وَأُدْخِلَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ ۖ تَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَامٌ
اور جو لوگ (دنیا میں) ایمان لائے ہوں گے اور عمل صالح کیا ہوگا وہ ایسی جنتوں (١٨) میں داخل کیے جائیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، جہاں وہ اپنے رب کے حکم سے ہمیشہ رہیں گے، ان کا وہاں آپس کا سلام و تحیہ سلام علیکم ہوگا۔
(23۔34) اور دیکھو کہ جو لوگ اللہ پر کامل ایمان لائے تھے اور نیک عمل بھی انہوں نے کئے تھے وہ بہشتوں میں داخل کئے گئے اور تم تاکتے کے تاکتے رہ گئے حالانکہ تمہیں مال و دولت کا بہت کچھ گھمنڈ تھا دیکھو وہ کیسے مزے میں ہیں ان بہشتوں کے درختوں کے تلے نہریں جاری ہیں وہ اپنے پروردگار کے حکم سے ان میں ہمیشہ رہیں گے اور اللہ ان سے ہمیشہ راضی رہے گا بلکہ ان باغوں میں اللہ کی طرف سے ان کا تحفہ سلام علیکم ہوگا یہ سب نتیجے اسی عمدہ بیج کے پھل ہیں جو دنیا میں انہوں نے بویا تھا یعنی کلمات صالحات کیا تو نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ نے کلمہ صالحہ کی مثال اس پاکیزہ درخت سے دی ہے جس کی جڑ مضبوط ہے اور چوٹی نہایت بلندی پر پہنچی ہوئی ہے وہ ہمیشہ ہر وقت اپنے پروردگار کے حکم سے پھل لاتا ہے اللہ لوگوں کے لئے تمثیلات بتلاتا ہے تاکہ وہ سمجھیں یعنی بالفرض ایسا درخت ہر وقت تا ابد پھل لاتا ہو اور مضبوطی میں ایسا ہو کہ دوسری کوئی چیز اس کا مقابلہ نہ کرسکتی ہو اسی طرح کلمات طیبات سبحان والحمدللہ لا الہ الا اللہ وغیرہ کا پھل ہے جو ہر وقت ان کو حاصل ہوتا ہے خواہ بیمار ہوں خواہ تندرست اور ناپاک کلمات کفریہ شرکیہ گالی گلوچ واہی تباہی وغیرہ بدخصائل کی تمثیل کچلے جیسے گندے اور بدمزہ درخت کی سی ہے جو ایسا کمزور ہے کہ زمین کے اوپر سے گویا اکھڑا ہوا ہے جس کو کچھ بھی قیام نہیں چونکہ ان دونوں قسم کے درختوں کی اصل اور بنیاد میں تفاوت ہے اس لئے ان کے آثار بھی مختلف ہیں اسی مضبوط قول یعنی کلمات طیبات اور نیک خصائل کے سبب سے اللہ تعالیٰ ایمانداروں کو دنیا و آخرت میں ثابت قدم رکھتا ہے اور مصیبت کے وقت ان کا دل مضبوط رہتا ہے اور ظالموں اور بدکاروں بدزبانوں بے ہودہ گوئی سے تضیع اوقات کرنے والوں کو اصل مطلب سے بھلا دیتا ہے ان کو کچھ نہیں سوجھتی کہ ہم کیا کر رہے ہیں آخر بے ہودہ گوئی اور خیالات واہیہ کا نتیجہ انہی کے حق میں برا ہوگا ایسے لوگوں کو گمراہ کرنے میں اس اللہ پر کسی طرح سے بے انصافی کا الزام نہیں آسکتا کیونکہ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اس کا چاہنا اس کے قانون کا نام ہے پس جو لوگ اس کے راضی کرنے میں سعی کرتے ہیں اور اسی فکر میں رہتے ہیں ان کو مزید ہدایت دیتا ہے اور جو اس سے الگ ہو کر متکبرانہ زندگی گذارنا