أَفَمَن يَعْلَمُ أَنَّمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ أَعْمَىٰ ۚ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ
کیا جو شخص جانتا ہے کہ آپ پر آپ کے رب کی جانب سے جو (قرآن) نازل ہوا ہے وہ حق ہے (١٩) اس شخص کے مانند ہوگا جو اندھا ہے بیشک عقل والے ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔
(19۔35) تو کیا پھر جو لوگ تیری طرف نازل شدہ کلام یعنی قرآن کو حق جانتے ہیں وہ ان اندھوں کی طرح ہیں جنہوں نے اپنی عمر کو یونہی رائگاں ضائع کیا اور دانستہ آنکھوں پر پٹی باندھ کر اندھوں میں جا ملے پس اس پاکیزہ کلام (قرآن) سے عقلمند لوگ ہی نصیحت پاتے ہیں یوں تو ہر کوئی عقلمندی کا دعویدار ہے شیخ سعدی (رح) نے کیا ہی اچھا کہا ہے گر از بساط زمین عقل منعدم گردد بخود گمان نبرد ہیچ کس کہ نادانم مگر محض کسی کے دعویٰ کرنے سے کوئی دانا ہوسکتا ہے؟ نہیں بلکہ دانا کی تعریف جامع مانع صرف دو حرفہ ہے کہ عچراکارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی۔ یعنی آئندہ کی صلاحیت اور ہر کام میں انجام بخیر ہونے کا جن کو خیال ہے وہ عقل مند پس اس کے مطابق دانا وہ لوگ ہیں جو اللہ کے وعدوں کو پورا کرتے ہیں یعنی جو قول و اقرار عبودیت بزبان قال یا بزبان حال اللہ سے انہوں نے کئے ہوئے ہیں ان کا ایفا کرتے ہیں کیونکہ اسی میں انجام بخیر ہے کہ ماتحت اپنے افسر سے اور خادم اپنے آقا سے بگاڑ نہ کرے ورنہ بقول ہر کہ با فولاد بازو پنجہ کرد ساعد سیمین خودرا رنجہ کرد اس کا نتیجہ ان کے حق میں اچھا نہ ہوگا۔ پس یہی ایک اصول کلیہ سب امور کو جامع ہے مگر تفصیل سے بھی سنو کہ وہ اللہ سے عہد نباہتے ہیں اور مخلوق سے بھی عہد شکنی نہیں کرتے اور اللہ نے جن تعلقات کو جوڑنے کا حکم دیا اس کو ملاتے ہیں یعنی بنی آدم کے باہمی حقوق اور ایک دوسرے سے قدرتی اور تمدنی تعلقات جو قدرت نے بنا رکھے ہیں جیسا شیخ سعدی مرحوم نے کہا ہے۔ بنی آدم اعضاء یک دیگر اند کہ در آفرینش زیک جوہر اند یہ تو ایک عام تعلقات ہیں اس سے بعد خاص مذہبی اور قومی اور جیرانی (ہمسائیگی) رشتہ وغیرہ کے تعلقات اور ہیں غرض وہ سب کو باحسن وجوہ جیسی شرع میں ان کی بابت ہدایت آئی ہوئی ہے نباہتے ہیں گو ان کے حاسد ان سے رنجیدہ اور کبیدہ خاطر ہوں مگر وہ اپنی طرز معاشرت میں ” مرنج و مرنجاں“ کے اصول کو ہمیشہ ملحوظ رکھتے ہیں اور دانائوں کی نشانی یہ بھی ہے کہ باوجودیکہ وہ احکام الٰہی کے دل سے مطیع ہوتے ہیں تاہم اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں کہ مبادا کسی طرح ہم سے ناراض نہ ہوجائے اور وہ اپنے آخری حساب کی خرابی سے ہمیشہ خائف رہتے ہیں ان کو ہمیشہ یہی فکر دامنگیر رہتی ہے کہ ” ہم جو دنیا میں اپنے آقا کے فرستادہ ہو کر آئے ہیں اور اس نے ہم کو سب ضروری سامان جسمانی و روحانی صحت و عافیت کے بخشے ہیں مبادا کہیں وقت حساب ہم خسارہ میں نہ رہیں چنانچہ اسی فکر میں اگر ان سے کوئی قصور بھی ہوجاتا ہے