أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ ۖ قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
کیا آپ نے اس شخص (358) کے حال پر غور نہیں کیا جس نے ابراہیم سے ان کے رب کے بارے میں حجت کی، اس لیے کہ اللہ نے اسے حکومت دے رکھی تھی، جب ابراہیم نے کہا کہ میرا رب تو وہ ہے جو زندگی اور موت دیتا ہے، اس نے کہا کہ میں زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں، ابراہیم نے کہا کہ اللہ آفتاب کو مشرق سے نکالتا ہے، تو اسے مغرب سے نکال کر دکھا، تو وہ کافر لاجواب ہوگیا، اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔
(258۔260)۔ کیا تجھے اس گمراہ شخص کا حال معلوم نہیں جس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے بوجہ اس کے کہ ابراہیم اللہ کی توحید کا قائل تھا اور وہ ملحد سرے سے اللہ کا منکر اپنے پروردگار کی بابت عناد سے جھگڑا کیا تھا۔ اس وجہ سے کہ اللہ عالم الغیب نے اس کو بادشاہ بنایا تھا پھر وہ اپنی چند روزہ بادشاہی پر ایسا نازاں ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا مدعی بن بیٹھا۔ جب ابراہیم نے اس کے سوال (کہ میرے سواتیرا اللہ کون ہے) کے جواب میں کہا میرا پروردگا وہ ہے جو سب کو زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ وہ بولا کہ زندہ تو میں رکھتا ہوں اور مارتا بھی میں ہوں چنانچہ اسی وقت ایک قصور وار مجرم کو چھوڑ دیا اور بے قصور کو مروا دیا۔ ابراہیم نے جانا کہ اس بات سے یہ نادان قائل نہ ہوگا اس کو کسی ایسے پیچ میں لائیں کہ اس کا جواب نہ دے سکے یہ سوچ کر ابراہیم نے کہا کہ اللہ تو سورج کو ہر روز مشرق سے لاتا ہے اگر تو ہی اللہ ہے تو ایک روز اس کو مغرب سے چڑھا اس لیے کہ جب مشرق سے تو لا سکتا ہے تو مغرب سے لانے میں کیا دقّت ہے۔ پس یہ سن کر وہ کافر حیران رہ گیا۔ جواب کچھ نہ بن پڑا چونکہ معانن تھا یہ نہ ہوا کہ ہدایت کو قبول کرتا اور اپنے مالک کے آگے جھکتا۔ الٹا ابرہیم سے الجھنے لگا جس کی سزا اس کو یہ ملی کہ اللہ نے اسے سمجھ ہی نہ دی کہ ابراہیم کے اس سوال کا جواب کیا دے اس لئے کہ اللہ ایسے ظالموں کو صادقوں کے مقابلہ میں راہنمائی نہیں کیا کرتا۔ جیسا یہ قاعدہ ظالوں کو ہدائیت نہ کرنے کا اللہ نے مقرر کر رکھا ہے ایسا ہی یہ بھی مقرر ہے کہ جو کوئی با خلاص نیت کوئی سوال حل کرانا چاہے اور اللہ سے مدد مانگے اللہ اس کو آسان کرکے اس کی راہ نمائی کرتا ہے کیا تو اس شخص کو نہیں ! جانتا جو ایک پرانی گری ہوئی بستی پر سے گذرا اور اس کو خراب اور اس کے رہنے والوں کو مرے پڑے دیکھ کر بولا کہ اس بستی کے رہنے والوں کو بعد مرنے کے اللہ کیونکر زندہ کرے گا؟ یہ ایک قسم کا تردد اسے ہوا جس کے دریافت حال کو اس نے سوال کیا چونکہ یہ سوال اس کا محض دینداری کی وجہ سے تھا اس لئے اللہ نے اس کو ایسے طور سے تشفی دی کہ بعد اس کے کسی دلیل کا محتاج نہ رہا۔ پس اللہ نے سو برس تک اس کو مار رکھا۔ پھر بعد سو برس کامل کے اس کو زندہ کرکے پوچھاکہ کتنی مدت توں یہاں پر ٹھیرا ہے۔ وہ بوجہ مرنے کی حالت سے بے خبر ہونے کے بولا کہ ایک دن یا کچھ حصہ دن کا ٹھیرا ہوں (اللہ نے) کہا ایک آدھ دن تو کجا بلکہ سو برس تک ٹھیرا ہے مگر تجھے معلوم نہیں۔ یہ ہماری ہی قدرت ہے کہ تجھے سو برس بعد زندہ کیا نہ صرف تجھے ہی زندہ کیا بلکہ تیرے متعلق کئی ایک اور بھی خرق عادت محض اپنی قدرت کاملہ سے کئے تیری ایسی چیزیں جو عموماً درازی زمانہ سے بگڑ جاتی ہیں وہ تو صحیح سالم رکھیں ہیں اور جن کو کسی قدر درازی مضر نہیں ان کو بگاڑ دیا اور بگڑی ہوئی کو تیرے سامنے درست بھی کریں گے۔ پس تو دیکھنا چاہے تو اپنے کھانے اور پانی کو دیکھ کہ باوجود سریع الزوال ہونے کے ابھی تک نہیں بگڑا اور اپنی سواری کی طرف دیکھ کہ کیسی گلی پڑی ہے تجھے بعد سو برس کے زندہ کرکے تیری تشفی کرتے ہیں اور ہم تجھ کو لوگوں کے لئے نشانی بنا دیں گے۔ تاکہ آئندہ جن لوگوں کو مردوں کے زندہ ہونے میں شک ہو وہ تیرے تاریخی حالات سن کر یقین کریں اور اپنی سواری کی ہڈیوں کو دیکھ کہ کس طرح ان کو ابھار کر گوشت چڑھائیں گے پھر تیرے سامنے ہی زندہ ہو کر پھرنے لگ جائے گا۔ پس جب اسے اصل حال معلوم ہوگیا ہاں بے شک اللہ ہی بڑی قدرت والا ہے تو بولا کہ میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ سب کام کرسکتا ہے۔ چونکہ یہ سوال اس کا محض دینداری سے تھا اس لئے وہ فوراً سمجھ گیا۔ ”(کیا تو اس شخص کو نہیں جانتا) اس قصہ اور اس سے آئندہ قصہ ابراہیمی کی نسبت کل مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ واقعات ان دونوں سائلوں کی بیداری میں واقع ہوئے گو ان کا پہلے قصے میں بسبب نہ ہونے نام سائل کے کسی قدر اختلاف ہوا ہے کہ یہ سائل کون تھا بعض نے کہا کہ کوئی کافر تھا بعض نے کہا مؤمن۔ بعض نے کہا نبی۔ بعض نے اس نبی کا نام بھی بتلایا کہ وہ حضرت عزیر تھے۔ تفسیر کبیر میں حضرت ابن عباس (رض) سے ایک روایت منقول ہے اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ سائل حضرت عزیر (علیہ السلام) تھے مگر سرسید احمد خاں کو یہاں بھی ایک نیا ہی خواب آیا۔ کہ انہوں نے اس قصہ کا سرے سے انکار کر کے جان چھڑائی اور اس کو خواب سے متعلق بتلایا کہتے ہیں کہ اس بزرگ نے خواب میں اللہ تعالیٰ سے احیاء موتیٰ کا سوال کیا اور خواب ہی میں اپنے کو سو برس تک مرے ہوئے دیکھا اور حضرت ابراہیم نے بھی جو کچھ کیا خواب ہی میں کیا۔ وجہ اس انکار کی تو وہی سپر نیچرل (خلاف عادت کا استحالہ ٹوٹا پھوٹا ہتھیار ہے۔ دلیل ان کی یہ ہے کہ :۔ ” بزرگوں کو جو اس قسم کے خلجان قلبی پیش آیا کرتے ہیں ان کا دفعیہ ان کو کشف اور خواب ہی میں ہوا کرتا ہے پس ضرور ہے کہ ان بزرگوں کو بھی جو ایک عقدہ دربارہ احیاء موتے پیش آیا ہے اس کا دفعیہ خواب میں ہوا ہوگا۔ حضرت ابراہیم سے نہ تو پہلے کسی نے اور نہ خود ابراہیم نے مردہ کا زندہ ہونا دیکھا تھا اس لئے کوئی ذی عقل اس قسم کے سوالات اللہ سے نہیں کرسکتا“ (تفسیر جلد اوّل ص ٢٩٢) دوسریؔ دلیل جو ذکر میں پہلے حضرت ابراہیم سے مخصوص ہے کہ :۔ ” یہ سوال ابراہیم (علیہ السلام) کا رویت سے ہے اور یہ ظاہر ہے کہ رویت کیفیت احیا موتی نہیں ہوسکتی اس لئے کہ غائت مافی الباب یہ ہے کہ اگر ہمارے سامنے مردہ زندہ ہوجائے یا کوئی بیمار اچھا ہو۔ تو ہم اتنا تو جان لیں گے کہ زندہ بیمار اچھا ہوگیا مگر اس کی زندگی کی کیفیت ہمیں معلوم نہ ہوگی کہ کس طرح ہوا پس حضرت ابراہیم کا سوال رویت قلبی سے متعلق تھا جو خواب میں ان کو حل ہوگیا (صفحہ ٢٩١) ناظرینؔ! سید صاحب کی اس قسم کی تاویلات سے آپ کو تو تعجب ہوتا ہوگا۔ مگر دراصل تعجب نہیں اس لئے کہ جناب تو اسی کے خوگیر ہیں بھلا اس کا بھی کچھ ثبوت دیا کہ بزرگان دین کو ہمیشہ عقدہ کشائی اور حل مطالب خواب ہی میں ہوا کرتا ہے۔ کیا حضرت زکریا (علیہ السلام) کو بے ٹا کی خبر سے تعجب نہیں ہوا تھا قالَ اَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلَامٌ وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْکِبَرِ عِتِیًّا۔ کیا حضرت مریم علیہا السلام کا عقدہ اَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلَامٌ وَّلَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ بھی خواب میں خواب ہوا تھا۔ سید صاحب ! جیسا کہ پہلے کہہ آیا ہوں کہ علماء کا دستور تھا کہ کہتے ہوئے دعویٰ کی دلیل بھی سوچ لیتے تھے مگر آپ نے جیسا کہ مذہب میں تجدید کی طریق مناظرہ اور اثبات دعا دی میں بھی سب سے تجرد اور انفراد کیا سچ ہے؟ قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا پر تیرے عہد سے پہلے تو یہ دستور نہ تھا پھر آپ کا یہ ارشاد کہ ” ابراہیم سے پہلے اور نہ خود ابراہیم نے مردوں کو زندہ ہوتے دیکھا تھا اس لئے یہ سوال ذی عقل کا کام نہیں“ حضرت ! بے ادبی معاف۔ حضرت موسیٰ سے پہلے کسی نے یا خود موسیٰ نے بھی پہلے سوال رویت (رَبِّ اَرِنِیْٓ اَنْظُرْ اِلَیْکَ) کے اللہ کو دیکھا تھا؟ پس بتلا دیں ایسی بے معنی بات جو جی میں آئے کہہ دینا ذی عقل کا کام ہے؟ نہیں بیشک نہ تو حضرت ابراہیم سے پہلے اور نہ خود ابراہیم نے احیاء اموات دیکھا تھا۔ مگر ممکن سمجھتے تھے ممکنات مقدورات باری سے سوال کرنا ہر ذی عقل اور ایماندار کا کام ہے گو آپ کا نہ ہو۔ ہاں آپ کا یہ کہنا کہ مردہ زندہ ہونا تو ہم دیکھ سکتے ہیں مگر اس کی کیفیت نہیں دیکھ سکتے۔“ بہت خوب دلیل ہے۔ قطعی ہے۔ جناب والا حضرت ابراہیم کا سوال بھی اسی رویت سے متعلق تھا۔ جس کو آپ بھی مانتے ہیں ان کو اس کیفیت سے جو مقولہ کیفہ (لا یقتضی القسمۃ واللّٰہ قسمتہ) سے ہی بحث نہیں تھی۔ یہ تو وہ جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کو اسباب اور آلات کی حاجت نہیں چنانچہ ان کا بَلٰے کہنا اس کی وضاحت کرتا ہے اطمینان قلبی وہ صرف رویت امر عجیب کے متعلق چاہتے تھے آپ کیف سے بلاکیف بگڑ گئے اور یہ سمجھ گئے کہ یہ کیفیت فلسفیانہ کیفیت ہے حالانکہ یہ کلام عرف پر مبنی ہے جیسا کوئی کسی مسحریزم والے کو کہے کہ میرے سامنے عمل کرتا کہ میں اس کی کیفیت دیکھوں تو اس کے معنے حسب عرف عام ہم یہی سمجھتے ہیں کہ اس سوال سے تاثیر فعل کا دیکھنا منظور ہے نہ کہ کیفیت فعل کا پس آپ کا فرمانا کہ کیفیت احیاء اموات تو کسی طرح مرئی نہیں ہوسکتی عرف عام اور خطابیات سے چشم پوشی ہے۔ رہا آپ کا ٹوٹا پھوٹا ہتھیار نیچرل سو اس کا جواب قرأت مرات گذر چکا ہے۔ فتذکر۔ جیسے سر سید احمد خاں ان واقعات سے انکاری ہیں ایسے ہی ان کے روحانی فیض یاب (مراز قادیانی) بھی منکر ہیں کیوں نہ ابن الفقہ نصف الفقیہ مشہور ہے ١٢ منہ “ اسی کی مثل ایک اور واقعہ بھی سنو ! جب ١ ابراہیم نے محض دینداری سے بغرض دریافت حال اپنے رب سے کہا کہ اے میرے مولا ! مجھ کو دکھاکہ تو مردوں کو کسی طرح زندہ کرے گا۔ اللہ تعالیٰ تو اس امر کو جانتا تھا کہ ابراہیم کا سوال بغرض تسلی اور مزید اطمینان ہے نہ کہ انکار اور عناد سے مگر اس خیال سے کہ بعدلوگ ابراہیم کے اس سوال سے اس کا نقصان ایمانی نہ سمجھیں اس امر کے اظہار کرنے کو ابراہیم سے کہا کہ تجھے یقین نہیں؟ کہ مردے زندہ ہوں گے (ابراہیم نے) کہا ہاں لیکن میں محض اطمینان قلبی کے لئے (پوچھتا ہوں) کہ مجھے علم الیقین سے عین الیقین ہوجائے (اللہ عالم الغیب نے) کہا کہ چار جانور لے کر اپنے پاس رکھ لے تاکہ تجھے بخوبی ان کی پہچان ہو۔ پھر ان کو ذبح کرکے ان کا ایک ایک ٹکڑا ہر ایک پہاڑ پر جو اس وقت تیرے ارد گرد ہیں رکھ دے پھر ان کو بلا تو دیکھ کہ وہ فوراً تیرے پاس اللہ کے حکم سے بھاگتے ہوئے آوینگے اور بخوبی جان رکھ کہ اللہ تعالیٰ بڑا زبردست حکمت والا ہے کسی کام کے کرنے سے عاجز نہیں ” شان نزول مشرکین عرب قیامت کو مردوں کے زندہ ہونے کے سخت مخالف تھے‘ اور اس کو ایسا مشکل محال جانتے تھے جیسا کہ سیاہ اور سفید کا ایک جگہ جمع ہونا ان کو سمجھانے کی خاطر حضرت ابراہیم (جن کو وہ لوگ بھی اپنا مقتدا مانتے تھے) کا واقع نقل کرنے کو یہ آیت نازل ہوئی ١٢ منہ “ ” عام طور پر اس آیت کا مطلب یہی بتایا جاتا ہے مگر تدقیق نظر سے ان معنے کا ثبوت قرآن مجید کے لفظوں سے نہیں ہوتا قرآنی عبارت میں دو لفظ قابل غور ہیں (١) صُرْ اس کے اصلی معنے ہیں جھکا چنانچہ تفسیر معالم وغیرہ میں اس کا ترجمہ اَمِلْ کیا گیا ہے اور شاہ عبدالقادر دہلوی نے بھی یہی ترجمہ کیا ہے۔ دوسرا لفظ جزو ہے جب وہ ایک چیز کی طرف نسبت ہوتا ہے تو اس چیز کا ایک ٹکڑا مراد ہوتا ہے اور جب کسی جمع کی طرف مضاف ہوتا ہے تو اس جمع میں سے ایک فرد مراد ہوتا ہے جیسے کہیں یہ لڑکا دسویں جماعت کا جزو ہے قرآن مجید میں بھی جزء مقسوم انہیں معنے سے آیا ہے پس اس صورت میں معنے آیت کے یہ ہوئے کہ ان چار جانوروں کو اپنی طرف مائل کر پھر ان میں سے ایک ایک کو پہاڑ پر رکھ کر بلا تیرے پاس آجاویں گے تو اس سے سمجھ لے گا کہ جس طرح یہ وحشی جانور تیرے بلانے پر آگئے ہیں اللہ کے بلانے پر سب مردہ چیزیں زندہ ہوجاویں گی انشاء اللہ تعالیٰ منہ “