چاہتے ہیں ان کو توفیق خیر نہیں ملتی غرض اس کے ہاں جو قانون ہیں ان کے اجرا میں اسے کوئی امر مانع اور مزاحم نہیں ہوسکتا چاہے کوئی ہو سزا پاتا ہے کیا تو نے ان لوگوں کو دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمت محمد رسول اللہ کی تعیمم اور صحبت کی ناشکری اختیار کی ان کی کیسی گت ہوئی کہ ان کا نام لیوا بھی دنیا میں نہیں رہا اور انہوں نے اپنی قوم کو تباہی کی جگہ یعنی جہنم میں لے جا اتارا وہ سب اس میں ایک ساتھ داخل ہوں گے اور بہت ہی تکلیف اٹھائیں گے کیونکہ وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے اس لئے کہ وہ رسول ان کو توحید خالص سکھاتا تھا اور انہوں نے اللہ کے شریک اور ساجھی ٹھہرائے تاکہ خود گمراہ ہوں اور لوگوں کو بھی اس اللہ کی راہ سے گمراہ کریں تو ایسے نالائقوں سے کہہ کہ چند روزہ آرام کرلو اور مزے اڑا لو پھر آخر تو تمہارا کوچ دوزخ کی طرف ہے چونکہ اللہ کے حضور کسی کا گھمنڈ نہیں چل سکتا بلکہ ہر ایک کو کئے کی مزدوری ملے گی اس لئے اے نبی تو میرے بندوں سے جو مجھ پر کامل ایمان لائے ہیں کہہ دے کہ نماز پڑھتے رہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کسی قدر پوشیدہ اور ظاہر مگر اخلاص نیت سے فی سبیل اللہ خرچ کرتے رہیں آج کل کرتے ہوئے وقت نہ کھوئیں کیونکہ موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں پس اس دن کے آنے سے پہلے خرچ کرلیں جس میں نہ خرید و فروخت ہوگی نہ کسی کی دوستی کام آوے گی۔ یعنی جن جن ذرائع سے دنیا میں فائدے پہنچ سکتے ہیں وہاں کوئی ذریعہ نہ ہوگا مگر جن لوگوں نے اللہ سے نیاز عبودیت نباہا ہوگا وہی کامیاب ہوں گے کیونکہ اللہ ہی وہ ذات پاک ہے جس نے آسمان و زمین پیدا کئے ہیں اور وہی ہمیشہ بادلوں سے بارش اتارتا ہے پھر اس کے ساتھ تمہاری رزق رسانی کو پھل پیدا کرتا ہے اور اسی نے بڑے بڑے بیڑے جہاز اور اگنبوٹ تمہارے کام میں لگا رکھے ہیں کہ سمندر میں اس کے حکم سے چلتے ہیں اور دریا بھی تمہارے ہی کام میں لگا رکھے ہیں اور سورج اور چاند کو بھی تمہارے تابع کر رکھا ہے کہ دونوں گھومتے ہوئے اپنا اپنا چکر کاٹتے ہیں اور رات اور دن بھی تمہارے ہی کام میں لگائے ہوئے ہیں ان کی پیدائش میں تمہارا ہی فائدہ متصور ہے کئی ایک کام تم رات کو کرتے ہو اور کئی ایک دن کو انجام دیتے ہو اور جس جس چیز کے تم محتاج ہو اس نے تم کو دی ہے غرضکہ ابرو بادو مہ و خورشید فلک درکار اند تاتو نانے بکف آری و بغفلت نخوری ایں ہمہ بہر تو سرگشتہ و فرمانبردار شرط انصاف نبا شد کہ تو فرماں نبری اور ابھی تو کیا اگر اللہ کی نعمتیں شمار کرنے لگو تو کبھی شمار میں نہ لا سکو گے بایں ہمہ جو شخص ایسے مالک الملک سے نیاز عبودیت نہیں نباہتاکچھ شک نہیں کہ ایسا انسان بڑا ہی ظالم ناشکر گذار ہے