تو فوراً اس کی تلافی کرنے کو توبہ کرتے ہیں اور اللہ کے حضور گڑ گڑاتے ہیں اور دانا وہ لوگ ہیں جو تکلیف پر بے چینی اور گھبراہٹ کرنے کی بجائے اپنے پروردگار کی رضا جوئی کے لئے صبر کرتے ہیں اور اپنی تمام زندگی میں عموماً اور تکلیف کے وقت خصوصاً نماز پڑھتے ہیں اللہ کے آگے دعائیں مانگتے ہیں ناک رگڑتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کسی قدر پوشیدہ اور ظاہر مگر اخلاص سے اللہ کی راہ میں خرچتے رہتے ہیں ان سب تعلقات کی تفصیل اور تعلیم قرآنی ” تقابل ثلاثہ“ میں دیکھو۔ اور بڑی بات یہ ہے کہ حسب موقع مخلوق کی برائی کے بجائے ان سے نیکی کرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ بدی رابدی سہل باشد جزا اگر مردی احسن الی من اسا مگر نہ ہر جگہ اور ہر ایک شریف و شریر سے برابر نہیں کیونکہ بعض دفعہ نکوئی بابداں کردن چنانست کہ بد کردن بجائے نیک مرداں یعنی جہاں ایسے آدمیوں سے برائی پہنچے کہ ان سے اس کے مقابلہ پر نیکی کی جائے تو وہ اپنی شرافت کی وجہ سے خود ہی نادم ہو کر آئندہ کو باز آجائیں تو ایسے لوگوں سے اس اصول کو برتنا چاہئے اور جن شریروں کی شرارت اور کمینہ پن یہاں تک بڑھ رہا ہو کہ وہ مخالف کی نیکی پا کر الٹے اور شرارت پر کمر بستہ ہوں دوسرے طریق کو عمل میں لانا مناسب ہے مطلب قیام امن سے ہے جو آدمی جس قابل ہو اس سے ویسا ہی طریق برتا جائے مختصر یہ کہ دانا وہ لوگ ہیں جو دنیا میں اپنے خالق سے اور اس کی مخلوق سے کماحقہ نباہ کرتے ہیں ایسے ہی لوگوں کے لئے انجام بخیر ہے یعنی ہمیشہ کے باغ میں جن میں وہ داخل ہوں گے اور جو ان کے بزرگوں باپ دادا وغیرہ اور بیوی بچوں میں سے صالح اور نیک ہوں گے وہ بھی ان کے ساتھ ہی وہاں موجود ہوں گے اور فرشتے ان پر ہر دروازہ سے داخل ہوا کریں گے اور کہیں گے کہ آج سے ہمیشہ تک تم پر سلامتی ہے کیونکہ دنیا میں تم نے ہر ایک تکلیف پر صبر کیا پس تمہارا انجام بخیر ہو اور ان لوگوں کے مقابل یعنی جو لوگ اللہ کے ساتھ مضبوط عہد کئے پیچھے بھی وعدہ خلافی کرتے ہیں یعنی عام طور پر بزبان حال اور خاص مصیبت کے وقت بزبان قال عبودیت کے عہد و پیمان اللہ سے کرتے ہیں مگر پھر نباہتے نہیں بلکہ جب مطلب پورا ہوا فرار ہوئے اور جن تعلقات کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے ان کو توڑتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد کرتے ہیں بے وجہ لوگوں کو ستاتے ہیں ایسے ہی لوگوں پر لعنت ہے اور انہی کا انجام بد ہے یہ بدکار عہد شکن اس گھمنڈ میں ہوں گے کہ ہم مالدار ہیں جو چاہیں سو کریں ہمارے سب کام اللہ کو منظور اور پسند ہیں اسی لئے ہمیں فراخی اور آسائش دے رکھی ہے حاشا و کلا ہرگز یہ بات نہیں بلکہ اللہ جس کے حق میں چاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے۔ یہ اس کی حکمتیں ہیں جن کو وہی جانتا ہے یہ کوئی رضا الٰہی کا ثبوت نہیں مگر یہ بددماغ اپنی غلطی سے ایسا سمجھے بیٹھے ہیں اور دنیا کی زندگی کے عیش و عشرت سے بڑے خوش ہو رہے ہیں آخرت اور دوسری زندگی کی وقعت تو ان کے دلوں میں ذرہ بھر نہیں حالانکہ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلہ پر محض بے حقیقت شے ہے جس کا ذکر بھی مناسب اور موزوں نہیں کیونکہ دنیا بتما مہادار محن و بلا ہے کوئی کیسا ہی بڑا کیوں نہ ہو کسی نہ کسی مصیبت میں اپنی حیثیت کے مطابق پھنسا ہوتا ہے اور جو کچھ لطف بھی دنیا میں ہے وہ بھی چند روزہ ہے بلکہ ایسا کہ ایک دم آئے دوسرے کا یقین نہیں پھر فانی آسائش اس حقیقی آسائش سے کیونکر مقابل اور راجح ہوسکتی ہے جس میں کسی طرح سے تکلیف نہیں اور ساتھ ہی اس کے دائمی ہے مگر نالائقوں کو کوئی بات اثر نہیں کرتی وہ تو الٹی اپنی متمردانہ چال ہی چلتے ہیں اور بدستور حق سے ہنسی اڑاتے رہتے ہیں چنانچہ یہ کافر عرب والے بار بار معجزات دیکھ داکھ کر بھی یہی کہتے ہیں کہ کیوں اس کے پروردگار کی طرف سے اس پر کوئی نشانی نہیں اترتی جو ہم چاہتے ہیں وہ کیوں ہم کو نہیں دکھاتا تو ان سے کہہ اصل بات یہ ہے کہ اللہ جس کو چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اسے سمجھ ہی نہیں آتی کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ حق سے مخالفت کا نتیجہ میرے ہی حق میں برا ہوگا اور جو اس کی طرف مائل ہوتے ہیں ان کو ہدایت کرتا ہے اور ہمیشہ توفیق خیر دیتا ہے یعنی ان لوگوں کو توفیق خیر ملتی ہے جو اللہ واحد پر ایمان لاتے ہیں نہ صرف زبانی بلکہ ایسے کہ اس کے حکموں پر چلتے ہیں اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے تسلی پاتے ہیں یعنی ذکر الٰہی بڑی تسلی اور چین سے کرتے ہیں نہ گھبراہٹ سے سن رکھو ! کہ جو دل سلیم ہوتے ہیں وہ اللہ کے ذکر سے تسلی پایا ہی کرتے ہیں بیمار دلوں کو البتہ بے چینی ہوتی ہے سو ان کا علاج یہ ہے کہ ابتدا میں وہ کسی قدر اپنے نفس پر بیماروں کی طرح جبر کریں تو بآہستگی درست ہوجائیں گے بقول سعدی مرحوم تحمل چو زہرت نماید نخست ولے شہد باشد چو در طبع رست پس جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان کے لئے اصلی وطن یعنی آخرت میں خوشحالی اور عمدہ ٹھکانہ ہے اس لئے ہم نے تجھے اس قوم میں رسول کر کے بھیجا ہے جس سے پہلے کئی پشتیں ان کی بے رسول ہی گذر گئیں تاکہ جو کلام تیری طرف ہم نے وحی اور الہام کیا ہے تو ان کو پڑھ کر سنائے اور وہ لوگ اللہ مالک الملک سے جس کا نام رحمن ہے اس سے انکاری ہیں اس کی توحید خالص نہیں مانتے بلکہ تیرے منہ سے سن کر تو اور بھی نفرت کر جاتے ہیں تو ان سے کہہ وہ رحمن میرا پروردگار ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں میرا بھروسہ اسی پر ہے اور اسی کی طرف مررا رجوع ہے یہ کہہ کر ان کی پرواہ نہ کر مانیں یا نہ مانیں بھلا یہ کیا مانیں گے جو ہر روز نئی حجت بازی کرتے ہیں اور اگر قرآن کی برکت سے پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ہلا دئیے جائیں یا زمین چیر دی جائے یا مردے بلائے جائیں تو ایسے صاف معجزات اور بین نشانات دیکھ کر بھی یہ لوگ نہ مانیں گے لیکن کیا اس مخالفت سے کوئی نقصان پہنچا سکیں گے؟ ہرگز نہیں ان کا اختیار ہی کیا ہے بلکہ اختیار تو سب کاموں کا اللہ ہی کو ہے تو کیا ابھی مسلمانوں کو بھی یہ معلوم نہیں ہوا اور اس بات پر ان کے دل مطمئن نہیں ہوئے کہ اگر اللہ چاہتا تو سب لوگوں کو ہدایت کردیتا کوئی ہے کہ اس کے چاہے کو پھیر سکے؟ مگر اس کی حکمت ہے کہ امور اختیار یہ میں جبر نہیں کیا کرتا۔ اس لئے جو لوگ منکر ہیں ان کی کرتوتوں کے عوض ان کو ہمیشہ تکلیف پہنچتی رہے گی۔ خود ان میں اور ان کی قوم میں یا ان کی بستیوں سے قریب قریب نازل ہوتی رہے گی۔ جس سے وہ بھی ہر وقت سہمگین رہیں گے جب تک کہ اللہ کا وعدہ آ پہنچے جو اس نے اپنے نیک بندوں سے فتح و نصرت کے متعلق کیا ہوا ہے اللہ وعدہ خلافی کبھی نہیں کرے گا۔ یہ بگاڑ کفار کا کچھ تجھ ہی سے نہیں بلکہ تجھ سے پہلے کئی ایک رسولوں سے ہنسی اڑائی گئی۔ پھر میں (اللہ) نے کافروں کو مہلت دی کہ اتنے وقت میں جو چاہیں کرلیں مگر وہ باز نہ آئے پس میں نے ان کو خوب پکڑا پھر میرا عذاب کیسا ہوا کیا جو اللہ ہر نفس کے اعمال کا بدلہ دینے پر قادر ہے اور ہر آن ان کی حفاظت کرتا ہے۔ اور ہر دم اسی کے فیض جود سے وہ موجود ہیں اسے چھوڑ بیٹھے ہیں؟ اور انہوں نے اللہ کے ساجھی ٹھہرا رکھے ہیں تو کہہ بھلا ان کا نام تو معین کرو ان کی کیفیت تو بتلاؤ کہ معلوم ہو کہ وہ واقع میں کچھ ہیں بھی اگر ان کی کیفیت اور حقیقت نہیں بتلا سکتے تو کیا اللہ کو ایسے امور سے اطلاع دینا چاہتے ہو جن کو وہ زمین کے واقعات میں نہیں جانتا یا ہنسی سے نری بے اصل باتیں بنا رہے ہو اگر سچ پوچھو تو کوئی بات ٹھکانہ کی نہیں بلکہ اصل یہ ہے کہ کافروں کو اپنی چالاکیاں اور حیلہ سازیاں اور بے جا تاویلیں اپنے مذہب کی حمایت میں بھلی معلوم ہوتی ہیں اور وہ حق کی راہ سے رکے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ راہ راست پر نہیں آتے اور آئیں بھی کیسے جن کو اللہ گمراہ کر دے اور اس کی بے پروائی کی سزا میں اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دے تو اس کے لئے کوئی ہادی نہیں ہوسکتا۔ ایسے لوگوں کے لئے دنیا میں بھی عذاب ہے اور آخرت کا عذاب تو بہت ہی سخت ہے کیونکہ اس عذاب کے دفعیہ کا ان کے پاس کوئی انتظام نہیں نہ خود طاقت رکھتے ہوں گے اور نہ کوئی اللہ کے عذاب سے ان کا نگہبان ہوگا لیکن جن لوگوں نے یہ بدراہی اختیار نہ کی ہوگی کہ اللہ کو چھوڑ کر اس کے بندوں سے فریادیں کرتے پھریں اور مخلوق سے خالق کے کام چاہیں بلکہ وہ اللہ کے ہو رہے یہ لوگ جنت میں ہوں گے۔ اس جنت کا نقطہ جس کا اللہ کی طرف سے پرہیزگاروں کو وعدہ دیا گیا ہے یہ ہے کہ اس کے درختوں کے تلے نہریں جاری ہیں اس کے پھل اور بہار دائمی ہے۔ یہ انجام تو پرہیزگاروں کا ہوگا۔ اور کافروں کا انجام جہنم کی آگ ہے بس جس گروہ سے کوئی چاہے ہو کسی کا کیا حرج ہے اگر تیری نہیں مانتے تو تیرا کیا نقصان ہے