سورة التوبہ - آیت 90

وَجَاءَ الْمُعَذِّرُونَ مِنَ الْأَعْرَابِ لِيُؤْذَنَ لَهُمْ وَقَعَدَ الَّذِينَ كَذَبُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ سَيُصِيبُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور دیہات کے بہانہ بنانے (68) والے لوگ آئے تاکہ انہیں اجازت دے دی جائے، اور جن لوگوں نے اپنے دعوائے اسلام میں اللہ اور اس کے رسول کے سامنے کذب بیانی کی تھی وہ بیٹھے رہ گئے، ان میں سے جن لوگوں نے کفر کیا انہیں عنقریب دردناک عذاب پہنچے گا

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(90۔106) بعض جنگلی لوگ بھی عذر کرتے ہوئے آئے ہیں کہ ان کو پیچھے بیٹھ رہنے کی رخصت ملے اور اللہ اور رسول سے جھوٹ بولنے والے وعدے توڑنے والے تو مزے سے بیٹھے ہی رہے ہیں۔ (شان نزول (جآء المعذرون) جنگ تبوک میں جو سخت گرمیوں میں ہوئی تھی بہت سے مخلص اور منافقوں کا امتحان ہوگیا تھا۔ شروع ہی سے کمزور لوگوں نے اغدار باردہ کرنے شروع کئے۔ بعض لوگ تو واقعی معذور تھے ہی مگر بعض نے صرف ظاہری بہانہ جوئی سے تخلف کرنا چاہا۔ ایسے لوگوں کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم) پس اب دور نہیں کہ ان میں سے کافروں کو دکھ کی مار ہوگی۔ ہاں جنگ کے موقعہ پر سب مسلمانوں کا میدان جنگ میں آنا بھی ضروری نہیں بلکہ جو واقعی معذور ہیں ان کا عذر قبول ہے پس اسی اصول کے مطابق کمزوروں پر گناہ نہیں اور نہ بیماروں اور بیماروں کے تیمارداروں پر اور نہ ان لوگوں پر گناہ ہے جن کو خرچہ جنگ میسر نہیں بشرطیکہ ایسے لوگ گھر میں بیٹھے ہوئے بھی اللہ اور رسول کے دین کی خیر خواہی کرتے رہیں ایسے لوگ عذر کریں تو ان کے عذر قبول کریو کیونکہ نیکو کاروں پر کوئی الزام نہیں ہوتا معمولی حاکم بھی ایسے مخلصوں پر رحم کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بڑا ہی بخشنے والا مہربان ہے اور نہ ان لوگوں پر گناہ ہے جو اے رسول تیرے یا تیرے کسی نائب امیر المومنین کے پاس اس غرض سے آتے ہیں کہ تو ان کو سواری دے تو بجائے سواری دینے کے ان سے کہتا ہے کہ میرے پاس کوئی سواری نہیں رہی جس پر میں تم کو سوار کروں یہ تیرا جواب سن کر وہ بیچارے گھروں کو واپس ہوجاتے ہیں مگر نہ خوشی خوشی کی جان بچی بلکہ افسوس کرتے ہوئے اور خرچ میسر نہ ہونے کے رنج سے روتے ہوئے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں پیچھے رہنے میں گناہ تو انہی لوگوں پر ہے جو غنی اور آسودہ ہو کر تجھ سے رخصت مانگا کرتے ہیں اور خوش ہیں کہ پیچھے رہنے والی عورتوں میں مل رہیں چونکہ اللہ نے ان کے دلوں پر ان کی بداعمالی کی وجہ سے مہر کردی ہے پس وہ نیک و بد کو نہیں سمجھیں گے ہاں جب تم جنگ سے واپس ان کے پاس جائو گے تو تمہارے پاس عذر کریں گے کہ ہمیں یہ تھا وہ کوئی کہے گا میری ٹانگ میں درد تھا کوئی سردرد کا عذر کرے گا اے نبی تو ان سے کہہ دیجو کہ کوئی عذر نہ کرو ہم تمہارا اعتبار نہ کریں گے اس لئے کہ اللہ نے ہم کو تمہارے حال سے خبر بتلا دی ہے اور ابھی آئندہ کو اللہ اور رسول اور تمام مسلمان تمہارے کاموں کو دیکھیں گے پھر تم بعد موت اللہ عالم الغیب والشہادت کے پاس پھیرے جائو گے پس وہی تم کو تمہارے کاموں کی خبریں دے گا اور اسی سے عوض بھی پائو گے جب تم جنگ سے فارغ ہو کر ان کے پاس لوٹو گے تو تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھائیں گے نہ کسی نیک غرض سے بلکہ اس غرض سے کہ تم ان سے درگذر کرو اور ملامت نہ کرو پس تم نے بھی ان سے منہ پھیر لینا کیونکہ وہ نجس اور ناپاک باطن ہیں اور جو کچھ وہ دنیا میں کرتے ہیں اس کی جزا میں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے تمہارے پاس اس غرض سے قسمیں کھائیں گے کہ تم ان سے راضی ہوجائو پھر اگر بالفرض تم ان سے راضی ہو بھی گئے تو ان کو اس میں کیا فائدہ اللہ تو بدکاروں کی قوم سے راضی نہیں ہوا کرتا دہقانی لوگ جو بےدین ہیں کفر اور نفاق میں بڑے ہی سخت ہیں اور ان کی طبیعتیں جہالت سے زیادہ مناسبت رکھتی ہیں اور اسی قابل ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو اپنے رسول پر احکام اتارے ہیں ان کے سمجھنے سے نابلد رہیں گو یہ لوگ اپنی جہالت اور عادت کو کتنا ہی چھپاویں چھپتی نہیں کچھ ان کے مونہوں سے ظاہر ہوچکی ہے اور اللہ بذات خود ہی بڑے علم والا بڑی حکمت والا ہے سارے دہقانی بھی یکساں نہیں بعض دیہاتی ایسے ہیں کہ اللہ کی راہ میں جو کچھ خرچتے ہیں اس کو اپنے ذمے چٹی سمجھتے ہیں یعنی دل سے بیزار ہو کر خرچ کرتے ہیں اور بجائے تمہاری خیر اندیشی کے تم پر مصیبتوں کے منتظر رہتے ہیں اللہ تعالیٰ چاہے تو انہی پر مصیبتیں پڑیں گی اور اللہ تعالیٰ ہر ایک کی سنتا اور ہر ایک کے حال کو جانتا ہے اور ان کے مقابل بعض دیہاتی ایسے نیک بھی ہیں جو اللہ پر اور پچھلے دن کی زندگی پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچتے ہیں اس کو اللہ تعالیٰ کے حضور قرب کا موجب اور رسول کی دعائوں کا ذریعہ جانتے ہیں یعنی اس نیک خیال سے دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم پر راضی ہو اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ خبر سن کر خوش ہوں اور ہمارے حق میں نیک دعا دیں تم بھی سن رکھو کہ اصل میں وہ ان کی خیرات واقعی قرب الٰہی کا سبب ہی کیونکہ اخلاص سے خرچ کرتے ہیں اسی کے بدلے میں اللہ تعالیٰ ان کو اپنی رحمت میں داخل کرے گا بے شک اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے اور ان کے علاوہ سب سے اول اسلام کی طرف سبقت کرنے والے یعنی مہاجرین جو محض اسلام کی خاطر اپنے اپنے وطن چھوڑ کر مدینہ میں محمدی جھنڈے کے نیچے آ کر جمع ہوگئے ہیں اور انصار یعنی جن مدینہ والوں نے ان مسافروں کی خاطر تواضع میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا اور جو ان کی نیک روش کے تابع ہوئے کسی قوم یا کسی ملک کے باشندوں سے ہوں آج سے قیامت تک اللہ تعالیٰ ان سے سب سے راضی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی اور اللہ نے ان کے لئے بہشت تیار کئے ہیں جن کے