سورة المؤمنون - آیت 32

فَأَرْسَلْنَا فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ أَفَلَا تَتَّقُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی

پس ہم نے انہی میں سے ان کے لئے ایک رسول بھیجا، جس نے ان سے کہا کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو، اس کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں ہے، تو کیا تم اس سے ڈرتے نہیں ہو۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(32۔67) پھر انہی میں سے رسول بنا کر ان میں اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ بھائیو ! اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود برحق نہیں ہے یہ سن کر ان لوگوں نے نہ مانا خصوصا اس رسول کی قوم میں سے سرداروں نے جو بڑے کافرتھے اور آخرت کی ملاقات یعنی دوسری زندگی سے منکر تھے اور ہم نے ان کو دنیا کی زندگی میں آسودگی دی تھی انہوں نے کہا کہ یہ رسول تو بس محض تمہاری طرح کا آدمی ہے جو تم کھاتے ہو یہ بھی وہی کھاتا ہے اور جو تم پیتے ہو یہ بھی وہی پیتا ہے پس سن رکھو اگر تم اپنے جیسے آدمی کے پیرو ہوئے اور بلا وجہ اسی کو اپنا پیشوا اور سردار بنائو گے تو یقینا تم نقصان اٹھائو گے کیا یہ تم کو ڈراتا ہے کہ تم جب مر جائو گے تو مٹی اور ہڈیاں ہو کر پھر زندہ کر کے نکالے جائو گے ہائے افسوس ! کیسی دور از عقل بات ہے جس سے تم ڈرائے جاتے ہو ارے بھائیو ! یہی دنیا تو ہماری زندگی ہے جس میں ہم مرتے اور جیتے ہیں اور ہمیں کوئی عذاب نہیں ہے بس آئے اور رہے اور چلے گئے تم دیکھتے نہیں اج کل تمام یورپ کا یہی خیال ہے کیا وہ احمق ہیں نہیں بڑے دانا یان فرنگ ہیں اسی لئے تو انہوں نے اس قسم کے مذھبی جھگڑون کو بالائے طاق رکھ چھوڑا ہے یہ شخص جو تم کو ڈراتا اور دھمکاتا ہے یہ تو ایک ایسا آدمی ہے جس نے اللہ پر محض جھوٹ باندھ رکھا ہے کہ میں اس کا رسول ہوں مجھے وحی آتی ہے الہام ہوتا ہے حالانکہ نہ کوئی الہام ہے نہ وحی ہے محض گپ اور بے بنیاد باتیں کرتا ہے اسی لئے ہم اس کو ماننے کے نہیں کفار کی یہ نامعقول باتیں سن کر اس رسول نے کہا اے میرے پروردگار ! ان کے جھٹلانے پر میری مدد کر اللہ نے جواب میں کہا ذرہ صبر کرو تھوڑی دیر میں یہ لوگ اپنے کئے پر نادم ہوجائیں گے ایسے عذاب میں پھینکے کہ یاد کریں گے پھر ان پر واقعی عذاب آیا نہ کہ وہمی اور فرضی پس ہم نے ان کو خس و خاشاک کی طرح کردیا یعنی ہم نے ان کو ایسا بے کار کردیا کہ کسی شمار میں نہ رہے پس ظالموں کی قوم پر لعنت ہو جو اللہ کے حکموں کو نہیں سنتے سنتے ہیں تو عمل نہیں کرتے پھر ہم (اللہ) نے ان کے بعد اور لوگ پیدا کئے جن کا مرنا جینا سب ہمارے (یعنی اللہ کے) اختیار میں تھا کوئی قوم اپنے مقررہ وقت سے نہ آگے بڑھ سکتی ہے اور نہ پیچھے رہ سکتی ہے یعنی نہ تو یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص یا قوم اپنی اجل مقررہ زندگی یا ترقی تنزل سے کچھ وقت آگے بڑھ سکیں نہ پیچھے رہ سکتے ہیں یہ عام قانون الٰہی ہے یہ بات اور اس جیسی اور حقانی تعلیم پھیلانے کو پھر ہم نے پے درپے رسول بھیجے جو لوگوں کو سچی تعلیم دیتے تھے مگر لوگوں کا یہی حال رہا کہ جب کبھی کسی قوم کے پاس کوئی رسول آتا تو وہ اس کی تکذیب کرتے اور نہ مانتے یہ ان کی جہالت تھی اس لئے ہم نے ایک کے پیچھے ایک کو ملایا اور سب کو تباہ کردیا اور ہم نے ان کو ایسا نیست و نابود کیا کہ کہیں تو دنیا میں ان کا نام بلند تھا سکہ جاری تھا مگر آخر یہ ہوا کہ ہم نے ان کو صرف افسانہ بنا دیا یعنی لوگ فرصت کے وقت دل بہلانے کو ان کی حکایات سنا کرتے کہ فلاں ملک میں ایک بادشاہ تھا اس نے کہا کہ میں اللہ ہوں اس کے سمجھانے کو ایک رسول آیا جس کا نام ابراہیم تھا مگر اس نے اس رسول سے مباحثہ کیا اور اس کا کہا نہ مانا آخر اللہ نے اس کو مچھر سے ہلاک کرایا تو بسا اوقات لوگ ان کی حکایات سن کر بے ساختہ کہہ اٹھتے کہ جو لوگ اللہ پر ایمان نہیں لاتے ایسی قوم کو اللہ کی رحمت سے دوری ہو پھر بھی ہم مخلوق کو نہیں بھولے اور ان کی ہدایت کے سامان پیدا کرتے رہے چنانچہ موسیٰ اور ہارون کو ہم نے اپنے احکام اور کھلی دلیل معجزہ دے کر فرعون اور اس کے سرداروں کی اور تمام قوم کی طرف بھیجا تو وہ فرعونی شیخی میں آئے اور متکبر ہوگئے کیونکہ وہ پہلے ہی سے بڑے بدکردار اور سرکش قوم تھے بولے کیا ہم اپنے جیسے دو آدمیوں موسیٰ اور ہارون پر ایمان لے آویں اور ان کی تابعدار کریں حالانکہ ان کی قوم بنی اسرائیل ہماری غلام خدمت گار ہے پس ایسے بے جا غرور اور تکبر میں انہوں نے ان دونوں موسیٰ اور ہارون کو جھٹلایا تو وہ ہلاک ہوگئے اور ہم نے حضرت موسیٰ کو کتاب تورات دی تھی تاکہ وہ لوگ بنی اسرائیل وغیرہ اللہ کی راہ کی ہدایت پاویں اسی طرح سب نبیوں کے ذریعہ سے لوگوں کو پیغام حق پہنچاتے رہے اور حضڑت عیسیٰ بن مریم اور اس کی والدہ ماجدہ صدیقہ مریم علیہما السلام کو بھی ہم نے دنیا کے لوگوں کے لئے ہدایت کی نشانی بنایا اور ہم نے ان کو ایک اونچی جگہ پر جو بڑی مضبوط اور چشمے دار پہاڑی تھی جگہ دی تھی اس لئے کہ وہ دونوں ماں بیٹا ہمارے فرمانبردار تھے اور ہم ان سے خوش تھے ایس اہی سب رسول ہمارے فرمانبردا ہوتے رہے ہیں اسی لئے تو ہم ان کو حکم دیا کرتے تھے کے اے رسولو ! پاکیزہ حلال طیب غذا کھایا کرو اور نیک عمل کیا کرو بے شک میں (اللہ) تمہارے کاموں پر مطلع ہوں جب رسولوں کو یہ حکم ہے تو ان کی امتوں کو بھی یہی حکم ہے کیونکہ امت رسول کی تابع فرمان ہوتی ہے اور یہ نبیوں کی جماعت تمہاری ہی پارٹی کے ہیں گو مختلف وقتوں میں آئے مگر دراصل ایک ہی پارٹی ہے تم سب ایک ہی مطلب اور مشن (توحید الٰہی) کو لے کر دنیا میں پھیلانے کلئے آئے ہو اس لیے تم ایک ہی گروہ ہو اور میں (اللہ) تمہارا