخلوق کو الگ الگ لے جاتا اور ایک دوسرے پر غلبہ پانے کی کوشش کرتا کیونکہ جو ذات الٰہ یعنی معبود برحق ہو اس کی شان سے بعید ہے کہ وہ کسی کا ماتحت ہو اس لئے کہ ماتحتی اور صلح دو حال سے خالی نہیں یا تو ان دونوں میں سے ایک زیادہ طاقتور ہوگا یا دونوں مساوی طاقت ہوں گے مگر کسی تیسری زبردست طاقت کے ماتحت ہوں گے جیسے ہندوستان کی دیسی ریاستیں حالانکہ یہ دونوں صورتیں اللہ کی شان کے بر خلاف ہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ ان باتوں سے جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں پاک ہے وہ تمام غیب اور حاضر چیزوں کو جاننے والا ہے پس وہ لوگوں کے شرک کی باتیں کرنے سے پاک ہے ان کی فضول گوئیوں کی پرواہ نہ کر ہاں چونکہ ان پر عذاب الٰہی آنے کو ہے اس لئے تو دعا کرتا ہوا یوں کہہ اے میرے پروردگار جو کچھ ان کو عذاب وغیرہ کی دھمکی دی جاتی ہے اگر تو مجھے بھی وہ وقت دکھادے تو میرے پروردگار مجھے ان ظالموں کی قوم میں مت کیجئیوبلکہ محض اپنے فضل وکرم سے مجھے محفوظ رکھیو اور ہم اس پر قادر ہیں کہ جو کچھ ہم ان کو وعدے دے رہے ہیں تجھے دکھادیں یعنی اگر ہم چاہیں تو تیری زندگی ہی میں ان پر عذاب نازل کرسکتے ہیں لیکن چونکہ ہم جیسے توانا اور قدیر ہیں ویسے علیم اور حلیم بھی ہیں اس لئے جب ہم ان کے حال پر حلم سے کام لیتے ہیں تو تو بھی اچھے بدلے سے برائی کو دفع کیا کر یعنی اگر کوئی تیرے ساتھ برائی سے پیش آئے تو تو اس کے ساتھ نیکی سے پیش آیا کر۔ یہ کیا تو نے شیخ سعدی مرحوم کا قول نہیں سنا ؎ بدی رابدی سہل باشد جزا اگر مردی احسن الی من اسا مگر یہ قانون بھی وہیں تک ہے کہ مخالف شریف النفس ہو اور کسی غلط فہمی کی وجہ سے مخالفت کرتا ہو لیکن اگر شریر النفس معاند اور ضدی ہے جو نیکی اور احسان کرنے کو الٹا کمزوری پر محمول کرتا ہے تو ایسے شریروں کی سزا وہی جو دوسری جگہ قرآن شریف میں حکم ہے کہ جزآء سیئۃ سیئۃ مثلھا برائی کا بدلہ اس کے برابر کی برائی کرنا ہے چنانچہ شیخ سعدی مرحوم بھی باوجود یہ کہ اوپر کے شعر میں اعلیٰ درجہ کے تحمل کی تعلیم دیتا ہے مگر اس کا وسیع تجربہ یہاں تک بھی پہنچا ہے کہ ؎ نکوئی بابداں کردن چنان است کہ بدکردن بجائے نیک مرداں اس لئے تو بھی موقع شناسی سے کام لیا کر ہم ان کی گفتگو کو جو یہ لوگ کہتے ہیں خوب جانتے ہیں اس لئے تو ان سے اور ان کی بیہودہ گوئی سے کشیدہ خاطر نہ ہوا کر بلکہ اگر کسی وقت جوش آجائے تو تو دعا کیا کر