سورة الانفال - آیت 41

وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِن كُنتُمْ آمَنتُم بِاللَّهِ وَمَا أَنزَلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جان لو کہ تمہیں جو کچھ بھی مال غنیمت (35) ہاتھ آئے گا، اس کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے اور (رسول کے) رشتہ داروں، اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہوگا، اگر تمہارا ایمان (36) اللہ اور اس نصرت و تائید پر ہے جو ہم نے اپنے بندے پر اس دن اتارا تھا جب حق باطل سے جدا ہوگیا، جب دونوں فوجوں کی مڈ بھیڑ ہوگئی، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(41۔64) اور جان رکھو کہ جو کچھ تم نے مال غنیمت حاصل کیا ہو اس میں سے پانچواں حصہ اللہ تعالیٰ کا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے رسول اور رسول کے قرابت داروں اور عام یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لئے ہے یعنی پانچواں حصہ مال غنیمت کا سرکاری خزانہ میں داخل ہوگا۔ جس کو پیغمبر صاحب یا حاکم وقت اس طرح تقسیم کریں گے کہ کچھ حسب ضرورت اپنا حصہ نکالیں گے اور باقی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت داروں اور عام یتیم اور مسکین مسافر دعا گووں کو دیں گے باقی چار حصے لشکریوں میں تقسیم ہوں گے اللہ تعالیٰ کا حصہ الگ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق تقسیم کرنا ہی اس کا حصہ ہے اگر تم کو اللہ تعالیٰ پر اور اس کی امداد غیبی پر جو جنگ کے فیصلہ کے دن جس روز دونوں جماعتوں کافروں اور مومنوں کی مٹھ بھیڑ ہوئی تھی اس نے اپنے بندے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمائی تھی کامل ایمان ہے تو ایسا ہی کرو اور اس سے سر مو تفاوت نہ کرو اور دل میں یقینی جان رکھو کہ اگر تم اس کے حکموں کی تعمیل کرو گے تو ہمیشہ تمہاری ایسی ہی مدد کرتا رہے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کام پر قدرت رکھتا ہے تمہیں اپنی کمزوری کا وہ وقت بھی یاد ہے جب تم میدان جنگ کے ورلے کنارہ پر تھے اور وہ یعنی کفار کی فوج پر لے سرے پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے اور قافلہ جس کے تم دائو پر تھے تم دونوں سے نیچے کی جانب سے ہوتا ہوا بچ کر نکل گیا تھا اللہ تعالیٰ نے تمہاری کیسی مدد کی کہ ایسے قوی ہیکل باسامان دشمن پر تم کو فتح دی اور اگر تم آپس میں معاہدہ کرتے کہ فلاں وقت لڑیں گے تو ضرور وعدہ خلافی کردیتے اور ان کے خوف کے مارے میدان میں نہ پہنچتے لیکن اللہ تعالیٰ نے تم کو ناگہان ایک دوسرے کے سامنے لا کر جمع کردیا تاکہ جو کام اس کے علم میں ہوچکا تھا اس کا فیصلہ کر دے یعنی تمہاری ان پر فتح ہو تاکہ جو کوئی دلیل دیکھنے کے بعد گمراہی پر اڑا رہا وہ گمراہی ہی میں تباہ اور برباد ہو تاکہ اپنے کئے کی سزا پائے اور جو دلیل سے زندہ ہوا یعنی جو اس الہام فتح سے ہدایت یاب ہو وہ زندگی پاوے یعنی صحابہ کرام جو اسلامی حجت دیکھ کر صدق دل سے شیدا ہو رہے ہیں ان کا نور ایمانی اور زیادہ ہو اور جو باوجود حجج قاطعہ دیکھنے کے کفر پر اڑے رہے ہیں وہ خستہ حال ہوں اور اللہ تعالیٰ سب کی سنتا اور سب کے احوال جانتا ہے اصل فتح کی امیدجب ہی سے پڑگئی تھی جب اللہ تعالیٰ نے خواب میں تجھے ان کی فوج تھوڑی دکھائی جس سے تمہاری جرأت ان پر زیادہ ہوئی اور اگر وہ تجھ کو تعداد میں بہت دکھاتا