پروردگار ہوں پس تم مجھ سے ڈرتے رہو اور کسی کا خوف دل میں نہ لائو لوگوں نے رسولوں کی تعلیم کی کوئی قدر نہ کی بعض لوگ تو ان سے صریح مخالف ہوگئے جو ان کی تعلیم کو مان بھی چکے تھے انہوں نے بھی ایک بڑے ضروری حکم (اتفاق) کو بالائے طاق رکھ کر آپس میں پھوٹ ڈال دی اور ٹولی ٹولی اور گروہ بن گئے اسیر بھی جو کچھ کسی فریق کے پاس تھا اور ہے اسی کے ساتھ خوش و خرم ہیں اس کا ان کو ذرہ بھی خیال نہیں کہ ہم ایک ہی نبی کی امت ہیں اور ایک ہی کتاب کے پیرو پھر اس قدر تشدد کیوں ہے کہ ایک دوسرے کو دین سے خارج کرتا ہے اتنا نہیں سوچتے کہ ہمارے نبی نے ہم کو یہی سکھایا ہے؟ افسوس ہے ان کے حال پر پس تو ایک وقت تک ان کی غفلت میں ان کو چھوڑ دے اپنے کئے کی سزا خود ہی پائیں گے کیا یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم جو ان کو مال اور اولاد سے مدد دے رہے ہیں (جو قدرتی طریق پر بحکم کلا نمد ھولاء وھو لاء اس کو پہنچتی رہتی ہے) ان کو فائدہ رسانی میں ہم جلدی کرتے ہیں؟ نہیں نہیں بلکہ یہ لوگ سمجھتے نہیں ان کو معلوم نہیں یا دانستہ تجاہل کرتے ہیں ان کی تو کوئی بات بھی ٹھکانہ کی نہیں نہ ہوسکتی ہے کیونکہ کسی اصول پر ان کی کوئی بات نہیں ہاں جو لوگ اپنے پروردگار کے خوف سے ڈرتے ہیں ہر ایک کام میں اس کی رضا اور عدم رضا کی پرواہ کرتے ہیں مجال نہیں کسی وقت کسی کام میں بھی وہ اللہ سے بے خوف ہوسکیں ان کے دلوں میں اللہ کا خوف پوراجاگزین ہوتا ہے اور جو لوگ اپنے پروردگار کی آیات متلوہ اور غیر متلوہ پر ایمان رکھتے ہیں آیات متلوہ تو قرآن کے الفاظ کو کہتے ہیں اور آیات غیر متلوہ اللہ کی قدرت کے نشان ہیں جن کی بابت رب العالمین کا ارشاد ہے فکاین من آیۃ فی السموات والارض یمرون علیھا وھم عنہا معرضون یعنی کئی ایک آیات (نشان قدرت) رب العالمین کے آسمان اور زمین پر ہیں کہ یہ لوگ آنکھیں بند کر کے ان سے گزر جاتے ہیں پس ایمان جب ہی حاصل ہوسکتا ہے کہ دونوں قسم کی آیتوں پر یقین ہو آیات قرآنیہ کو تو زبان سے پڑھے آیات قدرت پر دل سے غور کرے انہی آیات کی طرف ایک اہل دل نے اشارہ کر کے کہا ہے برگ ورختان سبز در نظر ہوشیا ہر درۃ دختریست معرفت کردگار پس جو لوگ اس طرح سے ان آیات کو دیکھتے ہیں اور جو لوگ اپنے پروردگار کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کرتے خواہ وہ چیز اعلیٰ درجہ کی ہو یا ادنیٰ کی ہو اور جو لوگ حسب توفیق بن پڑتا فی سبیل اللہ دیتے ہیں اور دل میں ڈرتے ہیں کہ پروردگار کے پاس جانا ہے یعنی وہ اس نت سے نہیں دیتے کہ وہ اللہ پر یا اس محتاج پر یا اس مدرسہ کے کسی ملازم پر جس میں چندہ دیتے ہیں کوئی احسان کرتے ہیں نہیں بلکہ خاص اللہ کی رضا جوئی کیلئے دیتے ہیں اور دل ان کے اس خوف سے لرزتے ہیں کہ حقیر تحفہ اس عالی جناب کے شایان شان نہیں مبادا ہماری نیت میں فتور ہو تو الٹا مواخذہ ہو