وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَن لَّا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ
اور جب ہم نے ابراہیم کے لیے خانہ کعبہ کی جگہ (١٥) مقرر کردی، اور ان سے کہا کہ آپ کسی چیز کو بھی میرا شریک نہ ٹھہرائے، اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں، قیام کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے شرک و بت پرستی سے پاک رکھیے۔
(26۔38) اور ہم (اللہ) نے جب اس کے بانی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس مکان مسجد الحرام میں جگہ دی تھی تو یہ حکم دیا تھا کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیو اور میرے گھر یعنی عبادت خانہ کو طواف کرنے والوں یعنی باہر سے ائے ہوؤں اور اسی میں قیام کرنے والوں رکوع اور سجود کرنے والوں کے لئے صاف اور ستھرا رکھیو مبادا کوئی ظاہری ناپاکی (پائخانہ پیشاب) یا باطنی (شرک کفر بےدینی کے اسباب بت وغیرہ) کبھی اس میں راہ پاوے۔ اس بات کا ہمیشہ خیال رکھیو اور لوگوں میں حج کی منادی کر دیجو یعنی ان کو بتلا دو کہ جسے توفیق ہو وہ عمر بھر میں ایک دفعہ اس عبادت خانہ کو دیکھ جائے اور اس میں نماز پڑھ جائے تیرے پکارنے اور کہہ دینے کا یہ اثر ہوگا کہ پاپیادہ اور پتلی ڈبلی اونٹنیوں پر جو دور دراز راستوں سے آویں گی سوار ہو کر تیری زندگی میں تیرے پاس اور تیرے بعد تیرے بنائے ہوئے کعبہ میں یہ لوگ آئیں گے تاکہ اپنے دینی اور دنیاوی منافع پر پہنچیں اور اللہ نے جو مویشی یعنی چار پائے ان کو دئیے ہیں ان پر ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام ذکر کریں یعنی ایام حج میں قربانیاں کیا کریں پھر تم سب لوگ ان قربانیوں میں سے خود بھی کھائیو اور محتاج فقیروں کو بھی کھلائیو پھر حج کے بعداپنا میل کچیل دور کریں اور اپنے فرائض نذر نیاز للہ کو پورا کریں اور پرانے معبد کا طواف کریں۔ یعنی کعبہ شریف کے ارد گرد گھومتے ہوئے ذکر الٰہی کریں حکم تو یہ ہے اور جو کوئی اللہ کی حرمات یعنی قابل تعظیم چیزوں کی عزت کرے گا یہ ایسا کرنا اس کے پروردگار کے نزدیک اس کے لئے بہتر ہوگا کیونکہ مالک کے حکم کی فرماں برداری کرنا ماتحت اور مملوک کے حق میں ہمیشہ بہتر ہوتا ہے خصوصا ایسا مالک جو تمام طرح سے بااختیار ہو جس کے قبضہ اختیار سے کوئی چیز بھی باہر نہ ہوسکے اسی نے تم کو پیدا کیا اور تم کو قسم قسم کی نعمتیں عطا کیں تمہارے لئے ان معدودے چند جانوروں کے سوا جن کی حرمت سورۃ مائدہ کے رکوع اول میں تم کو سنائی جاتی ہے اور تم ہر روز اس کو پڑھتے ہو باقی چار پائے حلال کئے گئے ہیں پس تم اللہ کا شکر یہ ادا کرو اور شرک اور بت پرستی کی ناپاکی سے بچتے رہو یہ تم کو مذھبی حکم ہے اخلاقی طور پر یہ ہے کہ تم ہمیشہ راست بازی کو اختیار کرو اور جھوٹی بات کہنے سے بالکل دور ہٹے