تو تم مسلمان مارے خوف کے پھسل جاتے اور جنگی کام کے متعلق جھگڑتے کہ ان سے لڑیں یا کسی حیلہ بہانہ سے بھاگ جائیں مگر اللہ تعالیٰ نے تم کو ثابت قدم رکھا کیونکہ وہ دلوں کے حال پر مطلع ہے تمہارا اخلاص اور دلی محبت بیشک اسی امر کے مقتضی تھے کہ تم پر یہ مہربانی ہو اور یہ فتح اس تدبیر الٰہی کا نتیجہ ہے کہ جب تم دونوں گروہ آپس میں ملے تھے تو اللہ تعالیٰ نے تمہاری نگاہ میں ان کو کم کر کے دکھایا اور تم کو ان کی نگاہ میں تھوڑے تاکہ جو کام اس کے علم میں ہوچکا ہے اس کا فیصلہ کر دے اور اگر غور سے دیکھو تو سب کام اللہ تعالیٰ ہی کی طرف پھرتے ہیں وہی ان سب گاڑیوں کا انجن ہے وہی سب کائنات کی علۃ العلل ہے جس کو جس طرح چاہے رکھے جو چاہے کرے لیکن اس کا چاہنا بے سبب اور بلاوجہ نہیں ہوا کرتا۔ ظاہری اسباب اور تدابیر کو بھی کامیابی میں اسی نے دخل رکھا ہوا ہے پس تم مسلمانو ! اس امر کو خوب یاد رکھو کہ جب کبھی تمہاری کسی مخالف جماعت سے مٹھ بھیڑ ہوجائے تو جم کر لڑا کرو اور فتح و نصرت اللہ تعالیٰ سے سمجھ کر اللہ تعالیٰ کو بہت یاد کیا کرو تاکہ تم کامیاب ہو اور اللہ اور اس کے رسول کے حکموں کی اطاعت کرتے رہو اور بہت بڑی بات کامیابی کی یہ ہے کہ آپس میں بے جا تنازع نہ کیا کرو جن سے باہمی ناچاقی تک نوبت پہنچے ورنہ تم پھسل جائو گے اور جس کام کرنے کا ارادہ کئے ہو اس میں ناکام رہو گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی یعنی تمہارا رعب جاتا رہے گا اور غیروں کی نظروں میں ذلیل ہوجائو گے پس ان نقصانات کو سوچ لو اور تکلیفوں پر صبر کیا کرو ایسی بھی بزدلی کیا ہے کہ ذرہ سی بات پر واویلا کرنے اور چلانے لگ جایا کرتے ہو یقینا سمجھو کہ اللہ کی مدد صابروں کے ساتھ ہے ہاں یہ بات ضرور ہی قابل لحاظ ہے کہ فتح اور دشمنوں کی شکست کو اپنے قوت بازو کا نتیجہ نہ سمجھنے لگو ایں سعادت بزور بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشندہ اور جو لوگ اپنے گھروں سے شیخی بھگارتے ہوئے اور لوگوں کو اپنا جاہ و جلال دکھاتے ہوئے نکلے تھے اور اللہ کی راہ (اسلام) سے لوگوں کو جبراً روکتے تھے تم ان کی طرح کے نہ ہونا نہ اکڑ فون کرنا نہ اپنے اعمال میں رہا اور مخلوق کی واہ واہ کی کبھی نیت کرنا اور نہ نتجہ جیسا انہوں نے مکہ سے نکل کر پایا تم بھی پائو گے کیا تم نے سنا نہیں حباب بحر کو دیکھو یہ کیسا سر اٹھاتا ہے تکبر وہ بری شے ہے کہ فوراً ٹوٹ جاتا ہے اور دل سے جان رکھ کہ جو کچھ بھی دنیا کے لوگ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے گھیرے میں ہے کہیں جا نہیں سکتے وہ سب کو جانتا ہے اور سب کو مناسب جزا و سزا دیتا ہے اور دے گا اور سنو ! ہم تمہیں اس وقت کی بھی اطلاع دیتے ہیں جب شیطان نے ان مشرکوں کے بداعمال یعنی بے وجہ تعلی نخوت اور غرور اور لاف زنیاں وغیرہ ان کی نظروں میں عمدہ کر دکھائے اور کہا اور دل میں مضبوطی سے جما دیا کہ آج کوئی آدمی بھی تم پر غالب نہ آئے گا اور عرب کے ایک معزز رئیس کی شکل میں آ کر یہ بھی کہا کہ میں تمہارا حمائتی ہوں جی کھول کر لڑو اگر مدد کی ضرورت ہوئی تو میں دوں گا۔ تم نے کسی طرح سے فکر نہ کرنا پھر جب دونوں فوجیں آمنے سامنے آئیں تو الٹے پائوں پھرتا ہوا کہتا گیا کہ میں تم لوگوں سے بیزار ہوں کیونکہ ایسی چیز یعنی آسمانی مدد دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ایسی بے امیدی کے وقت میں اپنے آپ کو عذاب میں پھنسانا نہیں چاہتا اور میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے یہ اس وقت کا ذکر ہے جب منافق یعنی جن کے دلوں میں بیماری ہے اور دورخہ رہنے کے عادی ہیں مسلمانوں کی تحقیر کرتے ہوئے کہتے تھے کہ یہ لوگ مذہب سے ایسے فریب خوردہ ہیں کہ اپنی بے سر و سامانی کو ذرہ بھی نہیں دیکھتے اور نہ سوچتے ہیں کہ ہمارا حشر کیا ہوگا اور ہم کیا کر رہے ہیں اور یہ ان نالائقوں کو خبر نہیں تھی کہ جو کوئی اللہ پر کامل بھروسہ کرے وہ کامیاب ہی ہوا کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ بڑا غالب اور بڑی حکمت والا ہے یہ تو ایک گذشتہ واقعہ ہے اور اگر تو اس وقت کافروں کو دیکھے (تو عجیب کیفیت دیکھے) جس وقت موت کے فرشتے کافروں کی روحیں آگے پیچھے (لاتیں) مارتے ہوئے قبض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جہنم کا عذاب چکھو یہ مت سمجھو کہ یہ تیر ظلم ہے بلکہ یہ عذاب تمہارے ہی کاموں کا عوض ہے اور دل سے جان لو کہ اللہ اپنے بندوں پر ذرہ بھی ظلم نہیں کرتا ان مکہ کے مشرکوں کی حالت بھی فرعونیوں اور ان سے پہلے لوگوں کی سی ہے وجہ شبہ یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کے احکام سے انکار کیا پس اللہ نے ان کے گناہوں کی پاداش میں ان کو خوب پکڑا اسی طرح ان سے ہوا اور جو کسر ہے وہ بھی نکل جائے گی بے شک اللہ تعالیٰ بڑا زبردست طاقتور سخت عذاب والا ہے اس کا عذاب برداشت کرنے کی کس کو سکت ہے یہ گت ان کی اس لئے ہوئی کہ اللہ کی جناب میں یہ قاعدہ ہے کہ جو نعمت وہ کسی قوم پر انعام کرتا ہے کبھی نہیں بدلا کرتا جب تک وہ اپنے اعمال اور اخلاق خود نہ بدلیں اور اس نعمت کی قابلیت نہ کھوویں اور اللہ سب کی سنتا اور جانتا ہے کسی کے جتلانے یا رپورٹ کرنے کرانے کی اسے حاجت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان مکہ کے مشرکوں پر یہ نعمت انعام کی تھی کہ ان میں رسول پیدا کیا لیکن چونکہ انہوں نے اس کی ناقدری کی اللہ تعالیٰ نے ان کی ایسی گت بنائی کہ کسی کی نہ بنے اور یہ نعمت ان سے چھین کر مدینہ والوں کو عنایت کی اور وہ اس خدمت پر مامور ہوئے جس کو انہوں نے پورا کیا پس ان مشرکوں کی مثال بالکل فرعونیوں اور ان سے پہلے لوگوں کی سی ہوئی جن کی طرف رسول آئے اور حضرت موسیٰ مثیل محمد ( علیہ السلام) تشریف لائے مگر انہوں نے اپنے پروردگار کے حکموں کی تکذیب کی تو ہم (اللہ) نے ان کے گناہوں کی پاداش میں ان کو تباہ کر ڈالا اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کردیا اور وہ سارے کے سارے ہی ظالم اور بدمعاش تھے۔ ایسے بدکار ظالم چاہے دنیا میں کیسے ہی معزز اور شریف کیوں نہ ہوں اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کی کچھ عزت نہیں کیونکہ جو لوگ کفر پر جمے ہوئے ہیں اور ایمان نہیں لاتے وہ اللہ کے نزدیک درندوں اور جنگلی جانوروں غرض سب حیوانات سے بدتر ہیں ان کی کوئی عزت اور وقعت اللہ تعالیٰ کی جناب میں نہیں کیونکہ وہاں بغیر عملوں کے عزت نہیں اسی لئے تجھ سے کہا جاتا ہے کہ جن کافروں سے تو نے عہد کئے ہیں اور وہ بار بار عہد شکنی کرتے ہیں اور کسی طرح بدعہدی سے پرہیز نہیں کرتے ذرہ ذرہ موقعوں پر فساد مچا دیتے ہیں اور دشمنوں سے مل جاتے ہیں تو ان کو یا ان کے دیگر ہم جنسوں کو لڑائی کے میدان میں پاوے تو ایسی ڈپٹ کیجئیو کہ ان کے ساتھ ہی ان سے پیچھے والوں کو جو