أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللَّهُ مُوتُوا ثُمَّ أَحْيَاهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا (337) جو اپنے گھروں سے ہزاروں کی تعداد میں موت کے خوف سے نکل بھاگے، تو اللہ نے ان سے کہا کہ تم مرجاؤ، پھر اللہ نے انہیں زندہ کیا، بے شک اللہ لوگوں پر فضل و کرم کرنے والا ہے، لیکن اکثرت لوگ شکر گذار نہیں ہوتے
(243۔252 (۔ کیا تمہیں ! ان لوگوں کا قصہ معلوم نہیں جو اپنے"گھروں سے ہزاروں جمع ہو کر موت سے ڈرتے ہوئے نکلے تھے یہ سمجھ رہے تھے کہ نکلنے سے ہماری جان سلامت رہے گی جیسا تم سمجھتے ہو کہ مال کے روکنے سے مال بچ رہے گا۔ اور خرچ سے کم ہوگا۔ پھر اللہ نے ان کو حکم دیا کہ مر جاؤ فوراً مرگئے پھر اس نے ان کو زندہ کیا ” شان نزول :۔ مشرکین عرب قیامت سے منکر تھے اور ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ مر کر زندہ ہونا ایک محال امر ہے ان کے مقابلہ میں یہ آیت دلیل نقلی کے طور پر نازل ہوئی “ ”(جو اپنے گھروں سے) ان لوگوں کی تعیین میں اختلاف ہے کہ کون تھے۔ بعض سلف کہتے ہیں کہ ایک بستی میں وبا پڑی تھی وہاں کے بعض اشخاص نکل کر دوسری جگہ چلے گئے جب بعد دفع وبا کے واپس آئے تو ان کی صحت دیکھ کر پیچھے رہنے والوں نے کہا کہ اگر اب کے وبا پڑی تو ہم بھی نکل جائیں گے اتفاقاً پھر ایک دفعہ وبا پڑی تو وہ لوگ بھی نکل بھاگے۔ راہ ہی میں اللہ نے ان کو فوت کردیا۔ حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ نے بنی اسرائیل میں سے اپنی قوم کو جہاد کا حکم دیا۔ وہ بہانہ کرتے ہوئے بولے کہ جس ملک میں ہمیں جانا ہے اس میں وبا ہے جب تک آرام نہ بنو لے ہم نہیں جائیں گے پس اللہ نے ان سب کو مار دیا ان کی دلیل ہے کہ اس سے آگے اللہ تعالیٰ جہاد کی ترغیب دیتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قصہ بھی مجاہدین کا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ حزقیل نبی (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو جہاد کی ترغیب دی تھیں وہ اس سے گھبرائے تو انہوں نے دعا کی کہ یا اللہ ان کو کوئی نشانی انہیں کی جانوں میں دکھا تاکہ یہ تیرے حکم کو مانیں پس اللہ نے ان کو مار دیا اور پھر زندہ کیا۔ ان روایتوں سے کوئی روایت صحیح ہو یا کوئی غلط۔ قرآن کے مضمون کو اس سے بحث نہیں۔ قرآن کریم سے اتنا تو بوضاحت ثابت ہوتا ہے کہ اللہ نے ان کو مار کر پھر زندہ بھی کیا۔ باقی رہی سر سید اور مرزا صاحب قادیانی کی تاویلات (یاتحریفات) سو الفاظ قرآنی کے مقابلہ میں تار عنکبوت سے بھی ضعیف ہیں۔ ہرگز اس قابل نہیں کہ ادھر توجہ کی جائے کیونکہ دلائل عقلیہ سے احیاء اموات کا امکان اور نقلیہ سے اطلاق ثابت ہے۔ رہا سپر نیچرل (خلاف عادت) سو اس کا مفصل جواب پہلے گذر چکا “ تاکہ وہ اور ان کے اس قصہ کے سننے والے عبرت پاویں اور یہ سمجھیں کہ ہماری زندگی ہماری ترقی ہماری عمدہ تدبیروں پر مبنی نہیں بلکہ اصل میں سب اللہ کی مہربانی ہے بے شک اللہ لوگوں کے حال پر بڑا ہی مہربان ہے لیکن بہت سے لوگ اس مہربانی کا شکریہ نہیں کرتے۔ بلکہ اپنی ترقی اور اپنی صحت اور سلامتی اپنی تدابیر ناقصہ سے جانتے ہیں۔ یہی شکر نہیں کہ ہر کام میں زبانی شکر شکر کیا کرو۔ بلکہ شکریہ ہے کہ حسب توفیق اللہ تعالیٰ کے لئے خرچ بھی کرو اور (مسلمانو !) جب موقع ہو تو اللہ کی راہ میں مخالفوں سے لڑاکرو۔ اور دل میں جان رکھو کہ اللہ ہر ایک کی سنتا ہے اور جانتا ہے بعض لوگ جب خرچ کرنے کا نام سنتے ہیں تو ان پر مثل موت کے گراں گذرتا ہے یہ نہیں جانتے کہ دیا ہوا کہیں جانے کا نہیں آخرتم دنیا میں قرض بھی تو ایک دوسرے کو دیتے ہو۔ جو بعد مدت تم کو وصول ہوجاتا ہے۔ اسی طرح کوئی ہے جو اللہ کو بھی قرض حسنہ ہی سمجھ کر دے پھر اس کی طرف سے تمسک لکھوالے کہ اخلاص مندی پر وہ کئی گنازیادہ اس کو دیگا ” جہاد وغیرہ ضروریات مذہبی اور قومی میں خرچ کرنے کی ترغیب دینے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ “ پس اے سودخوارو ! دنیا میں چار آنے آٹھ آنے روپیہ سینکڑا سو دلینے والو ! آؤ غربا پر احسان کرو اور اللہ سے اس کے عوض میں کئی گنا سود لو اور اگر اب بھی باز نہ آؤ تو یادرکھو کہ اللہ ہی تنگی اور فراخی کرتا ہے سیدھے منہ نہ دوگے تو اسے تنگ کردینا بھی آتا ہے اس کے حکم سے جو کچھ دوگے اس سے زیادہ تم کو دے گا۔ آخر تو تم نے اس کی طرف لوٹنا ہے اپنی بھلے کی سوچو اور بعض کوتاہ اندیشوں کی طرح بوالہوس نہ بنو کہ باوجود جاننے مفید کام کے محض اپنی عافیت ظاہری چند روز کے لئے ان سے منہ پھیر جاتے ہیں جس کی وجہ سے آخر کار دقت پر دقت ان کو نصیب ہوتی ہے۔ کیا مثال کے لئے تمہیں بنی اسرائیل کی جماعت کا قصہ حضرت موسیٰ کے بعد کا معلوم نہیں ” شان نزول :۔ ! جہاد میں ترغیب دینے کو یہ آیت بصوراک تاریخی واقع کے نازل ہوئی۔ “ جب انہوں نے خود ہی اپنے وقت کے نبی سے درخواست کی تیص کہ ہمارے لئے کوئی بادشاہ اعلیٰ فوجی افسر مقرر کردے جس کے ساتھ ہو کر ہم اللہ کی راہ میں اپنے دشمنوں سے جن کے ہاتھ سے ہم جاں بلب ہیں لڑیں اس (نبی) نے کہا کہ اگر اس بادشاہ کی طرف سے تم کو لڑنے کا حکم ہوا تو تم سے لڑنے کی امید نہیں تم تو بزدلی سے بھاگ جاؤ گے وہ بولے کہ اللہ کی راہ میں ہم کیوں نہ لڑیں گے حالانکہ اس سستی اور غفلت ہی کا نتیجہ ہے کہ ہم اپنے ملک اور بال بچوں سے نکالے گئے ہیں اور سب مال اسباب ہمارا دشمنوں نے لوٹ لیا پس خلاصہ یہ کہ جب ان کو بادشاہ کی طرف سے لڑنے کا حکم ہوا تو سوائے چند اشخاص کے سب نے پیٹھ دیدی اور بد عہدی سے اپنی جانوں پر ظلم کئے جس کی سزا ان کو بھگتنی پڑی اس لئے کہ اللہ تو ظالموں کو خوب جانتا ہے تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ برطبق ان کی خواہش کے ان کے نبی نے ان سے کہا کہ اللہ نے تمہارے لئے ایک شخص طالوت کو (جو بوجہ) اپنی دینداری اور لیاقت علمی کے اس کام کے لائق ہے بادشاہ (اعلیٰ افسر) بنایا ہے۔ اس کی فرمانبرداری کرو۔ اور اس کے ساتھ ہو کر اللہ تعالیٰ کی راہ میں دشمنوں سے لڑو۔ انہوں نے اپنی کوتاہ اندیشی سے اس کی لیاقت اور دین داری پر تو غور نہ کی اور ظاہر بینوں کی طرح جھٹ سے بولے کہ بھلا وہ ہم پر کیسے حاکم ہوسکتا ہے حالانکہ ہم اس سے حکومت کا حق زیادہ رکھتے ہیں اس لیے کہ ہم تو کسی قدر مالدار بھی ہیں اسے تو مال کی بھی چنداں فراخی نہیں ہے۔ اس نبی نے ان کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ گو مال اس کے پاس نہیں اور نہ مال کی اس میں چنداں ضرورت ہے جن امور کی حکومت کے لئے ضرورت ہے وہ تو تین ہی باتوں میں منحصر ہیں ایک تو دینداری کہ ناحق کے ظلم وستم نہ کرتا پھرے دوسری لیاقت علمی کہ امور مملکت کو بخوبی انجام دے سکے۔ تیسری کسی قدر جسامت اور ظاہری ڈیل ڈول بھی ہو ایسا دبلا پتلا بھی نہ ہو کہ دیکھنے سے بجائے ہیبت کے بے رعبی ہو۔ سو ان تینوں باتوں میں وہ کامل ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اللہ نے اس کو تم پر بزرگی دی ہوئی ہے اور علم بھی اس کو وسیع دیا ہوا ہے۔ اور بدن میں فربہی ( تروتازگی) بخشی ہے۔ علاوہ اس کے یہ ہے کہ اللہ اپنا ملک اور اس کی حکومت جس کو چاہتا ہے دیتا ہے۔ تمہارا کوئی حق نہیں کہ تم سوال کرو اور اپنے استحقاق جتلاؤ مناسب غیر مناسب کو وہ خود ہی جانتا ہے تمہارے جتلانے کی حاجت نہیں اور اللہ بڑی ہی وسعت والا علم والا ہے باوجود اس بیان شافی کے انہوں نے قناعت نہ کی اور اس نبی سے اس کی حکومت کی نشانی مانگی جس کے جواب میں ان کے نبی نے ان سے کہا کہ اس کی حکومت کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس ایک صندوق آئے گا ”(صندوق آئے گا) اس کا نام تابوت سکینہ تھا اس میں بنی اسرائیل کے بزرگوں کے تبرکات رکھے رہتے تھے لڑائی کی وقت بنی اسرائیل اس کو میدان جنگ میں بڑی جانفشانی سے لڑتے ایک تو اس کے سبب سے جوش مذہبی ہوتا تھا۔ دوم یہ خطرہ رہتا کہ کہیں سستی کرنے سے دشمن اس کو لوٹ نہ لیں۔ جس کا لٹ جانا ان کو ایسا ناگوار تھا۔ جیسا کہ امت میں نبی کا قتل ہوجانا مگر بنی اسرائیل کے ضعف سے آخر تابوت سکینہ مخالفوں کے پاس چلا گیا۔ انہوں نے اس کو بڑی بے ادبی سے پائخانہ میں رکھا تھا۔ جس کا بنی اسرائیل کو سخت رنج تھا۔ نبی نے ان کو خوشخبری سنائی کہ طالوت کی حکومت کی یہ علامت ہے کہ تابوت سکینہ تمہارے پاس آجائے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ مخالفوں نے اس کو نکال کر بیل گاڑی میں لادا تو بیل فرشتوں کی تحریک سے سیدھے بنی اسرائیل میں چلے آئے بنی اسرائیل اس کو دیکھ کر شاد شاد ہوئے اور مقابلہ میں جان توڑ کر لڑے اور فتح یاب ہوئے “ جس میں اللہ کی طرف سے تمہیں تسکین ہوگی اور حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کی قوم کی چھوڑی ہوئی چیزیں ہوں گی یعنی عصا وغیرہ بزرگوں کی مستعملہ اشیاء ہونگی جن کو بنی اسرائیل بڑی متبرک سمجھتے تھے فرشتے اس کو اٹھائے ہوئے لاویں گے اور تمہارے بیچ میں رکھ دیں گے جس کے دیکھنے سے تمھیں تسلی ہوجائے گی۔ بیشک اس صندوق کے اس طور سے آنے میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہوگی اگر تم ماننے والے ہوئے تو اسی پر قناعت کروگے اور اگر ضدی ہوئے تو کوئی علاج نہیں چنانچہ ایساہی ہوا اور بعد دیکھنے اس واقعہ کے ان کے دلوں میں غیرت مذہبی اور غیظ ملکی جوش زن ہوا اور انہوں نے اس طالوت کو اپنا حاکم سمجھا پس اس نے فوج کی کمان شروع کی اور جہاد کے لئے سب نے تیاری بھی کرلی مگر چونکہ ان میں بہت سے ناآزمودہ کار اور خام جوشیلے تھے۔ نیز بسا اوقات کثرت ہجوم سے انتظام میں خلل بھی آجاتا ہے جس کے سبب سے انجام کار ہزیمت ہوجاتی ہے اس لئے ایسے وقت میں کسی زبردست پالیسی (حکمت عملی) کی ضرورت تھی پس اس نے ایسا ہی کیا کہ جب طالوت اپنی فوج کے ساتھ باہر کو چلا تو بولا کہ اللہ تم کو ایک نہر کے پانی سے آزمائے گا۔ پس جو شخص اس نہر سے پئے گا وہ میری جماعت سے نہ ہوگا اور جو نہ پئے گا تو وہ میرا ہمراہی ہوگا۔ مگر جو شخص بوجہ شدت پیاس کے ایک چلو ہاتھ سے بھر لے گا اس کو معافی دی جائے گی پس جب لوگ اس نہر پر پہنچے تو سوائے چند لائق اشخاص کے سب نالائقوں نے اس سے پانی پی لیا۔ پس طالوت نے اپنے پہلے حکم کے مطابق ان کو علیحدہ کردیا پھر جب وہ اور اس کے حکم کے ماننے والے مخلص تابعدار اس کے ساتھ اس نہر سے آگے بڑھے۔ تو بعض لوگ دشمن (جالوت) کی شوکت دیکھ کر بول اٹھے کہ آج تو ہم میں جالوت اور اس کی فوج کے مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں لیکن سب یکساں نہیں ہوتے جن لوگوں کو یقین تھا کہ اللہ کی مدد پاویں گے۔ وہ ان کے جواب میں بولے کہ گھبراتے کیوں ہو کیا ہوا اگر دشمن کی فوج عظیم اور بے شمار وباشوکت ہے بہت دفعہ تھوڑے لوگ بہتوں پر اللہ کے حکم سے غالب آجایا کرتے ہیں تم اللہ پر بھروسہ کرو اور اگر کچھ تکلیف پہنچے تو صبر کرو اللہ کی مدد صابروں کے ساتھ ہے۔ اور ان کے اس کہنے سے سب فوج کو تسلی ہوگئی اور مستقل ہو کر آگے بڑھے اور جب وہ جالوت کی فوج کے مقابل لڑنے کو آئے تو سب سے پہلے وہ اللہ سے مستدعی ہوئے کہ اے ہمارے مولا ! ہمیں تکلیفوں پر صبر عطاکر اور دشمنوں کے مقابلہ میں ہمارے قدم مضبوط رکھ اور ہمیں ان کافروں کی قوم پر فتح نصیب کر بے شک تو ہی اپنے بنددوں کا مددگار ہے۔ اور تیری مدد سے بیڑا پار ہے پس اللہ نے ان کی یہ مخلصانہ دعا قبول کرلی اور انہوں نے ان سب جالوطیوں کو اللہ کے حکم سے بھیگا دیا اور ان کے بادشاہ جالوت کو حضرت داؤد (علیہ السلام) نے جو ان دنوں جوان اور طالوت کی فوج میں سپاہی تھے‘ قتل کیا پھر تو طالوت کی فتح نمایاں ہوگئی اور اللہ نے داؤد کو طالوت کے بعد سب ملک کا اختیار دیا اور اصل تہذیب اور شائستگی جو حکومت کے لئے ضروری ہے حضرت داؤد کو سکھائی اور بوقت ضرورت اس داؤد نے جو سیکھنا چاہا اللہ تعالیٰ نے اس کو سکھایا جس کے سبب سے اس کا لقب خلیفۃ اللہ ہوگیا پھر تو ان کے تمام دشمن دب گئے اور فتنہ وفساد فرد ہوگئے بے شک اگر اللہ بعض لوگوں ظالموں کو بعض عادلوں کے ذریعہ سے دفعہ نہ کرے تو زمین سب خراب ہوجائے۔ لیکن اللہ ایسے ظالموں کو جن کا ظلم اپنی حد تک پہنچ جاتا ہے ضرور ہلاک کرتا ہے اس لئے کہ وہ دنیا کے رہنے والوں پر بڑا ہی مہربان ہے کہ ان کے نقصانات کو کسی قسم کے ہوں جسمانی یاروحانی پورا کردیتا ہے یہ قصہ اور اس کے مشابہ ہماری بتلائی ہوئی خبریں ہیں ان کو ہم تجھ سے واقعی طور پر بیان کرتے ہیں اور تو بھی صحیح طور سے لوگوں کو سناتا ہے اس لئے کہ بے شک تو اللہ کے رسولوں سے ہے جیسے کہ وہ غائب کی خبریں با طلاع الٰہی سنایا کرتے تھے اسی طرح تو بھی بتلاتا ہے