سورة الأنبياء - آیت 51

وَلَقَدْ آتَيْنَا إِبْرَاهِيمَ رُشْدَهُ مِن قَبْلُ وَكُنَّا بِهِ عَالِمِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور ہم نے ابراہیم کو اس سے پہلے اچھی سمجھ (٢٠) دی تھی اور ہم انہیں خوب جانتے تھے۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(51۔77) ہم نے اس سے پہلے تمہارے جد امجد اور عرب کے مورث اعلیٰ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ہدایت دی اور ہم اس کو جانتے تھے کہ وہ اس لائق ہے جو اس کے سپرد ہوگا۔ وہ اس کو خوب نبا ہے گا تم لوگ اس وقت کے واقعات یاد کرو جب اس (ابراہیم) نے اپنے باپ اور قوم سے کہا تھا کہ یہ کیا صورتیں ہیں جن پر تم ڈیرے ڈالے رہتے ہو اور جن کی پوجاپاٹ میں ایسے مست اور سرگرداں ہو کہ کسی کی سنتے ہی نہیں کہاں تک ان کو اللہ میں حصہ اور حق حاصل ہے وہ بولے ہم نے اور تو کوئی بات ان میں دیکھی نہیں البتہ ایک ہی بات ہے کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی عبادت کرتے ہوئے پایا ہے بس یہی تقلید آبائی ہماری دلیل ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں مگر ان نادانوں کو اتنی بات کی سمجھ نہ آئی کہ ابراہیم جیسے ہیں اور مناظر کے سامنے ہم ایسی خام دلیل تقلید آبائی کی پیش کرتے ہیں جو کسی طرح صحیح نہیں ہوسکتی کیونکہ یہی سوال جو حضرت ابراہیم نے اپنی قوم سے اور اپنے بزرگ باپ سے کیا تھا جس کے جواب میں انہوں نے اپنے باپ دادا کی تقلید کی آڑ لی۔ اگر ان کے باپ دادا زندہ ہوتے تو ان پر بھی یہی سوال وارد ہوسکتا تھا پھر وہ کیا جواب دیتے اس لئے حضرت ابراہیم نے کہا کہ تم بھی اور تمہارے باپ دادا بھی صریح گمراہی میں پھنس رہے ہو انہوں نے جب ابراہیم کی ایسی جرات دیکھی تو وہ بولے تو جو اتنی ہماری مخالفت کرتا ہے اچھا یہ طریقہ اگر غلط ہے تو تو بھی کوئی سچی بات لایا ہے یا یونہی معمولی دل لگی کرنیوالوں میں سے ہے اگر لایا ہے تو بتلا ہمارا سچا معبود کون ہے ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا بلکہ تمہارا حقیقی معبود اور پروردگاروہی ہے جو آسمانوں اور زمینوں کا پروردگار ہے جس نے ان کو پیدا کیا ہے اور اس بدیہی دعویٰ کی گو شہادت ضروری نہیں تاہم دنیا کی کل کائنات اس دعویٰ کی شہادت دے رہی ہیں اور میں خود بھی اس دعویٰ پر انہی شہادت دینے والوں میں سے ایک ہوں جب وہ اتنی بات سن کر ششدر ہوگئے اور جیسا کہ قاعدہ ہے پرانے مدت کے جمے ہوئے خیالات بمشکل نکلا کرتے ہیں اس لئے وہ لوگ ایسے صاف اور سیدھے بیان سے ہدائت یاب نہ ہونے ابراہیم نے کہا واللہ میں تمہیں راہ راست پر لانے کو تمہارے ان بتوں یعنی معبودوں سے تمہارے جانے کے بعد ایک دائو کرونگا جس سے تم ان کی ناتوانی اور عدم استحقاق الوہیت خوب سمجھ سکو پس جب وہ اس بت خانہ سے چلے گئے تو اس نے ان سب کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا لیکن ان میں سے بڑے بت کو بچا رکھا تاکہ وہ ابراہیم کے کہنے پر اس کی طرف متوجہ ہوں یا اس کی سلامتی دیکھ کر دل میں غور کریں کہ یہ کسی نے کیا کیا۔ کہ تمام کو توڑ دیا لیکن اس سے کیا اسے دوستی تھی جو اس کو ثابت رکھا چنانچہ وہ آئے اور انہوں نے کہا جس نے یہ کام ہمارے معبودوں سے کیا ہے بے شک وہ بڑا ظالم ہے پھر آپس میں انہوں نے بعد غور و فکر ایک دوسرے سے کہا کہ کل ہم نے ایک جوان لڑکے کو ان ٹھاکروں کا ذکر کرتے ہوئے سنا اس کو ابراہیم کہا جاتا ہے یعنی اس کا نام ابراہیم ہے اسی نے کیا ہوگا کیونکہ وہ ان کے نام سے بھی چڑتا ہے یہ سن کر رئیسوں اور سرداروں نے کہا تو اس کو لوگوں کے سامنے لائو تاکہ اگر وہ اقرار کرے تو لوگ اس پر گواہ ہوں ایسا نہ ہو کہ ہم اسے سزا دیں تو عوام میں ہماری بدنامی ہو کہ بے ثبوت ایک لڑکے کو مارا۔ خیر ابراہیم کو جب بلالائے تو انہوں نے اس سے کہا کہ ابراہیم ! ہمارے معبودوں سے یہ بے جا کام تو نے کیا ہے کہ ان کو تکڑے ٹکڑے کردیا ؟ ابراہیم نے کہا میں نے کیا کیا؟ تم نے اس بڑے بت کو ایسا بنایا کہ اس کے دیکھنے سے مجھے سخت رنج ہوا اس لئے میں نے نہیں کیا بلکہ ان میں سے بڑے بت نے کیا ہے اگر بول سکتے ہیں تو ان کو پوچھ لو پس حضرت ابراہیم کے اس معقول جواب سے وہ ایسے رکے کہ کوئی جواب نہ بن پڑا (یہاں پر سوال ہوا کرتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس بت کو فاعل کیوں بنایا اس کا جواب یہ ہے کہ اس کو فاعل بنانا نسبت کی حیثیت سے مجاز ہے جیسا کہ استاد داغ نے کہا ہے مجھے کھٹکا ہوا تھا جب بنائے کعبہ پڑتی تھی کہ یہ جھگڑے میں ڈالے گا بہت گبرو مسلماں کو یعنی جھگڑے کا سبب بنے گا۔ منہ) کچھ مدت تک اپنے جی میں سوچا کئے پھر بولے یعنی باہم ایک دوسرے کو کہنے لگے کہ بے شک تم ہی ظالم ہو کہ ایسے نوجوان لڑکے کو تم نے خوامخواہ چھیڑ کر ایسی بڑی مجلس میں اپنی ہتک کرائی حضرت ابراہیم بڑی متانت سے الگ بیٹھے ان کی یہ باتیں سنتے رہے اور دل میں آئندہ جواب سوچتے رہے پھر وہ کفار کچھ مدت تک اوندھے گر کر کہنے لگے ابراہیم ! تو نے یہ کیسا سوال کیا ہے کہ ان سے پوچھو تو جانتا ہے کہ یہ تو بولتے نہیں پھر ہم پوچھیں کس سے اور بتلائے کون؟ ایسا ہوشیار ہونہار ہو کر تو ہم سے ایسے سوال کرتا ہے۔ وہ نادان ابراہیم کی اس معقول تمہید کو نہ سمجھ کہ ابراہیم کا مطلب ہم سے یہی کہلوانا ہے چنانچہ ابراہیم نے یہ سنتے ہی بلند آواز سے کہا گیا پھر تم اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہو جو عبادت کرنے پر تم کو نہ نفع دے سکیں اور نہ ترک کرنے پر نقصان حیف ہے تم کو اور ان چیزوں کو جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو کیا تم اب بھی عقل نہیں کرتے کہ کس بیوقوفی کے جال میں پھنسے ہو بس یہ کلام ہیبت قطام جب کاذبوں نے سنا تو ان کے چھکے چھوٹ گئے آخر انہوں نے بحکم چو حجت نماند جفا جوئے را بہ پیکار گردن کشد روئے را کہا اس ابراہیم کو آگ سے جلا دو اور اپنے معبودوں کی حمایت کرو اگر کچھ کرنا چاہتے ہو تو یہ کرو کیسے عقل سے خالی تھے کہ اپنے معبودوں کی امداد کرنا چاہتے تھے انہوں نے تو اپنے خیال میں یہ تجویز کامیابی کی سوچی مگر وہ ہماری (اللہ کی) تجویزوں سے بے خبر تھے ادھر ہم نے آگ کو مناسب الفاظ میں حکم دیا جن الفاظ سے (اللہ) ہمیشہ اپنی مخلوقات کو حکم دیا کرتے ہیں کہ اے آگ بس خبردار تو ابراہیم کے حق میں بالکل سرد اور سلامتی والی بن جا یعنی ایسی بھی نہ ہوجانا کہ تیری سردی سے ابراہیم کو کسی طرح کی تکلیف پہنچے چنانچہ وہ ہوگئی اور انہوں نے تو اس سے تکلیف رسائی کا دائو کیا تھا پر ہم نے انہی کو ناکام اور ذلیل کیا (اس میں ان لوگوں کا رد ہے جو کہتے ہیں کہ ابراہیمی آگ سرد نہ ہوئی تھی۔ بلکہ ابراہیم سلام اللہ علیہ کو آگ میں ڈالا ہی نہیں گیا تھا یہ خیال ان کا غلط ہے کیونکہ قرآن شریف میں علوم اصول بتلایا گیا ہے کہ اذا قضی امرا فانما یقول لہ کن فیکون یعنی یہ عام قانون ہے کہ اللہ کے کن (ہو جا) کہنے سے شئی مطلوب ہوجاتی ہے۔ آیت زیر بحث میں رب العالمین کے کلام میں کن کا لفظ موجود ہے جس کے ذریعہ سے آگ کو سرد ہوجانے کا حکم دیا گیا ہے۔ پس الٰہی قاعدہ مذکور سے صاف سمجھ میں آتا ہے کہ آگ ضرور سرد ہوتی تھی ورنہ لازم آئے گا کہ معلول کو علت سے تخلف ہوگیا۔ حالانکہ یہ غلط ہے پس نتیجہ صاف ہے کہ کن کہنے سے ضرور آگ سرد ہوئی ہوگی ہے۔ بیرونی مباحث کو ایسا ہوسکتا ہے یا نہیں۔ سو ان مباحث کا تصفیہ ہم اس سے پہلے کئی ایک مواقع پر کر آئے ہیں کہ مفردات اور مرکبات سب کے سب مشیت ایزدی کے ماتحت ہیں۔ فافہم۔ منہ) اور ہم نے اس ابراہیم کو اور لوط علیہم السلام کو جو ابراہیم کے رشتہ میں تھا اس بابرکت زمین کی طرف بخیرعافیت پہونچا دیا جس میں ہم نے جہان کے سب لوگوں کیلئے برکات پیدا کر رکھی ہیں اور ہم نے اس کو ایک بیٹا اسحٰق اور بیٹے کا بیٹا یعقوب پوتا انعام بخشا اور سب کو ہم نے نیک اور صالح بنایا ایسے کہ تمام لوگوں نے ان سے ہدایت پائی اور ہم نے ان کو دین کے امام بنایا کہ ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کرتے تھے اور ہم نے ان کو نیک کاموں کے کرنے اور نماز پڑھنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا پس وہ ان تمام احکامات کی پابندی کرتے تھے اور بڑی بات ان میں یہ تھی کہ وہ خاص ہماری ہی عبادت میں لگے ہوئے تھے اس لئے وہ اپنے مطلب میں کامیاب ہوئے اور ہم نے لوط نبی کو دینی حکم اور علم دیا اور نبی بنا کر اس کی قوم کی طرف بھیجا جو دنیا بھر سے زیادہ بدمعاشی کے کاموں میں لگی ہوئی تھی یعنی خلاف وضع فطری لونڈوں سے بدکاری کرتے تھے ایسی بدطینت قوم سے اس کو پالا پڑا تو تم سوچ لو کہ اس کو کیسی کچھ تکلیف ہوئی ہوگی مگر ہم نے اس کی حفاظت کی اور اس بستی سے جہاں کے رہنے والے سخت بدکاری لواطت کرتے تھے ہم نے اس کو بچایا کچھ شک نہیں کہ وہ لوگ بہت بڑے بدکار تھے۔ ان کو تو ہم نے تباہ اور ہلاک کیا اور لوط کو ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بے شک وہ ہمارے نیک بندوں سے تھا اور لوط سے پہلے نوح کو ہم نے نجات دی تھی جب اس نے ہم کو پکارا تو ہم نے اس کی دعا قبول کرلی پس ہم نے اس کو اور اس کے اتباع کو بڑی گھبراہٹ کے عذاب سے بچا لیا یعنی اس عذاب سے جس کے ساتھ اس کی قوم کو تباہ کیا اور جن لوگوں نے ہمارے حکموں کی تکذیب کی تھی ان کے مقابلہ پر ہم نے اس (نوح) کی مدد کی کیونکہ وہ بدمعاش اور برے لوگ تھے پس ہم نے ان سب کو پانی میں غرق کردیا