وَبِالْحَقِّ أَنزَلْنَاهُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ ۗ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا مُبَشِّرًا وَنَذِيرًا
اور ہم نے اس قرآن کو حق (٦٨) کے ساتھ نازل کیا ہے اور وہ برحق نازل ہوا ہے، اور ہم نے آپ کو صرف اس لیے بھیجا ہے تاکہ آپ لوگوں کو جنت کی خوشخبری دیں اور جہنم سے ڈرائیں۔
(105۔111) تمام نبیوں کی تعلیم کا خلاصہ یہی ہے کہ اللہ کو واحد لا شریک سمجھو اور روز جزا کو مانو چنانچہ قرآن بھی اسی تعلیم کو ان عرب کے لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے جو اس سے انکار کرتے ہیں حالانکہ ہم نے اس (قرآن) کو سچی تعلیم کے ساتھ نازل کیا ہے اور وہ سچ ہی کے ساتھ اترا ہے اور تجھ کو بھی (اے رسول) ہم نے بس خوشخبری دینے والا اور برائیوں پر عذاب الٰہی سے ڈرانے والا رسول بنا کر بھیجا ہے اور یہ جو کہتے ہیں کہ قرآن ایک ہی دفعہ کیوں نہیں نازل ہوا سنو ! قرآن کو ہم (اللہ) نے اس لیے تھوڑا تھوڑا متفرق متفرق کر کے نازل کیا ہے کہ حسب موقع تو لوگوں کو ٹھیر ٹھیر کر سنا دے اور وہ اس کو سنیں اور سمجھیں اور اس میں تو شک نہیں کہ ہم (اللہ) ہی نے اس کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ اور مبلغ ہیں پس تو کہدے کہ تمہارا پروردگار فرماتا ہے کہ تم اس پر ایمان لائو یا نہ لائو اس کی رفعت شان میں کوئی اضافہ یا نقص نہیں ہوسکتا اگر کچھ ہے تو تمہارے ہی حق میں ہے اسی لئے تو جن لوگوں کو اس سے پہلے آسمانی کتابوں کا علم ہے جب جب یہ قرآن ان پر پڑھا جاتا ہے تو ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر پڑتے ہیں یعنی گردنیں جھکا کر فرمانبرداری اور اطاعت کا اقرار کرلیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا پروردگار شرک اور شرک کے وہم سے بھی پاک ہے کچھ شک نہیں کہ ہمارے پروردگار کا وعدہ جو وہ قرآن میں بتلاتا ہے کہ نیک کاموں پر جنت اور برے کاموں پر جہنم ہے ہو کر ہی رہے گا اور روتے ہوئے ٹھوریوں پر گرتے ہیں اور قرآن پڑھنے اور سننے سے ان کو خوف الٰہی زیادہ ہوتا ہے یہ تو ہیں ایمانداروں کی باتیں اب ان کے مقابلہ پر ذرہ ان عرب کے مشرکوں کی جہالت کا اندازہ بھی لگائیے کہ جب کبھی کسی مسلمان کو سنتے ہیں کہ یا اللہ یا رحمن یا رحیم وغیرہ اسماء الہیہ سے اللہ کو یاد کرتا ہے تو جھٹ سے بول اٹھتے ہیں کہ دیکھو جی ہم کو تو کہتے ہیں اکیلے اللہ کو پکارو اور آپ دو تین کو پکارتے ہیں تو ایسے نادانوں سے کہہ کہ یہ تعدد تو صرف اسماء میں ہے مسمی میں نہیں یہ تمہاری نادانی ہے کہ کثرت اسماء سے کثرت مسمٰی سمجھتے ہو حالانکہ یہ صحیح نہیں پس تم خواہ اللہ کو پکارو یا رحمٰن کو دونوں برابر ہیں اس کے کسی نام سے اس کو پکارو سب طرح جائز ہے کیونکہ تمام دنیا میں جتنے نیک اوصاف کے نام ہیں سب کے سب کسی ذات و صفات کے لئے ہیں اور اسی پر صادق ہیں خواہ کسی ملک کے محاورے میں ہوں یا کسی زبان میں کیونکہ اللہ نے ہر ایک ملک میں جو رسول بھیجے تھے آخر اسی ملک کی زبان اور محاورے میں ان سے گفتگو کرتے تھے۔ مگر ہاں دعا کرنے اور پکارنے کے آداب میں اس بات کا خیال رکھا کر کہ دعا نہ تو چلا کر کیا کر نہ بہت ہی آہستہ ایسی کہ اپنے کان بھی نہ سنیں بلکہ بحکم خیر الامور اوسطہا درمیانہ حال اچھا ہوتا ہے) اس کے درمیان درمیان روش اختیار کیا کر اور دعا کرنے سے پہلے اللہ کی حمدو ثنا کرنے کو کہہ کہ سب تعریفیں اللہ پاک کو ہیں جس نے اپنے لئے نہ اولاد بنائی اور نہ ملک میں کوئی اس کا شریک ہے اور نہ تکلیف اور مصیبت کی وجہ سے اس کا کوئی دوست ہے کیونکہ اس کو مصیبت نہیں آتی بلکہ وہ سب کی مصیبتیں دور کرنے والا سب کا دوست متولی اور حاجت روا ہے پس تو اسی کا ہو رہ اور اسی کے نام کی بڑائی کیا کر۔