بطور کمک ان کی آتے ہیں ان کو بھی متفرق کر دیجیو مارے خوف کے آگے نہ بڑھیں تاکہ آئندہ کو نصیحت پاویں اور عہد شکنی سے بچتے رہیں اور اگر تجھ کو کسی قوم سے خیانت اور بدعہدی معلوم ہو تو ان کو برابری کی صورت میں اطلاع دے دیا کر یعنی ایسے وقت میں ان کو نقص عہد کی خبر کرو کہ وہ اور تم مساوی انتظام کرسکو نہ ایسے وقت کہ خود تو سب انتظام جنگ کرلو پر ان کو خبر نہ ہو کیونکہ یہ بھی ایک قسم کی خیانت اور بزدلی ہے اور خائن اور دغا باز اللہ تعالیٰ کو نہیں بھاتے اور کافر جو عہد شکنی اور بدعہدی کرنے سے ڈرتے نہیں بلکہ اس کو ایک قسم کی پالیسی یا حکمت عملی جانتے ہیں ان کا خیال غلط ہے یہ نہ سمجھیں کہ وہ ہم سے آگے بڑھ چکے ہیں ایسے کہ ہم ان کو پکڑنا چاہیں تو قابو نہ آئیں گے ہرگز نہیں وہ ہم کو عاجز نہ کرسکیں گے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ تم ان سے غافل نہ ہو اور صرف یہ سمجھ کر کہ ہم مسلمان ہیں ہماری مدد اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے تو خود ہی کرے گا ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہو بلکہ ان کے مقابلے کے لئے جس قدر طاقت رکھتے ہو سامان تیار رکھو تیر اندازی ہو یا گھوڑا سواری غرض جس قسم کی ورزش سپاہیانہ حسب مصالح ملکی کرسکو کرتے رہو کہ اس سے اللہ کے دین کے دشمنوں کو اور اپنے دشمنوں کو اور ان ظاہری دشمنوں کے سوا اور دشمنوں کو بھی جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ ان کو جانتا ہے ان سب پر رعب ڈالتے رہو جس سے تمہاری ان پر دھاک بیٹھی رہے اور کسی طرح سے سر نہ اٹھائیں ایسی جنگی ضرورتیں چونکہ بدون مبلغات پوری ہونی مشکل ہیں اس لئے خوب جی کھول کر قومی چندہ کی ضرورت بھی پڑے تو خرچو اور سمجھو کہ جو کچھ تم اللہ کی راہ میں قومی فائدہ اور اسلامی ترقی کے لئے خرچو گے تم کو پورا دیا جائے گا اور کسی طرح سے تم کو نقصان نہ ہوگا اور اگر عین جنگ کے موقعہ پر وہ مخالف صلح کو جھکیں تو تو بھی اسے قبول کر کے اس کی طرف مائل ہوجایا کر تاکہ ناحق کی خونریزی نہ ہو کیونکہ جنگ و جدل بھی تو اسی لئے ہیں کہ یہ لوگ فساد کرتے ہیں پھر جب یہ فساد سے دست کش ہوں تو کیا ضرورت ہے پس تو صلح اختیار کر اور اصلی فتح یابی میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھ کیونکہ وہ سب کی سنتا اور جانتا ہے اور اگر یہ صلح کے بہانے سے تجھ کو دھوکا دینا چاہیں گے تو نہ دے سکیں گے کیونکہ اللہ تجھ کو کافی ہے اسی نے محض اپنی مدد اور مسلمانوں کی جمعیت کے ساتھ قوت دی ہے ایک زمانہ تھا کہ ایک بھی تیرا ساتھی نہ تھا اب یہ وقت ہے کہ سب تیرے تابع دار ہیں اور اپنی ذاتی کدورتوں کو بھی خیرباد کہے بیٹھے ہیں کیونکہ اسی اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں الفت پیدا کردی ہے جو تیری طاقت سے بالا تھی اس لئے اگر تو زمین کا کل مال بھی اس کوشش میں صرف کردیتا اور ان کو بطمع مال ایک دوسرے سے ملانا چاہتا تو بھی کبھی ان کے دلوں میں الفت پیدا کرسکتا لیکن اللہ نے ان کے دلوں میں الفت ڈالی ہے بے شک وہ سب پر غالب اور بڑا باحکمت ہے جو کام وہ کرنا چاہے کیا مجال کہ کوئی امر اسے مانع ہوسکے اس لئے تجھ سے پکار کر کہا جاتا ہے کہ اے نبی تجھے اور تیرے تابع دار مومنوں کو اللہ ہی کافی ہے اس کے ہوتے کسی کی کیا حاجت ” وہ کیا ہے جو نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ سے “