سورة یوسف - آیت 22

وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی

اور جب وہ اپنی جوانی کو پہنچ گئے (٢٢) تو ہم نے انہیں علم و حکمت دی، اور ہم اچھا کرنے والوں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(22۔32) اور ایسا ہوا کہ یوسف جب کمال جوانی کو پہنچا تو ہم (اللہ) نے اسے حکم شریعت یعنی علم نبوت عطا کیا اور اسی طرح ہم نیکوں کو عوض دیا کرتے ہیں۔ (یہی لفظ (اشد) یتامیٰ کے حق میں بھی آیا ہے وہاں اس سے مراد بلوغت جوانی ہے اس لئے یہاں بھی یہی ہونا چاہئے۔ ١٢ منہ گو اب نبوت ختم ہے لیکن آثار نبوت عموماً صلحا پر اب بھی وارد ہوتے رہتے ہیں وہ تو اپنے تزکیہ نفس میں مشغول تھا اور جس عورت کے گھر میں وہ رہتا تھا یعنی جس کے خاوند نے اسے خریدا تھا اس نے اسے بہکانا شروع کیا ہمیشہ اسے اشاروں کنایوں سے کام لیتی ہوئی آخر ایک روز اسے ایک محفوظ مکان میں بلایا اور دروازے بند کر کے کہنے لگی میری طرف پلنگ پر آ یوسف نے کہا اللہ کی پناہ کہ میں ایسی ناجائز حرکت کا مرتکب ہوں میرے پروردگار نے مجھے نیک رتبہ بنایا خاندان نبوت میں پیدا کیا اور علم و فضل اور اپنی معرفت سے مالا مال فرمایا کیا اس نعمت کا یہی شکریہ ہے کہ میں ناجائز حرکت کر کے ظالم بنوں کہ کچھ شک نہیں کہ ایسے ظالموں کو کبھی کامیابی نہیں ہوا کرتی مگر وہ عورت اس سے ارادہ بد کرچکی تھی یوسف ( علیہ السلام) کو بھی اگر الٰہی برہان نہ سوجھتا تو وہ بھی اس سے بد ارادہ کرلیتا مگر اللہ نے جو اسے علم اور سمجھ عطا کی ہوئی تھی وہ اس کے سامنے مثل ایک مرئی چیز کے موجود ہو کر مانع ہوئی جس کو اس نے انہ ربی احسن مثوی سے اظہار بھی کردیا اصل حقیقت یہ ہے ہم اسی طرح اسے بچاتے رہے تاکہ برائی اور بے حیائی کو اس سے پھیرے رکھیں کیونکہ وہ ہمارے خالص بندوں میں تھا (ھم بہا) اس آیت کی تفسیر میں چنداں اختلاف ہے جو دراصل ترکیب نحوی پر متفرع ہے بہت سے مفسرین کہتے ہیں کہ حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے بھی قصد کرلیا تھا مگر بدکاری کا وقوعہ نہیں ہوا برھان ربی نے اسے روک لیا ورنہ وہ تو تیار ہوگیا تھا یہاں تک کہ اس پر بیٹھ بھی گیا مگر کئی ایک مفسرین کی رائے ہے کہ یہ معنے نہیں بلکہ معنے یہ ہیں کہ یوسف ( علیہ السلام) اگر اللہ کا برہان نہ دیکھتا تو قصد بد کرلیتا یعنی اس نے ارادہ بد بھی نہیں کیا پہلے گروہ نے کہا کہ عربی زبان میں لولا کی جزا مقدم نہیں آیا کرتی۔ امام رازی (رح) نے اس کے جواب میں قرآن شریف ہی سے مثال بتائی ہے لولا کی جزا مقدم آتی ہے ان کا دت لتبدی بہ لولا ان ربطنا علی قلبھا (مفصل در تفسیر کبیر) برھان دیکھنے سے مراد نور ایمان کا جلوہ دیکھنا ہے۔ اللہ اعلم۔ ١٢ منہ) ہماری رحمت خاصہ کا یہ تقاضا ہوتا ہے کہ ہم اپنے مخلص بندوں کو جن کا اکثر حال چال اچھا ہو اور کبھی بتقاضائے بشریت غلطی کے مرتکب ہونے کو ہوں تو بچا لیا کرتے ہیں یوسف اپنے انکار پر بضد رہا اور زلیخا اپنے تقاضا پر مصر رہی اور یوسف جان بچاتا ہوا اور زلیخا اسے پکڑتی ہوئی دونوں بھاگتے ہوئے دروازہ پر پہنچے اور اس عورت زلیخا نے یوسف کو کھینچتے ہوئے پیچھے سے اس کا کرتا پھاڑ دیا اور اتفاق ایسا ہوا کہ دروازے پر زلیخا کا خاوند ان کو ملا زلیخا اسے دیکھتے ہی جھٹ سے بغرض دفع الزام بولی کہ اس نے آپ کے حرم پر بدنظر کی تھی جو کوئی آپ کے حرم پر برائی کا خیال کرے اس کی یہی سزا ہے کہ وہ قید کیا جاوے یا دکھ کی مار دیا جاوے یوسف نے بھی اپنی بریت کرنے کو کہا کہ اسی زلیخا نے مجھ سے بدخواہش کی ہے میں نے اسے کچھ نہیں کہا اور شور و شر ہوتے ہوتے جب تمام خاندان میں یہ بات مشہور ہوگئی تو اس عورت کے کنبے میں سے ایک شخص نے قیافہ سے یہ بات بتائی کہ اگر اس یوسف کا کرتا آگے سے پھٹا ہے تو وہ عورت زلیخا اپنے دعوی میں سچی ہے کہ یوسف ( علیہ السلام) نے اسے چھیڑا ہے اور وہ اس کے حملہ کو روکتی ہوگی اسی دھکم دھکا میں اس کا کرتا پھٹ گیا ہوگا اور وہ اس صورت میں جھوٹا ہوگا اور اگر اس کا کرتا پیچھے سے پھٹا ہے تو وہ جھوٹی ہے اور یوسف سچا ہے ضرور اس عورت کی شرارت ہوگی سب خاندان کو مع عزیز مصر یہ بات پسند آئی پس اسی کے مطابق جب اس کا کرتا اس نے ملاحظہ کیا تو وہ پیچھے سے پھٹا ہوا تھا۔ دیکھ کر اس کے جی میں یقین ہوگیا کہ زلیخا کی شرارت ہے عزیز مصر بولا تم عورتوں کی چالاکی ہے کچھ شک نہیں تمہارے چرتر بڑے بڑے غضب کے ہوتے ہیں یوسف سے مخاطب ہو کر بولا اے یوسف تو اس بات کو جانے دے اس کی پرواہ نہ کر ہمیں تجھ پر ذرا بھی شبہ نہیں اور زلیخا سے کہا کہ اے عورت تو اپنے گناہ پر اللہ سے بخشش مانگ بے شک تو ہی قصوروار ہے یہاں حرم عزیز میں تو یہ فیصلہ ہو کر بات ٹھنڈی پڑگئی مگر باہر شور مچ گیا اور شہر میں عورتوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ دیکھو ری عزیز مصر کی بیوی اپنے غلام کو پھسلاتی ہے اور اس کی محبت میں بالکل فریفتہ ہوگئی ہے ہمارے نزدیک تو یہ کام اس کا صریح جہالت ہے منہ کالا کرنا ہی ہو تو ایسا کیا کہ غلاموں سے کیا جاوے جو بیچارے دست نگر ماتحت ہوتے ہیں یہ بات شرافت سے بعید ہے زلیخا نے جب ان کی غیبت اور بدگوئی سنی تو ان کی طرف دعوت کا پغاہم بھیجا اور ان کے لئے محفل آراستہ کی اور جب وہ آئیں تو ہر ایک کے ہاتھ میں چھری گوشت وغیرہ کاٹ کاٹ کر کھانے کو دی اور دستر خوان ان کے سامنے چن کر یوسف سے کہا کہ ان کے سامنے نکل آ۔ پس جب انہوں نے دیکھا تو اسے بہت بڑا عالی مرتبہ بزرگ سمجھا اور اس کو دیکھتے دیکھتے بجائے گوشت کاٹنے کے انہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے اور بولیں سبحان اللہ یہ تو انسان نہیں ایسا نورانی شکل کوئی آدمی نہیں ہوسکتا یہ تو کوئی معزز فرشتہ ہے زلیخا اپنا الزام اور عذر اتارنے کو بولی کہ بس یہی ہے جس کے حق میں تم نے مجھے ملامت کی تھی دیکھا بتلائو ! میں معزز ہوں یا نہیں۔ میں سچ کہتی ہوں میں نے اسے پھسلایا تھا مگر یہ آج تک بچا رہا اور اگر اس نے میرا کہا نہ مانا تو ضرور قید کیا جاوے اور بے عزت ہوگا زلیخا کا یہ کہنا تھا کہ عورتوں نے بھی دعوت کا حق ادا کرنے کو اس کی تائید کی تو یوسف ( علیہ السلام) نے دعا کرتے ہوئے ان کی اس تائید کی طرف اشارہ کر کے کہا اے میرے مولا ! بڑی بات تو یہ ہے کہ بے فرمانی میں مجھے قید کی دھمکی دیتی ہیں سو جس چیز کی مجھ سے یہ خواہش کرتی ہیں اور مجھے اس کی طرف بلاتی ہیں یعنی بدکاری قید اس سے کئی درجہ بڑھ کر مجھے پسند ہے اور اگر تو مجھ سے ان کا فریب جو اس بارے میں مجھ سے کر رہی ہیں نہ پھیرے گا تو میں بھی اپنے نفس کی خواہش میں ان کی طرف جھک جائوں گا اور تیری بے فرمانی کرنے سے جاہل بن جائوں گا اللہ کی شان وہ وقت اجابت کچھ ایسا تھا کہ اللہ نے اس کی یہ آرزو اور دعا قبول کی یعنی ان کا مکر اور فریب اس سے پیری دیا وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکیں اور آخر کار کچھ مدت یوسف کو قید خانہ میں رہنا پڑا کہ وہ اس امر میں بھی تجربہ کار ہوجائے کیونکہ اللہ سب کی سننے والا ہر ایک شے کو جاننے والا ہے جو کام وہ کرتا ہے وہی حکمت ہوتا ہے اس سے بعد کچھ مدت یوسف انہی کے گھر میں رہتا رہا گو اس کی طرف سے بدستور انکار رہا لیکن زلیخا سے ہمیشہ مضطربانہ حرکات صادر ہوتیں اور حبک الشی یعمی ویصم کا اس پر پورا جلویٰ نما تھا اور وہ ہر حال میں بزبان حال کہتی تھی دیدار می نمائی و پرہیز میکنی بازار خویش آتش ما تیز میکنی پھر اس کی مضطربانہ حرکات کے نشان دیکھنے کے بعد ان خاندان عزیزیہ کو یہ مناسب معلوم ہوا کہ گھر کی بیگم صاحبہ کو سزا دینے میں بدنامی ہوگی اور غلام کو قید کردینے میں کوئی حرج نہیں پس تھوڑے دنوں تک اسے ہی قید رکھیں تاکہ ان کی جدائی ہو کر آتش عشق سرد پڑجاوے مگر انہیں معلوم نہ تھا کہ دو گونہ رنج و عذابست جان مجنوں را بلائے صحبت لیلیٰ و فرقت لیلیٰ پس وزیر صاحب نے بے قصور کو باختیار خود نظر بند کردیا