سورة النحل - آیت 66

وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً ۖ نُّسْقِيكُم مِّمَّا فِي بُطُونِهِ مِن بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَائِغًا لِّلشَّارِبِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور بیشک تمہارے لیے چوپایوں (٤٠) میں بھی عبرت ہے، اس کے پیٹ میں جو گوبر اور خون ہے ان کے درمیان سے خالص دودھ نکال کر ہم تمہیں پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لیے بڑا ذائقہ درا ہوتا ہے۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(66۔77) دیکھو چارپائوں میں تمہارے لئے کیسی نصیحت ہے کہ ہم ان کے پیٹ کی چیزوں سے گوبر اور خون کے درمیان سے تم کو خالص دودھ پلاتے ہیں جس کو پینے والے نہایت آسانی سے پی جاتے ہیں کسی طرح کی تکلیف یا بدمزگی نہیں ہوتی اور کھجوروں اور انگوروں سے تم شراب بناتے ہو گو اس کے بنانے پر اللہ راضی نہیں۔ خصوصاً اس کے پینے کی تو تم کو کسی حال میں بھی اجازت نہیں تاہم اس میں تو شک نہیں کہ یہ بھی اسی کی دی ہوئی نعمت ہے جس کو تم لوگ بگاڑ کر اس کی مرضی کے خلاف برتتے ہو اور اس کے علاوہ عمدہ قسم کی غذا بنا کر بھی اسے کھاتے ہو جو لوگ عقل رکھتے ہیں نہ صرف رکھتے ہیں بلکہ عقل سے کام لیتے ہیں ان کے لئے اس میں ایک بہت بڑی ہدایت کی دلیل ہے قدرت کا ایک نظام اور سنو ! تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کو الہام کیا ہوا ہے یعنی اس کی فطرت میں ڈال رکھا ہے کہ پہاڑوں اور درختوں اور لوگوں کے مکانوں کی چھتوں پر رہنے کو گھر بنا لیا کر۔ پھر تجھے اجازت ہے کہ ہر قسم کے پھلوں سے اپنا حصہ کھایا کر اور اپنے پروردگار کے راستوں پر جو تیرے لئے ایسے آسان کئے گئے ہیں کہ نہ کوئی پہاڑ تجھے روک سکتا ہے نہ سمندر پس ان راستوں پر بلا مزاحم چلا کر چنانچہ وہ اس پر عمل کرتی ہے تو اس کے پیٹ سے پینے کے قابل شہد نکلتا ہے جس کے رنگ مختلف ہیں کوئی نہایت سرخ کوئی نہایت سفید اس میں لوگوں کی کئی ایک بیماریوں کے لئے شفا ہے کچھ شک نہیں کہ فکر کرنے والے لوگوں کے لئے اس مذکور میں بہت بڑی ہدایت کی دلیل ہے اور سننا چاہو تو سنو ! کہ اللہ ہی نے تم کو پیدا کیا ہے پھر وہی تم کو فوت کرتا ہے بعض تم میں سے نکمی عمر یعنی انتہا بڑھاپے تک پہنچ جاتے ہیں ایسے کہ جاننے کے بعد کچھ نہیں جانتے ایک زمانہ ان پر وہ ہوتا ہے کہ قسم قسم کے علوم اور باریک سے باریک مسائل ان کو نوک زبان ہوتے ہیں پھر ایک وقت وہ ہوتا ہے کہ ادھر سے سنی ادھر بھولے حالانکہ وہی ان کا دماغ وہی ان کی روح بلکہ اس سے بھی عمدہ ان کی غذا ہو تو بھی یہ حالت ہوجاتی ہے تو بتلائو کیوں ہوتی ہے اسی لئے کہ وہ مخلوق ہے جس کو دائم بقا نہیں صرف اللہ تعالیٰ ہی دائم علم والا بڑا صاحب قدرت ہے اور سنو ! اللہ ہی نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں برتری دی ہے ایک آقا ہے تو دوسرا نوکر ہے ایک مالک ہے تو دوسرا غلام ہے پھر جن کو برتری ملی ہے وہ اپنے غلاموں کو اپنا مال دے کر اختیار میں ان سے برابر نہیں ہوجاتے جب مخلوق کا یہ حال ہے کہ ماتحت کو اپنے مساوی دیکھنا اس کی غیرت تقاضا نہیں کرتی تو کیا پھر اللہ کے بندوں کو اس کے مساوی اختیار جان کر اس کی نعمت کی جو اس نے مخلوق کے کل اختاغرات اپنے ہاتھ میں رکھے تھے اور کسی مخلوق کے سپرد نہیں کئے ہیں کہ بات بات پر بگڑ کر ان کو تنگ کرتا بے قدری کرتے ہیں بجائے شکر کے ناشکر ہوتے ہیں کہ اس کے بندوں سے وہ حاجات مانگتے ہیں جو اس سے مانگنی چاہئے تھیں اور سنو ! اللہ ہی نے تم کو پیدا کیا اور تمہاری جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کیں اور تمہاری بیویوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے اور تم کو پاکیزہ اور لذیذ طعاموں سے رزق دیا پھر جو لوگ ایسے مالک الملک سب کچھ دینے والے کو چھوڑ کر اس کے عاجز بندوں کی طرف جھکتے ہیں تو کیا بے ثبوت بات کو مانتے ہیں اور اللہ کی نعمت سے انکار کرتے ہیں ان کی جہالت صرف یہی تو نہیں اور سنو ! اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جن کو ان کے لئے اوپر سے بذریعہ بارش اور زمین سے بذریعہ پیدائش رزق دینے کی کچھ ہی قدرت نہیں اور نہ ہی قدرت پا سکتے ہیں یعنی ممکن نہیں اور دائرہ امکان سے خارج ہے کہ مخلوق کو خالق کے سے اختیارات حاصل ہوجائیں پس تم اللہ کے حق میں تمثیلات نہ گھڑا کرو کہ جس طرح دنیا کے بادشاہوں نے اپنا کاروبار اپنے ماتحتوں میں بانٹا ہوتا ہے اسی طرح اللہ نے بھی اپنے بندوں کو تھوڑا تھوڑا سا اختیار دنیا کے انتظام کا دے رکھا ہے حقتاً ائ یہ خیال کرنا اللہ کی عدم معرفت پر مبنی ہے اللہ کی ذات اور صفات کے متعلق جو کچھ تمہیں بتلایا جاوے وہی خیال رکھو کیونکہ اللہ تعالیٰ کو تو سب کچھ معلوم ہے اور تمہیں کچھ بھی معلوم نہیں پھر اس جہالت سے اللہ کی جہالت اللہ کی ذات اور صفات کے متعلق کچھ غلط خیال جما بیٹو گے تو اس کا وبال اٹھائو گے۔ اگر ٹھیک اور سچی مثال سننا چاہو تو سنو ! اللہ خود تمہارے سمجھانے کو ایک غلام مملوک کی مثال بتلاتا ہے جس کو کسی امر پر قدرت نہیں اور ایک ایسا ہے جس کو ہم (اللہ) نے محض اپنے فضل سے عمدہ بافراغت روزی دے رکھی ہے پس وہ اس میں سے پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتا ہے کیا یہ دونوں قسم (غلام اور باختیارمالک) حیثیت میں برابر ہیں؟ کبھی نہیں پس یقینا جانو کہ سب تعریفیں اللہ ہی سے مخصوص ہیں اس کے سوا اس کی مخلوق میں سے کسی کو نیک و بد کا اختیار نہیں ہے اصل بات یہ ہے لیکن بہت سے لوگ جہالت کرتے ہیں سمجھتے نہیں بلکہ سمجھانے والوں سے بگڑ بیٹھتے ہیں اور سنو ! جس طرح یہ مثال اللہ کی کمال قدرت اور بندوں کی کمال عجز کی تم نے سنی ہے اسی طرح اللہ تمہارے سمجھانے کو اور نیک و بد کی تمیز بتانے کو دو آدمیوں کی تمثل سناتا ہے ایک تو ان میں سے گونگا ہے کسی بات کے انجام دینے کی اسے قدرت نہیں اور وہ ایسا نالایق ہے کہ اپنے مالک کے حق میں بار خاطر ہو رہا ہے جہاں کہیں بھی اسے بھیجتا ہے خیر اور فائدے سے واپس نہیں آتا تو کیا یہ نالائق اور جو شخص لوگوں کو عدل و انصاف کی راہ بتلاتا ہے اور خود بھی سیدھی راہ پر ہے یعنی اپنے کہے پر کاربند ہے یہ دونوں عزت اور شرف میں برابر ہیں؟ پس یہ مثال اللہ کے نیک بندوں موحدوں کی اور بدکار مشرکوں فاسق فجار کی ہے لیکن جس طرح ان دونوں کی قدر و منزلت مالک کے نزدیک یکساں نہیں اسی طرح اللہ کے نزدیک نیک اور بد بندوں کی ایک سی عزت نہیں مگر دنیا کے لوگ تو صرف ظاہر بین ہوتے ہیں جس کی ظاہری سج سجاوٹ دیکھتے ہیں اسی کی تعریف کرنے لگ جاتے ہیں اور اللہ تو پوشیدہ اسرار اور دلی اخلاص پر مطلع ہے کیونکہ آسمانوں اور زمینوں کی چھپی ہوئی باتیں سب اللہ ہی کے قبضے میں ہیں وہی ان کو جانتا ہے جس قدر مخلوق کو وہ بتلاتا ہے اسی قدر وہ جان سکتے ہیں اور اس کی قدرت کی کوئی انتہا نہیں قیامت یعنی حشر اجساد جس کا تصور کرنے ہی سے یہ لوگ گھبراتے اور سٹپٹاتے ہیں اس کی حقیقت اس سے زیادہ نہیں کہ وہ صرف ایک آنکھ کی جھمک جیس ہے بلکہ اس سے بھی کم تر کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کام پر قدرت رکھتا ہے جو کام کرنا چاہے کوئی امر اسے مانع نہیں ہوسکتا