تلے نہریں اور چشمے جاری ہوں گی ان کی بارہ دریوں میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے یہی تو بڑی کامیابی ہے اور سنو ! مسلمانو ! تم سے اردگرد یعنی مدینہ کے قرب و جوار میں رہنے والوں میں بھی دورخے منافق لوگ ہیں اور خود مدینہ والوں میں بھی بعض لوگ نفاق پر اڑے ہوئے ہیں اے نبی تو ان کو نہیں جانتا لیکن ہم ان کو جانتے ہیں ہم ان کو کئی دفعہ دنیا میں عذاب کریں گے پھر بعد موت کے تو بڑے عذاب میں پھیرے جائیں گے اور ان سے علاوہ کچھ اور لوگ بھی ہیں جنہوں نے اپنی غلطی کا اقرار کیا ہے کہ ہم بلاوجہ غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے ہمیں معافی دی جاوے آئندہ کو ایسا نہ ہوگا انہوں نے کئی ایک نیک عمل بھی کئے ہیں اور بعض برے بھی ان کے اخلاص اور حسن نیت کی وجہ سے اللہ جلد ان پر رحم کرے گا بے شک اللہ بڑا بخشنے والا رحم کرنے والا ہے تو ان لوگوں کو مثل منافقوں کے نہ سمجھ بلکہ ان کے مالوں سے صدقات جو لاویں قبول کیا کر اور فقرا میں بانٹ دیا کر اور ان صدقات کے ذریعہ ان کو گناہوں سے پاک اور صاف کیا کر اور ان کے لئے دعا کیا کر کیونکہ تیری دعا ان کے لئے موجب تسکین قلبی اور برکت عظیم کی باعث ہے اور اللہ خود سب کی سنتا اور جانتا ہے جو لوگ گناہوں کا اقرار کرتے اور خیرات دیتے ہوئے جھجکتے ہیں کیا ان کو معلوم نہیں کہ اللہ بذات خود اپنے بندوں سے توبہ قبول کرتا ہے اور صدقات لیتا ہے یعنی قبول کرتا ہے اور یہ کہ اللہ ہی بڑا توبہ قبول کرنے والا بڑا رحم کرنے والا ہے تو ان کو یہ پیغام سنا اور کہہ کہ اچھا جو کچھ تم سے ہوسکتا ہے تم عمل کئے جائو پھر اللہ اور اس کا رسول اور تمام مسلمان تمہارے کاموں کو دیکھیں گے اور اس سے پیچھے تم اللہ تعالیٰ مالک الملک عالم الغیب والشہادۃ کی طرف پھیرے جائو گے جس سے تمہارا ہمارا سب کا اصل معاملہ ہے پس وہی تم کو تمہارے نیک و بداعمال سے آگاہ کرے گا نہ صرف آگاہ کرے گا بلکہ جزا و سزا بھی دے گا ایسی کہ اس کی اپیل بھی کسی محکمہ میں نہ کرسکو گے یہ تو ان لوگوں کا ذکر تھا جن میں بعض نفاق کی وجہ سے اور بعض معمولی غفلت کی وجہ سے غزوہ تبوک میں شریک نہیں ہوسکے اور ان کے سوا اور چند آدمی مخلص اور خاص الخواص بھی ہیں جن کا معاملہ حکم الٰہی کے انتظار میں ملتوی کیا گیا ہے خواہ وہ ان کے اخلاص اور عالی مرتبت ہونے کی وجہ سے ان کو عذاب کرے یا ان کی موجودہ توبہ کے سبب سے ان پر رحم کرے اور اللہ تعالیٰ بڑے علم والا بڑی حکمت والا ہے خیر یہ تو جو کچھ ہیں سو ہیں آخر اپنے ہیں اگر کبھی قصور بھی کرتے ہیں تو غلط فہمی سے کرتے ہیں نہ عناد سے ان کے سوا اور لوگ ہیں جو خاص توبہ کے قابل ہیں (ان کے نام کعب بن مالک اور ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع (رض) ہیں آنحضرت کے حکم سے تمام لوگوں نے ان سے کلام سلام بند کردیا تھا کیونکہ جنگ تبوک سے بلا عذر پیچھے رہ گئے تھے پچاس روز کے بعد ان کی توبہ نازل ہوئی تھی۔ اتنے دنوں تک باوجود تکلیف شدید کے ثابت قدم رہے۔ ١٢ منہ)