ان کو یہی ڈر لگا رہتا ہے اور اس خوف میں وہ ہمیشہ دست بدعا رہتے ہیں کہ ؎ من نگویم کہ طاعتم بپذیر قلم عفوبرگناہم کش ایسے لوگوں کے لئے ہم شہادت دیتے ہیں کہ یہی لوگ نیک کاموں میں جلدی کرتے ہیں اور ان نیکیوں کی طرف لپکتے ہیں ہاں یہ خیال مت کرو کہ نیک کام دنیا میں کوئی کر ہی نہیں سکتا انسان کسی وقت برے برے خیالات سے خالی نہیں رہ سکتا کبھی کوئی دنیاوی امور کے متعلق خیالات ہیں تو کبھی اپنی حاجات کی فکر ہے جیسا شیخ سعدی مرحوم نے کہا ہے ؎ شب چو عقد نماز بربندم چہ خورد بامداد فرزندم پس سنو ! خیالات دو قسم کے ہوتے ہیں ایک تو اختیاری دوسرے بے اختیاری اختیاری خیالات اگر برے ہوں تو ان پر پکڑ ہوگی بشرطیکہ ان کو دل میں اچھی طرح مضبوط کر رکھو گے اور بے اختیاری خیالات پر پکڑ نہیں کیونکہ ہمارے ہاں عام قاعدہ ہے کہ ہم کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ حکم نہیں دیا کرتے اس لئے کہ طاقت سے زیادہ حکم دینا صریح ظلم ہے مثلاً انسان کو ہم یہ تو حکم دیں گے کہ تو روزہ رکھ جس کو وہ تھوڑے سے وقت تک کرسکتا ہے مگر یہ حکم نہیں دیں گے کہ دیکھنا تجھے بھوک نہ لگنے پائے اگر تجھے بھوک لگی تو تیری خیر نہ ہوگی تجھے سزا ملے گی کیونکہ بھوک لگنے پر تھوڑے سے وقت تک کھانا نہ کھانا اس کے اختیار میں ہے لیکن بھوک نہ لگنے دینا اس کے اقتدار میں نہیں پس یہ ایک مثال اس عام قاعدہ کی سمجھو جو اوپر کی آیت میں بتلایا گیا ہے اور اسی پر اپنے خیالات کو قیاس کرلو کہ اگر وہ ایسے بے اختیاری ہیں تو خیر معاف ہیں اور اگر اختیاری ہیں تو تمہارے نام لکھے جائیں گے اور ہمارے پاس ایک کتاب بندوں کا اعمال نامہ ہے جو وقت پر قیام کے روز سچائی کا اظہار کردے گی جس کو مجرم دیکھ کر آہ وبکا کریں گے مگر جو کچھ ہوگا وہ انصاف ہی سے ہوگا اور وہ کسی طرح سے ظلم نہیں کئے جائیں گے لیکن یہ لوگ عرب کے مشرک اور تیرے مخالف جو اس راست بات کو تسلیم نہیں کرتے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے دل اس سے پردے میں ہیں یعنی قرآن جس عذاب کی دھمکی ان کو سناتا ہے وہ ہنوز انہوں نے دیکھا نہیں اور اس کے سوا ان کے اعمال اور بھی ہیں جو یہ کرتے ہیں ان کا بھی ان پر اثر ہے بس یہ اسی طرح سرکشی اور تمرد میں رہیں گے یہاں تک کہ جب ہم ان میں سے خوشحال اور آسودہ لوگوں کو عذاب میں مبتلا کریں گے جن کا یہ سارا فساد ہے تو پھر یہ سب کے سب چیخ اٹھیں گے مگر اس روز کا چیخنا ان کو سود مند نہ ہوگا۔ اس لئے ان سے کہا جائے گا کہ آج مت چیخو ہماری طرف سے کسی امداد کی توقع مت رکھو کیونکہ تم کو ہماری طرف سے کوئی مدد نہ پہنچے گی اس لئے کہ امداد لینے کا استحقاق تم خود کھو چکے ہو ہمارے احکام قرآنی تم کو سنائے جاتے تو تم لوگ تکبر سے کچھ کچھ بیہودہ بکتے ہوئے پیچھے کو ہٹجاتے تھے افسوس ہے ان کے حال پر اس وقت تو پچھتاویں گے مگر اب نہیں سوچتے