وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ ۗ وَإِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ ۖ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ
اور ہم نے آسمانوں (٣٣) اور زمین کو اور ان کے درمیان کی ساری چیزوں کو بے کار نہیں پیدا کیا ہے اور قیامت یقینا آنے والی ہے، پس آپ لوگوں سے خوش اسلوبی کے ساتھ درگزر کر جایئے۔
(85۔99) اور یہ نہیں جانتے تھے کہ ہم نے آسمانوں اور زمین کو حق اور نیک و بد کا بدلہ دینے کے سچے نتیجے سے پیدا کیا اور کچھ شک نہیں کہ قیامت کی گھڑی آنے والی ہے پس تو ان کی شرارتوں کی پرواہ نہ کر بلکہ عمدگی اور وضعداری سے طرح دے دیا کر کیونکہ تیرا پروردگار بڑا پیدا کرنے والا بہت بڑے وسیع علم والا ہے وہ اپنی کامل قدرت سے تیری ایسی امداد کرے گا کہ لوگ دیکھیں گے یہ ہمارا فضل کیا تجھ پر تھوڑا ہے کہ ہم نے تجھے سات آیتیں مثانی کی جو بار بار پڑھنے کے قابل ہیں یعنی قرآن کا حصہ عظیم رتبہ والا دیا ہے جس کا نام سورت فاتحہ ہے جس میں تمام قرآن کے مضامین کا بالاجمال بیان ہے اس لئے اس کا نام قرآن عظیم ہے پس اس کا اثر اور نتیجہ تجھ پر یہ ہونا چاہئے کہ جس قدر ہم نے دنیا کے لوگوں میں سے مختلف قسموں کو آسودگی اور عیش و عشرت کے سامان سے بہرہ مند کیا ہوا ہے تو ان کی طرف کبھی نظر نہ کیجئیو اور حسرت سے مت دیکھیو کہ ہائے مجھے بھی یہ ملا ہوتا بلکہ یہ سمجھ رکھ کہ رضینا قسمۃ الجبار فینا لنا علم وللجہال مال اور ان کفار بدکردار کے حال پر تاسف نہ کیا کر کہ ہائے یہ ایمان کیوں نہیں لاتے اس لئے کہ تیرے تاسف سے سے ان کو فائدہ نہ ہوگا پھر ناحق تیرے مغموم ہونے سے کیا فائدہ اور مسلمانوں کے ساتھ گو کسی طبقہ اور قوم کے ہوں خاطر سے ملا کر کیونکہ ہمارے ہاں دل مقبول ہے لباس ظاہری منظور نہیں اور تو کفار کو مخاطب کر کے کہہ دے کہ میں تو صرف واضح کر کے برے کاموں پر تم کو ڈرانے والا ہوں بھلا تیری نبوت اور کتاب کے ملنے سے ان کو تعجب اور انکار کیوں ہے۔ تجھے کتاب کا ملنا بالکل اسی طرح ہے جیسے ان یہودیوں اور عیسائیوں پر جنہوں نے اللہ کی کتاب کو اپنے خیال کے مطابق بانٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کردیا جو مضمون اپنی ہوائوں کے مطابق پایا اس پر تو عمل کیا اور جو خلاف سمجھا اسے پس پشت پھینک دیا بلکہ اس کے سنانے والوں سے بگڑ بیٹھے ہیں ہم نے کتابیں اتاری ہیں ٹھیک اسی طرح تجھے بھی اس وقت کے لوگوں کی ہدایت کے لئے کتاب دی ہے جو حسب مقتضائے زمانہ عین وقت پر پہنچی ہے پس تیرے پروردگار یعنی ہمیں اپنی ذات کی قسم ضرور ان کے اعمال سے ہم ان کو سوال کریں گے پس جس کام کا تجھے حکم ہوتا ہے تو اسی کی دھن میں لگا رہ اور مشرکوں سے منہ پھیر ان کی مخالفت کی کچھ بھی پرواہ نہ کر ٹھٹھے بازوں مخولیوں کو جو محض حماقت سے اللہ کے ساتھ اور معبود بناتے ہیں ہم تیری طرف سے کافی ہیں پس وہ جان لیں گے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور یہ تو ہمیں معلوم ہے کہ بتقاضائے بشریت ان کی واہیات باتوں سے جو طعنے معنے کے طور پر تجھے کہتے ہیں تو دل میں تنگ ہوتا ہے مگر اس کا علاج یہ تو نہیں کہ تو آزردہ خاطر ہو بلکہ اس کی طرف توجہ کر جس کے قبضے میں سب کچھ ہے پس تو اپنے پروردگار کی حمد و ثنا اور پاکی بیان کیا کر اور اس کے آگے سجدہ کیا کر اور مرنے تک اپنے پروردگار کی عبادت میں لگا رہ۔ غرض اپنا اصول ہی مقرر کر رکھ کہ دست از طلب ندارم تا کام من برآید یا تن رسد بجاناں یا جاں نہ تن برآید