وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ ۚ وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوا ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ۚ وَلَا تَتَّخِذُوا آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَمَا أَنزَلَ عَلَيْكُم مِّنَ الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُم بِهِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
اور اگر تم اپنی بیویوں کو طلاق دو (325) اور ان کی عدت پوری ہونے لگے، تو انہیں نیک نیتی کے ساتھ روک لو، یا خوش اسلوبی کے ساتھ انہیں چھوڑ دو، اور انہیں نقصان پہنچانے کے لیے نہ روکو، تاکہ حد سے تجاوز کرو، اور جو ایسا کرے گا وہ اپنے آپ پر ظلم کرے گا، اور اللہ کی آیتوں کا مذاق نہ اڑاؤ، اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو، اور قرآن و سنت کو یاد کرو جو اس نے تم پر اتار ہے، جس کے ذریعے تمہیں نصیحت کرتا ہے، اور اللہ سے ڈرو، اور جان رکھو کہ اللہ سب کچھ کا علم رکھتا ہے
(231۔242)۔ گو یہ احکام ابتدا سے عورتوں کو دفع ضرر کے لئے ہی ہیں۔ مگر تاہم ہم صاف اور صریح لفظوں میں تم سے کہتے ہیں کہ جب تم عورتوں کو ایک یا دو طلاق دے چکے اور وہ عدت ختم کرنے کو ہوں۔ تو اس حال میں تمہیں اختیار ہے کہ ان کو بھلے طریق سے رجوع کرکے اپنے پاس رکھ لو یا شریفانہ طرز سے چھوڑ دو اور یا درکھو کہ دکھ دینے کے لئے ان کو مت روکنا کہ ناحق ان پر ظلم کرنے لگو اور سن رکھو کہ جو کوئی ظلم کا کام کرے گا۔ تو جان لے کہ اس نے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا۔ بلکہ اپنی ہی جان پر ظلم کیا ٖ۔ جس کا وبال اسے اٹھانا ہوگا پس تم دل سے ان حکموں کو مانو اور اللہ کی آیتوں اور قوانین کو ہنسی اور مسخری نہ سمجھو اور اپنے حق میں اللہ تعالیٰ کی نعمتیں یاد کرو۔ اور اسے بھی یاد کرو جو تمہاری طرف کتاب اور تہذیب الحکمت اتاری ہے۔ اور ان پر عمل کرو اللہ تم کو اس کتاب کے ذریعہ سے سمجھاتا ہے اور اس میں حکم ہے کہ اللہ سے ڈرو اور دل میں جان رکھو کہ اللہ ہر ایک چیز کو جانتا ہے تمہارا اخلاص اور غرور بھی اس سے مخفی نہیں اور یہ بھی اس سے مخفی نہیں کہ جو تم ناحق کے رنج اور کدورت میں اپنی رشتہ دار عورتوں کو ان کے خاوندوں سے ملنے نہیں دیتے اس لئے تمہیں بتلایا جاتا ہے کہ جب تم اپنی رشتہ دار عورتوں کو ان کے خاوندوں سے بوجہ ناچاقی کے طلاق دلاچکو اور وہ اپنی مدت ٹھیرنے کی پوری کرچکیں اور انہیں خاوندوں سے دوبارہ ان کی مرضی ہو تو تم ان کو ان کے پہلے خاوندوں سے جب وہ آپس میں دستور کے موافق راضی ہوجائیں نکاح کرنے سے مت روکا کرو اس امر کی خاص کر ان کو نصیحت کی جاتی ہے جو تم میں سے بصدق دل اللہ کو مانتے ہیں اور قیامت کے دن پر یقین رکھتے ہیں ” شان نزول ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور عدت گزر گئی تو اسی عورت سے دوبارہ نکاح کی درخواست کی۔ عورت کی مرضی نکاح کرنے کی تھی لیکن اس کے بھائی نے بوجہ غیرت کے نکاح سے انکار کیا اور غیظ و غضب میں سخت سست بھی کہا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (معالم) راقم کہتا ہے کہ یہ طلاق ایک یا دو ہوں گی اور مدت گذر چکی ہوگی اس لئے کہ اگر تین ہوتیں تو پہلی آیت کے موافق ان کا نکاح بدون نکاح ثانی کے درست نہ ہوتا۔ اس آیت کے متعلق اور توجیہیں بھی ہیں میرے نزدیک یہ بہت صحیح ہے “ غور کرو تو یہ حکم تمہارے لئے بڑا ہی ستھرا رہنے کا ذریعہ ہے اور بڑا ہی پاکیزہ ہے اور اللہ ہی اس کی خوبی کما حقہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ تمہیں تو اپنی روزمرہ کی باتیں بھی معلوم نہیں مثلاً شیر خوا بچہ کا دودھ پلانے کی مدت بھی تم نہیں جانتے کہ کتنی ہوتی ہے اس لئے ہم ہی ٹھیک ٹھیک بتلاتے ہیں کہ جو مائیں اپنے بچے کو پوری مدت دودھ پلانا چاہیں وہ پورے دو برس پلائیں اور جو اس سے پہلے ہی بچہ قوی تندرست جان کر چھڑا دیں تو انہیں اختیار ہے اور اس دودھ پلانے کی مدت میں ان کا ! کھانا کپڑا موافق دستور کے باپ کے ذمہ ہے۔ ” چونکہ بعد تولد بچہ کے خاوند بیوی میں علیحدگی بھی ہوجاتی ہے اس لئے یہ حکم فرمایا ورنہ خانہ دار عورت کا نفقہ تو خاوند کے ذمہ ہی ہوتا ہے۔ “ یہ نہ ہوگا کہ عورت اس کو مجبور کرے کہ میں پلاؤ ہی کھاؤں گی اور اطلس ہی پہنوں گی اور بچے کا باپ طاقت نہیں رکھتا بلکہ جس قدر اس کو وسعت ہو اتنا ہی دے اس لئے کہ ہر ایک نفس کو اس کی ہمت کے موافق ہی حکم ہوا کرتا ہے۔ نہ تو ماں اپنے بچے کی وجہ سے خاوند کو ضرر پہنچاوے کہ خواہ مخواہ خاوند سے زیادہ ہی مانگے اور نہ باپ اپنے بچہ کے سبب سے اس کی ماں کو تکلیف دے کہ خواہ مخواہ بلا ضرورت اس سے جدا کرکے کسی دوسری دایہ ہی سے دودھ پلوائے جس سے اس کی ماں کو بہ سبب جدائی بچہ کے تکلیف پہنچے غرض ہر ایک دوسرے کی آسائش اور آرام کے مخالف کام نہ کرے اور اگر باپ نہ ہو تو اسی قدر باپ کے وارثوں کے ذمہ ہے یعنی اگر تایا چچا یا دادا وغیرہ ہیں تو ان کے ذمہ ہے کہ اس بچہ کی پرورش کا خرچ اس کی ماں کو دیویں اگر وہ بھی نہ ہوں تو اسی بچہ کے مال سے جو اس کو وراثتاً باپ سے ملتا ہے اس کی ماں کا خرچ دیا جاوے پھر اگر وہ دونوں (ماں باپ) اپنی مرضی اور مشورہ سے بچے کو قوی لائق کھانے پینے کے جان کر مدت سے پہلے ہی دودھ بڑھانا یعنی چھڑانا چاہیں تو اس بڑھانے میں ان پر کوئی گناہ نہیں اس لئے کہ ماں باپ سے زیادہ شفیق دنیا بھر میں کوئی نہ ہوگا مناسب قوت بچے کے جب چاہیں بڑھا سکتے ہیں اور اگر کسی وجہ سے مشورہ کر کے کسی دایہ سے اپنی اولاد کو دودھ پلوانا چاہو اور بچے کی ماں سے وعدہ کرلو کہ ہم بچے کو تجھ سے ہر روز یا دوسرے روز ملا دیا کریں گے اور وہ اس کو مان بھی جائے تو اس میں تمہیں کوئی گناہ نہیں بشرطیکہ جو کچھ ان کی دائیوں سے دینا کیا ہے دستور کے موافق دے دیا کرو۔ یعنی ماؤں اور دائیوں سے حسب وعدہ برتاؤ کرو اور اس ایفاء عہد میں اور نیز دیگر امور دینی اور دنیاوی میں اللہ سے ڈرتے رہو اور دل سے جان لو کہ اللہ تمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہے یہ احکام مذکورہ متعلق زیست تو سن چکے ہو۔ اب کسی قدر موت کے متعلق بھی سنو ! جو لوگ مرتے ہوئے اپنے پیچھے بیویاں چھوڑ جاتے ہیں۔ وہ بیویاں ان کے ماتم میں چارمہینے دس روز سوگ میں بیٹھا کریں ” شان نزول عرب میں دستور تھا کہ شوہر کی موت کے بعد ایک سال تک بیوہ ماتم میں رہتی اور کسی قسم کی غلاظت بھی بدن سے دور نہ کرتی بعد ایک سال کے کسی چارپایہ کے منہ سے اپنا فرج لگا کر ایک مینگنی اپنے سر کے اوپر سے پیچھے کو پینک دیتی جس سے اس کی عدت کا خاتمہ سمجھا جاتا چونکہ اس قدر درازی مدت عورت کے لئے بلائے عظیم تھی اس کی مدت کم کرنے کو یہ آیت نازل ہوئی “ پھر جب اپنی مدت پوری کرچکیں۔ تو جو کچھ وہ اپنے حق میں موافق دستور زیب وزینت بغرض نکاح ثانی کریں تو اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں تم اس سے ناراض نہ ہو اور اگر بوجہ بیہودہ عار اس امر کے کہ ہماری بہن یا بھاوج دوسرے سے نکاح کیوں کرتی ہے ان کو منع کروگے تو یادرکھو کہ اللہ تمہارے کاموں سے پوری خبر رکھتا ہے خوب ہی سزا دے گا۔ اور یہ بھی مت کرو کہ یہ سمجھ کر کہ بعد عدت کسی اور سے نکاح نہ کرے ابھی سے اس کا انتظام کرلو۔ ہاں اس میں تم پر گناہ نہیں کہ اشاروں سے پیغام نکاح پہنچاؤ مثلاً کسی ایسے شخص سے کہو جو اس عورت سے ملنے والا ہو۔ مرد یا عورت کہ اگر کوئی عورت پاک دامن ہمیں مل جائے تو ہم اس سے نکاح کرلیں یا اسی عورت ہی کو اشاروں سے کہہ دو کہ تیرے جیسی شریف عورت کو کون نہیں چاہتا یا اپنے جی میں اس راز کو چھپائے رکھو کہ بعد عدت میں اس سے نکاح کروں گا۔ اس سے بھی اگر تم کو روکا جاوے تو تم رک نہیں سکتے اس لیے کہ اللہ کو معلوم ہے کہ تم ان کو ضرور یاد کرو گے اس امر کا کسی نہ کسی طرح سے اظہار بھی کروگے سواتنی کی تو اجازت ہے لیکن چپکے چپکے ان سے وعدہ نہ لیا کرو کہ ہم سے نکاح کرنا‘ ہاں اتنی اجازت ہے کہ بھلی بات ان سے کہو جس سے وہ تمہاری خواہش دریافت کرکے بعد فراغت ماتم سے تمہارا خیال رکھیں۔ اور پھر ہم کہتے ہیں کہ نکاح کا وعدہ ہرگز پختہ نہ کیجو جب تک کہ عدت پوری نہ ہولے اس لئے کہ ماتم کے زمانہ میں عورت حواس باختہ ہوتی ہے ایسے وقت میں اسے تمیز نہیں ہوتی کہ کس سے کرنا ہے کس سے نہیں کون لائق ہے کون نالائق وہ بیچاری غم رسیدہ مردکانام بھی غنیمت سمجھتی ہے چاہے انجام اس کا اچھا ہو یا برا۔ لیکن بعد عدت جوایک زمانہ دراز ہے سب کچھ سوچ سمجھ کر کرے گی۔ جس کا انجام بھی اچھا ہوگا۔ سو تم ان کو ایسی مصیبت کے وقت کچھ نہ کہو اور جان لو کہ اللہ تمہارے دل کی باتیں بھی جانتا ہے سو اس سے ڈرتے رہو جس قدر اس نے اجازت دی ہے اسی پر اکتفا کرو اور جو کچھ غلطی ہوجاوے اس پر توبہ کرو۔ اور توبہ کرتے ہوئے دل سے جانو کہ اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا بردبار ہے۔ ایسا نہیں کہ تھوڑے سے گناہ پر سخت عذاب نازل کردے اس بردباری کی وجہ سے تمہاری توبہ پر زیادہ توجہ ہوگی اس لئے کہ جو کوئی بالادست حاکم کو باوجود بردبار سمجھنے کے اس سے ڈرتا ہے اس کے آگے گڑگڑاتا ہے اس سے اچھا ہے جو اس کو غضب ناک جان کرنادم ہو اور ڈرے یہ بھی اس کی مہربانی کے آثار ہیں کہ تم کو سمجھاتا ہے کہ اگر بوجہ کسی خرابی ظاہری یا باطنی کے ملاپ کے ذریعہ عورتوں کو چھونے اور مہر باندھنے سے پہلے ہی طلاق دیدو تو تمہیں کوئی گناہ نہیں۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ ان کو بے عزت نہ کرو۔ اور کچھ خرچ ان کو دیا کرو۔ یہ نہیں کہ سو ہزار دینا فرض ہے نہیں بلکہ وسعت والا اپنے مناسب اور تنگی والا اپنے مناسب اچھی طرح گذارہ دستور کے موافق دیوے۔ گو یہ حکم عام طور پر بھی ہے لیکن بھلے لوگوں پر واجب ہے کہ دیویں کیونکہ وہ تو حتی المقدور کسی کی دل شکنی نہیں کیا کرتے پھر ایسے موقع پر کیوں نہ دیں جہاں چند پیسوں سے کسی زخم خودرہ کی دلجوئی ہوسکے اور اگر مہر باندھ کر ژقاف یعنی خاوند بیوی کے ملاپ سے پہلے طلاق دو تو مقررہ مہر سے نصف دینا تم پر واجب ہے ” شان نزول : ایک شخص نے انصار میں سے ایک عورت سے نکاح کیا تھا اور مہر بھی پختہ ٹھیرا تھا کہ ملنے سے پہلے ہی کسی وجہ سے رنجش ہونے پر طلاق دے دی اس پر یہ آیت نازل ہوئی معالم “ مگر جب عورتیں سب ہی معاف کردیں یا خاوند جو نکاح کا مالک ہے اپنا دیا ہوا سارا چھوڑدے اور نصف واپس نہ لے تو کوئی حرج نہیں اور حق تو یہ ہے کہ اگر پہلے دے چکے ہو تو سارا ہی معاف کرنا پرہیز گاری اور احسان کے زیادہ مناسب ہے اگر محسن ہو تو دیا ہوا واپس نہ لو اور باہمی احسان کرنا نہ سمجھ لو اس احسان کا عوض ضرور پاؤگے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں کو دیکھتا ہے۔ ایسا بھی نہ ہو کہ عورتوں کے جھگڑوں میں پھنس کر اللہ کی یاد ہی بھول جاؤ اسی لئے ہم تمہیں خبردار کرتے ہں۔۔ کہ پنجگانہ نمازوں ! کو اپنے اپنے وقت میں جماعت سے ادا کیا کرو خاص کر درمیانی نماز یعنی عصر کی پورے طور سے نگہبانی کرو۔ ”(حافظوا) صحابہ کرام نماز میں ایک دوسرے سے باب چیت کرلیا کرتے تھے ان کو روکنے کے لئے یہ آیت نازل ہوئی معالم “ اور اللہ کے آگے نماز پڑھتے ہوئے عاجزی سے کھڑے ہوا کرو۔ یہ جان کر اللہ تعالیٰ ہم کو اور ہمارے دلی ارادوں کو دیکھتا ہے تم اگر نماز کے وقت کسی دشمن کے حملہ سے ڈرو تو تمہیں اختیار ہے کہ پاپیا وہ پڑھو یا سوار جس طرح تم کو اپنا بچاؤ معلوم ہواسی طرح کرو مقصود صرف توجہ الی اللہ ہے نہ کہ استقبال قبلہ پھر جب تم بے خوف ہوجاؤ تو نماز میں اللہ کو یادر کیا کرو۔ جیسا کہ اس نے اپنے رسول کی معرفت تم کو سکھایا ہے جو تم نہیں جانتے تھے اس لئے کہ رسول کے بھیجنے سے غرض اصلی یہی ہوتی ہے کہ جس امر دینی کو قوم نہ جانتی ہو ان کو بتادے اور ان کی بیہودہ رسوم کو مٹا دے جیسے کہ تمہاری یہ رسم ہے کہ جو شخص مرتے وقت کہہ مرے کہ میری بیوی میرے مرنے کے بعد میرے ہی مکان میں ایک سال تک رہ کر گذارہ کرے تو اس کی بیوی پر ضروری ہوتا ہے کہ ایسا ہی کرے اور اس کے ورثا بھی اس بیچاری کو مجبور کرتے ہیں حالانکہ یہ ایک بے ہودہ رسم ہے جس سے اس بیوہ پر ازحد تکلیف ہوتی ہے اتنی مدت مدیدہ میں وہ کسی سے نکاح نہیں کرسکتی ہے پس اس رسم قبیح کے مٹانے کو ہم حکم دیتے ہیں۔ ” شان نزول عرب میں دستور تھا کہ مرتے ہوئے اگر خاوند اس مضمون کی وصیت کرجاتا تو خاوند کے ورثاء پر اس کی پابندی ضروری ہوتی ان کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی “ کہ جو لوگ مرتے ہوئے بیویاں پیچھے چھوڑ جائیں اور بغیر نکالنے کے سال بھر تک ان بیویوں کو خرچ دینے کی وصیت بھی کرگئے ہوں ! پھر بھی وہ عورتیں اگر بعد چار مہینے دس روز عدت شرعی پوری کرکے ان خاوندوں کے گھروں سے نکل جائیں۔ تو ان کو روکو نہیں اس لئے کہ جو کچھ وہ دستور کے موافق اپنے حق میں زیب وزینت بغرض نکاح کریں گی اس میں تم پر گناہ نہیں اور اگر تم ان کو روکو گے یا وہ خود ناجائز طریقے سے شرع کی مخالفت کریں گے تو اللہ ان کو خود سزا دے سکتا ہے اس لئے کہ اللہ ہر کام پر غالب ہے اور ساتھ ہی اس کے بڑی حکمت والا دنیا میں کسی ایسی بلا میں پھنسا دے گا کہ تمہیں پہلے سے اس کی خبر تو کجا وہم بھی نہ ہو پس اس سے ڈرو ”(وصیت بھی کرگئے ہیں) اس آیت کی تفسیر میں بھی قدرے اختلاف رائے ہوا ہے بعض بلکہ اکثر مفسرین اس کی تفسیر اسے طرز سے کرتے ہیں جس سے انہیں اس آیت کو منسوخ ٹھیرانا پڑتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کے معنے ہیں ” جو لوگ فوت ہوں وہ اپنی بیویوں کے حق میں وصیت کر جائیں کہ سال کامل تک ان کو گذارہ ملے“ اور یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا۔ بعد اس کے چار مہینے دس روز عدت والی آیت (جو اس سے پہلے آچکی ہے) نازل ہوئی تو اس نے اس حکم کو منسوخ کردیا۔ بعض صاحب کہتے ہیں کہ پہلی آیت اور اس آیت کے اپنے اپنے موقع پر معنے ہیں منسوخ ان میں سے کوئی نہیں۔ اگر عورت بعد وفات شوہر خاوند کے گھر میں رہنا پسند نہ کرے تو وہ چار مہینے دس روز عدت گذارے اور اگر اس میں رہنا پسند کرے تو سال بھر رہے۔ تیسری توجیہ اس آیت کے متعلق یہ ہے کہ ” جو لوگ مرتے ہوئے وصیت کر جاتے تھے کہ میری بیوی کو سال تک نہ نکالنا اور اس کا سارا خرچہ دیتے رہنا۔