رہو صرف اللہ کے بندے ایک طرف ہو کر رہو اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائو اور یاد رکھو شرک ایسی بری بلا ہے کہ جو کوئی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بناتا ہے وہ یہ سمجھے کہ گویا وہ آسمان سے گر پڑا پھر یا تو آتے آتے راستہ میں اسے جانور نوچ لیں گے یا ہوا اس کو کسی دور دراز مکان میں پھینک دے گی غرض اس کی زندگی بہر حال محال یہ ایک ضروری حکم ہے ایسا کہ اس کے سوا کسی بندے کی نجات ہی ممکن نہیں اور اس کے سوا جو کوئی احکامات اور نشانات الہیہ کی تعظیم کرے گا تو بس وہ متقی ہے اور یہ دلوں کے تقویٰ کی بات ہے کیونکہ جب تک کسی کے دل میں ایمان کامل نہ ہوگا وہ الٰہی احکام کی عزت ہی کیا کرے گا سنو ! ایک وقت مقرر تک تمہارے لئے ان چارپائوں میں کئی کئی قسم کے فوائد ہیں پھر اگر تم نے قربانی کے لئے ان کو نامزد کردیا ہے اور حج میں ساتھ لے جانے کی نیت کی ہے تو پرانے معبد کعبہ شریف کے پاس ایام حج میں بغرض قربانی ان کو جانا ہوگا یہ حکم کوئی تمہارے ہی لئے مخصوص نہیں ہم نے ہر ایک قوم کیلئے قربانی کا طریقہ مقرر کیا تھا تاکہ اللہ کے دئیے ہوئے چار پائوں پر اللہ کا نام ذکر کریں مگر صرف اللہ کا نام لیں یہ نہ کریں کہ اس کے ساتھ اوروں کو بھی شریک کردیں (قرآن مجید کے اس دعویٰ کا ہر ایک قوم میں قربانی کا حکم ہے ثبوت آج بھی مذہبی کتب میں ملتا ہے۔ عیسائیوں کی بائبل تو قربانی کے احکام سے بھری پڑی ہے تورات کی دوسری کتاب سفر خروج میں عموماً یہی احکام ہیں تعجب تو یہ ہے کہ ہندوئوں کی مذہبی کتابوں میں بھی اس کا ثبوت ملتا ہے ہندوئوں اور آریوں کے مسلمہ پیشوا منوجی فرماتے ہیں۔ ” یگیہ و قربانی کے واسطے اور نوکروں کے کھانے کے واسطے چھے ہرن اور پرند مارنا چاہئے۔ اگلے زمانے میں کے ساتھ اوروں کو بھی شریک کردیں سو تم دل میں اس بات کا یقین رکھو کہ تمہارا حقیقی معبود ایک ہی ہے پس تم اسی کی فرمانبرداری رشیوں نے یگیہ کے لئے کھانے کے لائق ہرن اور پکشیوں کو مارا ہے شری برہما جی نے آپ سے آپ یگیہ (قربانی) کے واسطے پشو (حیوانوں) کو پیدا کاو اس سے یگیہ میں جو قتل ہوتا ہے وہ بدہ نہیں کہلاتا۔ ان۔ حیوان پرند۔ کچھو وغیرہ یہ سب یگیہ کے واسطے مارے جانے سے اعلیٰ ذات کو دوسرے جنم میں پاتے ہیں۔“ (ادھیارے شلوک ٢٢۔ ٢٣۔ ٣٩۔ ٤٠) گو آج کل کے ہندو یا آریہ ایسے مقامات کی تاویل یا تردید کریں مگر صاف الفاظ کے ہوتے ہوئے ان کی تاویل کون سنتا ہے ہم کو یہ دکھانا منظور ہے کہ قرآن شریف نے جو دعویٰ کیا ہے وہ اپنا ثبوت رکھتا ہے باقی قربانی کی علت اور وجہ اس کے لئے ہماری کتب مباحثہ حق پرکاش ترک اسلام وغیرہ ملاحظہ ہوں۔ منہ) سو تم دل میں اس بات کا یقین رکھو کہ تمہارا حقیقی معبود ایک ہی ہے پس تم اسی کی فرمانبرداری کرتے رہو اور تو اے رسول اللہ کی طرف جھکنے والے بندوں کو خوشخبری سنا جو ایسے نیک دل ہیں کہ جب اللہ کا نام لیا جاوے تو اس کی جلالت اور عظمت ان کے دلوں پر ایسا اثر کرتی ہے کہ ان کے دل کانپ جاتے ہیں وہ ایک طرف اللہ کی عظمت جلالت کا خیال کرتے ہیں دوسری طرف اپنی ناچیز ہستی کو دیکھتے ہیں تو ان کے منہ سے بے ساختہ نکل جاتا ہے چار چیز آور دہ ام شاہا کہ درگنج تو نیست نیستی وحاجت و عذر دگناہ آوردہ ام اور ان لوگوں کو خوشخبری اور بشارت سنا جو مصیبت پر صبر کرتے ہیں اور نماز ہمیشہ باجماعت ادا کرتے ہیں اور ہمارے دئیے میں سے نیک کاموں میں خرچ کرتے ہیں یہ ہیں اللہ کی طرف جھکنے والے اور یہی ہیں المخبتین اصل میں کمال بندگی تو یہی ہے کہ اللہ کی رضا جوئی ہر کام میں پیش نظر رہے خواہ کوئی کام ہو۔ باقی رہے امور ظاہر یہ مثلا قربانی کے بدنہ سوان اونٹوں کو ہم نے تمہارے لئے پیدا کیا ہے جو قدرت الٰہیہ کے نشانوں سے ہیں یعنی ہر ایک نبی کے زمانہ میں ان کی قربانیاں ہوتی چلی آئی ہیں ان میں تمہارے لئے کئی طرح کی بھلائی ہے بوجھ ان پر لادتے ہو ان کے بالوں سے کپڑے بناتے ہو۔ سواری ان پر کرتے ہو۔ غرض ان گنت فوائد ان سے تم لیتے ہو پس ذبح کرتے وقت ان کو کھڑا کر کے اللہ کا نام یاد کیا کرو پھر جب وہ ذبح ہو کر زمین پر گر پڑیں تو ان میں سے خود بھی کھایا کرو اور بھائی بندوں نہ مانگنے والے قناعت پیشہ اور گداگری سے آنے والوں کو بھی کھلایا کرو ہم (اللہ) نے اسی طرح ان کو تمہارے بس میں کردیا ہے تاکہ تم ہماری اس نعمت کا شکر کرو یہ نہ سمجھو کہ قربانی کا حکم تم کو اس لئے دیا ہے کہ ان کا گوشت اللہ کھاتا ہے نہیں نہیں ہرگز نہیں اللہ کو ان کے گوشت پوست تو ہرگز نہیں پہنچتے نہ ان کے خون پہنچتے ہیں لیکن تمہارا دلی اخلاص اور تقویٰ پہنچتا ہے پس اگر تم اس نیت سے کرو گے کہ یہ مالک نے دیا ہے اسی کے نام پر اس کی رضا جوئی کے لئے خرچ کی جائے تو اس کا نیک اجر پائو گے اور اگر کسی دنیاوی ننگ و نمود کیلئے قربانی کرو گے تو بس الٹے مجرم بنو گے اللہ تعالیٰ نے اسی طرح ان کو تمہارے قابو میں دیا ہے تاکہ تم اللہ کے بتلائے ہوئے طریق سے اس کی بڑائی کرو اور تکبیریں پڑھو اور اے رسول ! تو نیک آدمیوں اور احسان کرنے والوں کو خوشخبری سنا کہ اللہ کے ہاں تمہارے لئے بہت کچھ کامیابی کے سامان ہیں بے شک اللہ ان کو یونہی کسمپرسی میں چھوڑے گا بلکہ ایمانداروں سے مدافعت کرے گا چند روزہ ڈھیل پڑنے سے یہ نہ سمجھو کہ یہ مشرک کافر بدکار اللہ کو بھلے معلوم ہوتے ہیں نہیں نہیں ہرگز نہیں اللہ تعالیٰ کبھی کسی دغاباز خائن اور ناشکرے کافر سے محبت نہیں کیا کرتا یہ تو اس کی حکمت ہے اس سے تم یہ نہ سمجھو کہ اللہ مومنوں سے ناراض ہے کہ ان کی خبر گیری نہیں کرتا ان کو کافروں سے پٹوا رہا ہے چاروں طرف سے کافروں کے ان پر حملے ہوتے ہیں اور ان کو ہاتھ اٹھانے کی بھی اجازت نہیں دیتا