“ ان کی اس رسم کو مٹانا منظور ہے اختلاف اس لئے ہے وَصِیَّۃً سے پہلے ایک فعل محذوف ہے کیونکہ وصیت مفعول مطلق یا مفعول بہ ہے اس کا فعل محذوف ہے سو پہلے لوگ اس کا فعل فَلْیُوْصُوْا نکالتے ہیں جس کے معنے ہیں ” پس وصیت کر جائیں“ اور بعض علماء وَقَدْ اَوْصَوْا نکالتے ہیں جس کے معنے یہ ہیں کہ ” وصیت کر گئے ہوں“ تفسیر کبیر میں امام رازی (رح) نے اس توجیہ کے کرنے پر تین دلیلیں لکھی ہیں جو یہ ہیں :۔ (احدھا) ان النسخ خلاف الاصل فوجب المصیر الی عدمہ بقدر الا مکان (والثانی) ان یکون الناسخ متاخرا عن المنسوخ فی النزول واذا کان متاخرا عنہ فی النزول کان الاحسن ان یکون متاخراً عنہ فی التلاوۃ ایضا لان ھٰذا الترتیب احسن فاما تقدم الناسخ علے المنسوخ فی التلاوۃ فھو وان کان جائزا فی الجملۃ الا انہ یعد من سوء الترتیب وتنزیہ کلام اللّٰہ تعالیٰ عنہ واجب بقدر الا مکان ولما کانت ھٰذہ الاٰیۃ متاخرۃ عن تلک فی التلاوۃ کان الاولیٰ ان لایحکم بکونھا منسوخۃ بتلک (والوجہ الثالث) وھو انہ ثبت فی علم اصول الفقہ انہ متی وقع التعارض بین النسخ وبین التخصیص کان التخصیص اولیٰ وھھنا ان خصصنا ھاتین الاٰیتین بالحالتین علیٰ ماھو مذھب مجاھد اندفع النسخ فکان المصیر الیٰ قول مجاھد اولی من التزام النسخ من غیر دلیل وامآ علیٰ قول ابی مسلم فالکلام اظھر لانکم تقولون تقدیر الاٰیۃ فعلیھم وصیۃ لازواجھم او تقدیرھا فلیوصوا وصیۃ فانتم تضیفون ھذا الحکم الیٰ اللّٰہ تعالیٰ وابومسلم یقول بل تقدیر الاٰیۃ والذین یتوفون منکم ولھم وصیۃ لازواجھم او تقدیرھا وقد اوصوا وصیۃ لازواجھم فھو یضیف ھٰذا الکلام الیٰ الزوج واذا کان لابد من الاضمار فلیس اضمارکم اولیٰ من اضمارہ ثم علیٰ تقدیر ان یکون الا ضمارما ذکرتم بلزم تطرق النسخ الیٰ الاٰیۃ وعند ھٰذا یشھد کل عقل سلیم بان اضمار ابی مسلم اولیٰ من اضمارکم وان التزام ھٰذا النسخ التزام لہ من غیر دلیل مع ما فی القراٰن بھٰذا النسخ من سوء الترتیب الذے یجب تنزیہ کلام اللّٰہ عنہ وھٰذا کلام واضح واذا عرفت ھٰذا فنقول ھٰذہ الاٰیۃ من اولھا الیٰ اٰخرَھا تکون جملۃ واحدۃ شرطیۃ فالشرط ھو قولہ والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا وصیۃ لازواجھم متاعا الیٰ الحول غیر اخراج فھٰذا کلہ شرط والجزاء ھو قولہ فان خرجن فلا جناح علیکم فیما فعلن فی انفسھن من معروف فھٰذا تقریر قول ابی مسلم وھو فے غایۃ الصحّۃ (جلد ثانی ص ٢٩٢) ایک ! تو یہ کہ نسخ اصل کے خلاف ہے (یعنی اصل یہ ہے کہ ہر حکم جناب باری کا بحال رہے) پس حتی المقدور اسی طرف رجوع ہونا چاہیے (دوسری ٢ؔ دلیل) یہ ہے کہ ناسخ منسوخ سے اترنے میں پیچھے ہو۔ جب نزول میں پیچھے ہو تو انسب ہے کہ پڑھنے میں بھی پیچھے ہو اس لئے کہ یہی ترتیب (کہ ناسخ دونوں طرح منسوخ سے پیچھے ہو) بہت عمدہ ہے گو کہ کسی قدر ناسخ کا منسوخ سے پڑھنے میں پہلے ہونا بھی جائز ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ یہ ترتیب (کہ ناسخ پڑھنے میں پہلے ہو) اچھی نہیں سمجھی جاتی اور جہاں تک ہوسکے ایسی بے ترتیبیوں سے کلام اللہ کو پاک سمجھنا چاہیے اور یہ آیت (جس کو منسوخ ٹھیراتے ہیں) اس ناسخہ سے پڑھے جانے میں پیچھے ہے تو بہتر یہ ہے کہ اس کو اس سے منسوخ نہ ٹھیرایا جاوے۔ (تیسری دلیل) کا خلاصہ ١ ؎ بھی یہی ہے کہ جہاں تک ہوسکے دو آیتوں کو جمع کرنا ہی بہتر ہے منسوخ کرنے سے (اس کے بعد امام علام نے محاکمہ کیا ہے کہ) یہ تقریر ابومسلم کی نہایت ہی صحیح ہے“ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علام امام رازی مرحوم بھی اسی کو پسند کرتے ہیں۔ حدیث ہے جو بخاری مسلم نے ام سلمہ کی روایت سے بیان کی ہے کہ ایک عورت نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ میری لڑکی کا شوہر فوت ہوگیا ہے اور قبل عدت اس کی آنکھیں دکھتی ہیں اس کو سرمہ لگا دیں؟ آپ نے فرمایا ہرگز نہیں اب تو عدت صرف چار مہینے دس روز ہے اتنے میں تم کھساھ جاتی ہو اور ایام کفر میں تو کامل ایک سال تک اسی طرح بیٹھا کرتی تھیں اور بعد سال کے حسب دستور مینگنی ڈالا کرتی تھیں۔ اس حدیث شریف میں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (فداہ روحی) نے اس عورت کو سال بھر عدت کا عار دلانے کے لئے ایام کفر یاد دلائے اور یہ نہ فرمایا کہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کا حکم سال بھر بیٹھنے کا تھا۔ اب اس نے اپنی مہربانی سے چار مہینے دس روز کردیئے ہیں تم اب بھی گھبراتی ہو۔ اس سے دلالۃً مفہوم ہوتا ہے کہ سال بھر عدت اسلام میں پہلے نہیں تھی جس کو منسوخ کہا جائے اگر کوئی صاحب کہیں کہ ان ایام کفر کے یاد دلانے سے ان کی مینگنی کی رسم کی مذمت کا بیان کرنا منظور تھا سو قلت مدبر ہے سیاق حدیث سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مدت سابقہ کی درازی کا جتلانا منظور ہے۔ نہ کہ مینگنی کا جھگڑا جسے طول یا قصر مدت سے کوئی بھی علاقہ نہ ہو۔ بہر حال یہ وجوہ ہیں جن کی وجہ سے میں نے اس آیت کو منسوخ نہیں ٹھیرایا۔ واللّٰہ اعلم وعلمہ اتم “ ( ای متمضمن للشرط۔ اس دلیل کی تقریر چونکہ اصولی طرز پر ہے جو عوام سمجھ نہیں سکتے اور خواص عربی ہی میں سمجھ سکتے ہیں اس لئے اسکا ترجمہ نہیں کیا۔ ) “ اور طلاق والیوں کا موافق دستور جو گذارہ ہے وہ ان کو دیا کرو بالخصوص پر ہیز گاروں یعنی نیک وکاروں پر ضروری ہے اس لئے کہ وہ عدت کے دنوں میں تمہارے ہی فراق میں ہیں تمہارے ہی زخم رسیدہ ہیں پھر کیا انصاف ہے کہ ان کی خبر نہ لو اسی طرح تمہارے لئے اللہ اپنے احکام بیان کرتا ہے تاکہ تم سمجھو اگر مال کی کمی سے ڈرتے ہو تو کیا تم نہیں جانتے کہ اگر اللہ چاہے تو بغیر خرچ کرنے کے بھی اس کو ضائع کردے۔ یہ تو مال ہی ہے اللہ تو ایسا زبردست مالک ہے کہ تمہاری جانیں بھی اس کے قبضہ میں ہیں اگر چاہے تو ایک ہی آن میں تم سب کو فنا کردے