سورة الانفال - آیت 1

يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنفَالِ ۖ قُلِ الْأَنفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ ۖ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

لوگ آپ سے اموال غنیمت (1) کے بارے میں پوچھتے ہیں، آپ کہئے کہ اموال غنیمت اللہ اور رسول کے لیے ہیں، پس تم لوگ اللہ سے ڈرو، اور اپنے آپس کے تعلقات کو ٹھیک رکھو، اور اگر اہل ایمان ہو تو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(1۔40) اے رسول ! (علیہ السلام) مال غنیمت کا حکم تجھ سے پوچھتے ہیں شان نزول (یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَنْفَالِ) جنگ بدر چونکہ پہلی جنگ تھی اس سے پہلے کوئی لڑائی ایسی کامیابی سے نہ ہوئی تھی کہ مال غنیمت ہاتھ آیا ہوتا اس لئے اس کی تقسیم کے متعلق صحابہ میں تکرار ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے سوال ہوا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم کہ اس مال کو جو جنگ میں غالب کو مغلوب کی شکست کی حالت میں حاصل ہوتا ہے کس طرح تقسیم کریں تو ان سے کہہ دے کہ اصل میں مال غنیمت تو اللہ تعالیٰ کے حکم میں اور اللہ تعالیٰ کے اذن سے رسول کے قبضہ میں ہے پس تم اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو جس طرح وہ تم کو اس بارے میں حکم دے گا اسی پر تم نے عمل کرنا چنانچہ اس نے بتلایا ہے کہ مال غنیمت سے پانچواں حصہ نکال کر باقی لشکریوں پر بانٹ دو پس تم اسی طرح کرو اور آپس میں جھگڑا اور فساد نہ کرو بلکہ صلح سے رہو اور اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی تابعداری کرتے رہو اگر تم ایماندار ہو تو ایسا ہی کرو اس سے سرمو تفاوت نہ کرو کیونکہ ایماندار بس وہی لوگ ہیں جن کے دل اللہ تعالیٰ کے ذکر سے کانپ جاتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کا ذکر سن کر اس کی عظمت اور شہنشاہی کا تصور ان کے دلوں پر ایسا اثر کرتا ہے کہ دنیا کی کوئی چیز ان کی نظروں میں نہیں سماتی اور جب اللہ تعالیٰ کے حکم ان کو سنائے جاتے ہیں تو ان کا ایمان اور بھی تازگی میں بڑھتا ہے اور احکام الٰہی دل لگا کر سنتے اور پڑھتے ہیں اور بڑی بات ان میں یہ ہے کہ اپنے پروردگار واحد لاشریک ہی پر بھروسہ کرتے ہیں اور سوا اس کے اپنی حاجات طلبی میں کسی سے سروکار نہیں رکھتے یعنی وہ لوگ جو نماز پنجگانہ بروقت پابندی جماعت ادا کرتے ہیں اور ہمارے دئیے میں سے کچھ نہ کچھ تھوڑا بہت نیک کاموں میں فی سبیل اللہ تعالیٰ خرچ بھی کرتے ہیں سچ پوچھو تو یہی سچے مومن ہیں انہی کے لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں بلند درجے ہیں اور گناہوں پر بخشش اور عزت کی روزی مقرر ہے تم اللہ تعالیٰ کے وعدوں کی نسبت خلف کا ہرگز وہم نہ کیجئیو ضرور بالضرور پورے ہوں گے یَسْئَلُوْنَکَ اس حاشیے میں ہم جہاد کی مختصر سی تحقیق اور آنحضرت فداہ روحی علیہ افضل الصلوٰۃ والسلام کے غزوات کی مجمل تاریخ بتلائیں گے اور کسی قدر مخالفین اسلام اور سرسید احمد خان مرحوم کے شبہات کا جواب بھی دیں گے۔ جلد اول میں ہم بتلا آئے ہیں کہ جہاد بانی مبانی حقیقت میں مشرکین عرب اور ان کے مخلص دوست بلکہ بھائی بند یہود و نصاریٰ ہی تھے۔ جنہوں نے آنحضرت اور آپ کے خادموں کو ناحق از حد فزوں ایسی تکلیفیں دیں جن سے غیرت اللہ تعالیٰ کو جوش آیا تو اس نے مسلمانوں کو بھی ہاتھ اٹھانے کی اجازت بخشی چنانچہ اُذِن لِلَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا وَاَنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرٌ جن لوگوں (مسلمانوں) کو ہر طرف سے مارا جاتا ہے ان کو بھی بوجہ اس کے کہ وہ مظلوم ہیں مقابلہ کی اجازت دی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کی مدد پر قادر ہے۔ ان معنی کی طرف اشارہ بلکہ صراحت ہے۔ اس مضمون میں ہم بتلائیں گے کہ جہاد جس کو ہمارے مخالفوں نے ایک ھوَّا سمجھ رکھا ہے خود ان کی کتابوں میں بھی بکثرت پایا جاتا ہے بڑے بڑے اور سخت سے سخت مخالف اس جہاد کے دو گروہ ہیں عیسائی۔ آریہ عیسائیوں کی کتابوں میں جس قسم کے جہاد کا ذکر ہے اس کے مقابلہ میں اسلامی جہاد اللہ تعالیٰ کی رحمت اور سراسر نعمت عظمیٰ ہے غور سے پڑھو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کو خطاب کر کے فرمایا کہ اہل مدیان سے بنی اسرائیل کا انتقام لیں اور تو بعد اس کے اپنے لوگوں سے مل جائے گا تب موسیٰ نے لوگوں کو فرمایا کہ بعضے تم میں سے لڑائی کے لئے تیار ہوویں اور مدیانیوں کا سامنا کرنے جاویں تاکہ اللہ تعالیٰ کے لئے مدیان سے بدلہ لیں اسرائیل کے سب فرقوں میں سے ہر ایک فرقے پیچھے ہزار جنگ کرنے کو بھیجو۔ سو ہزاروں بنی اسرائیل میں سے ہر فرقے کے ایک ایک ہزار حاضر کئے گئے۔ یہ سب جو لڑائی کے لئے ہتھیار بند تھے بارہ ہزار ہوئے موسیٰ نے ان کو لڑائی پر بھیجا ایک ایک فرقہ کے پچھے ایک ہزار کو انہیں اور الیعزر کاہن کے بیٹے فیخاس کو پاک ظروف کے ساتھ بھیجا اور پھونکنے کے نرسنگے اس کے ہاتھ میں تھے اور انہوں نے مدیانیوں سے لڑائی کی جیسا اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کو فرمایا تھا اور سارے مردوں کو قتل کیا اور انہوں نے ان مقتولوں کے سوا ادی اور رقم اور صور اور ربع کو جو مدیان کے پانچ بادشاہ تھے جان سے مارا اور بعور کے بیٹے بلعام کو بھی تلوار سے قتل کیا اور بنی اسرائیل نے مدیان کی عورتوں اور ان کے بچوں کو اسیر کیا اور ان کے مواشی اور بھیڑ بکری اور مال و اسباب سب کچھ لوٹ لیا اور ان کے سارے شہروں کو جن میں وہ رہتے تھے اور ان کے سب قلعوں کو پھونک دیا اور انہوں نے ساری غنیمت اور سارے اسیر انسان اور حیوان لئے اور وہ قیدی اور غنیمت اور لوٹ موسیٰ اور الیعزر کاہن اور بنی اسرائیل کی ساری جماعت کے پاس خیمہ گاہ موآب کے میدانوں میں یرون کے کنارے جو یریحو کے مقابل ہے لائے۔ تب موسیٰ اور الیعزر کاہن اور جماعت کے سارے سردار ان کے استقبال کے لئے خیمہ گاہ سے باہر گئے اور موسیٰ لشکر کے رئیسوں پر اور ان پر جو ہزاروں کے سردار تھے اور ان پر سینکڑوں کے سردار تھے جو جنگ کر کے پھرے غصہ ہوا اور ان کو کہا کہ کیا تم نے سب عورتوں کو جیتا رکھا دیکھو یہ بلعام کے کہنے سے فغور کی بابت اللہ تعالیٰ کے آگے اسرائیل کے گنہگار ہونے کا باعث ہوئیں چنانچہ اللہ تعالیٰ کی جماعت میں وبا آئی۔ سو تم ان بچوں کو جتنے لڑکے ہیں سب کو قتل کرو اور ہر ایک عورت کو جو مرد کی صحبت سے واقف تھیں جان سے مارو۔ لیکن وہ لڑکیاں جو مرد کی صحبت سے واقف نہیں ہوئیں ان کو اپنے لئے زندہ رکھو اور تم سات دن تک خیمہ گاہ سے باہر رہو جس کسی نے آدمی کو مارا ہو اور جس کسی نے لاش کو چھوڑا ہو وہ آپ کو اور اپنے قیدیوں کو تیسرے دن اور ساتویں دن میں پاک کرے تم اپنے سب کپڑے اور سب چمڑے کے برتن اور سب بکری کے بالوں کی بنی ہوئی چیزیں اور کاٹھ کے سب برتن پاک کرو تب الیعزر کاہن نے ان سپاہیوں کو جو جنگ پر گئے تھے کہا کہ شریعت کا حکم اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کو فرمایا سو یہ ہے فقط سونا‘ روپا‘ پیتل‘ لوہا‘ رانگا‘ سیسہ اور وہ سب چیزیں جو آگ میں ڈالی جاتی ہیں تم انہیں آگ میں ڈالو اور وہ پاک ہوں گی پھر انہیں جدائی کے پانی سے بھی پاک کرو پھر وہ چیزیں جو آگ میں نہیں ڈالی جاتیں تم انہیں اس پانی میں ڈالو اور تم ساتویں دن اپنے کپڑے دھوئو بعد ازاں خیمہ گاہ میں داخل ہوئو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کو خطاب کر کے فرمایا کہ تو اور الیعزر کاہن اور جماعت کے سردار مل کے سارے انسان اور حیوانوں کا جو لوٹ میں آتے ہیں شمار کروائو اور لوٹ کر برابر تقسیم کر کے اوہا ملکر جنہوں نے اس جنگ کو اپنے ذمہ میں رکھا اور میدان بھی پکڑا اور اوہا ساری جماعت کو دے اور ان جنگی مردوں کو گئے تھے اللہ تعالیٰ کے لئے ایک حصہ لے ہر پانچسو جاندار پیچھے ایک جاندار خواہ انسان ہوں خواہے گائے بیل خواہے گدھے ہوں خواہ بھیڑ بکری۔ ان لوگوں کے آدھے سے لے اور الیعزر کاہن کو دے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے اٹھانے کی قربانی ہو اور بنی اسرائیل کے آدھے سے جو انہوں نے پایا کیا انسان کیا گائے بیل کیا گدھے کیا بھیڑ بکری یعنی سب اقسام جانوروں کی پچاس پچاس پیچھے ایک ایک لے اور انہیں لاویوں کو دے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مسکن کی محافظت کرتے ہیں۔“ (گنتی ٣١ باب ١ سے ٣٠ تک) اس کے علاوہ اور بھی کئی ایک مقام ہیں جو بخوف طوالت چھوڑ دیتے ہیں آریوں کے حال پر زیادہ افسوس ہے کیونکہ عیسائیوں نے تو توریت اور دیگر کتب عہد عتیق کو حضرت مسیح کے آنے سے متروک کردی ہے آریوں نے تو وید سے وہ برتائو نہیں کیا بلکہ یہ تو وید بھگوان کی منادی تمام دنیا میں کرنا چاہتے ہیں اور وید کے مقابلہ پر پرانوں وغیرہ متبرک کتب مذہب ہنود کو بے نقط سناتے ہیں اور وید پر ہی اطاعت منحصر رکھتے ہیں مگر عملی پہلو ان کا بھی وہی ہے جو ان کے استادوں (عیسائیوں) کا ہے۔ وید بھگوان اور دیگر کتب معتبرہ آریہ قوم بڑے زور سے جہاد کی تعلیم دیتی ہیں مال غنیمت کی تقسیم (جس کا اس آیت میں ذکر ہے) کی نسبت آریوں اور ہندوئوں کو وید کی پہلی ہدایت اسلحہ جنگ کی درستی کے متعلق ہے جو رگوید منڈل اول سوکت ٣٩ منتر ٢ میں مرقوم ہے۔ ” اے فرمانبردار لوگو ! تمہارے اسلحہ آتشیں وغیرہ از قسم توپ تفنگ تیر تلوار وغیرہ ششتر مخالفوں کو مغلوب کرنے اور ان کو روکنے کے لئے قابل تعریف اور باستحکام ہوں تمہاری فوج مستوجب توصیف ہوتا کہ تم لوگ ہمیشہ فتحیاب ہوتے رہو۔ “ ایک مقام پر دعایوں مرقوم ہے۔ ” میں اس محافظ کائنات صاحب جاہ و جلال نہایت زور آور اور فاتح کل کائنات کے راجا قادر مطلق اور سب کو قوت عطا کرنے والے پر میشور کو جس کے آگے تمام زبربہادر سراطاعت خم کرتے ہیں اور جو انصاف سے مخلوقات کی حفاظت کرنے والا اندر ہے ہر جنگ میں فتح پانے کے لئے مدعو کرتا ہوں اور پناہ لیتا ہوں۔ “ (یجر وید ادہیائے ٢٠ منتر ٥٠) ایک جگہ پر میشور دعا دیتا ہے۔ ” اے انسانو ! تمہارے ایدہ یعنی توپ بندوق وغیرہ آتشگیر اسلحہ اور تیر و کمان تلوار وغیرہ ہتھیار میری عنایت سے مضبوط اور فتح نصیب ہوں بدکردار دشمنوں کی شکست اور تمہاری فتح ہو تم مضبوط طاقتور اور کار نمایاں کرنے والے ہو تم دشمنوں کی فوج کو ہزیمت دے کر انہیں رو گردان وپسپا کرو۔ تمہاری فوج جرارو کارگزار اور نامی گرامی ہو تاکہ تمہاری عالمگیر حکومت روئے زمین پر قائم ہو اور تمہارا حریف ناہنجار شکست یاب ہو اور نیچا دیکھے (رگویدا سٹک اول ادہیا ٣ وردگ ١٨ منتر ٢) ایک جگہ فرمان ہے۔ اے دشمنوں کے مارنے والے اصول جنگ میں ماہر بے خوف و ہراس پر جاہ و جلال عزیزو اور جوانمردو ! تم ! سب رعایا کے لوگوں کو خوش رکھو پر میشر کے حکم پر چلو اور بدفرجام دشمن کو (ہے مہاراج ! اتنی خفگی) شکست دینے کے لئے لڑائی کا سامان کرو تم نے پہلے میدانوں میں دشمنوں کی فوج کو جیتا ہے تم نے حواس کو مغلوب اور روئے زمین کو فتح کیا ہے تم روئین تن اور فولاد بازو ہو اپنے زور شجاعت سے دشمنوں کو تہ تیغ کرو تاکہ تمہارے زور و بازو اور ایشور کے لطف و کرم سے تمہاری ہمیشہ فتح ہو۔“ (اتھروید کانڈ ٦۔ اور دگ ٩٧ منتر ٣) مال غنیمت کی تقسیم (جس کا اس آیت میں ذکر ہے) کی نسبت آریوں اور ہندوئوں کے مسلمہ پیشوا منوجی فرماتے ہیں۔ ”(راجہ) اس آئین کو کبھی نہ توڑے کہ لڑائی میں جس جس ملازم یا افسر نے جو جو گاڑی۔ گھوڑا۔ ہاتھی۔ چھتر۔ دولت۔ رسد گائے وغیرہ جانور نیز عورت اور دیگر قسم کا مال و متاع اور گھی و تیل کے کپے فتح کئے ہوں وہی اس کو لیوے لیکن فوج کے آدمی فتح کی ہوئی چیزوں میں سے سولہواں حصہ راجہ کو دیویں۔“ (منوا دھیائے ٧) یہ ہے دونوں قوموں کی مذہبی تعلیم اور اگر ان کا ذاتی عمل دیکھیں تو کوئی حد ہی نہیں۔ کون ہے جو یورپ کی جنگوں سے واقف نہیں کہ گیا رھویں صدی عیسوی میں صرف بیت المقدس کو مسلمانوں سے چھڑانے پر قریباً ساٹھ لاکھ جانیں ضائع کیں گذشتہ واقعات نہ سہی یورپ کی ١٩١٤ ء و ١٩١٩ ء کی جنگ عظیم تو ابھی کل کی بات ہے کون ہے جس نے آریہ قوم کی لڑائیاں نہ سنی ہوں مگر چونکہ ہمیں ان کے ذاتی عمل سے بحث نہیں بلکہ مذہبی تعلیم سے مقابلہ دکھانا ہے اس لئے ذاتی عمل کا ذکر نہیں۔ اصل یہ ہے کہ دشمن کی مدافعت اور اپنی ترقی انسان کی فطرت میں داخل ہے کوئی ایسا رحیم النفس اور کریم الاخلاق ہے؟ کہ زہریلے سانپ کو آتا دیکھ کر اور اس بات پر یقین ہو کر کہ یہ سانپ یقینا مجھے ضرر پہنچائے گا اس کا دفعیہ نہ کرے گو زبانی کہنے اور جی خوش کرنے کو تو بہت دفعہ آدمی کہا کرتا ہے کہ تو ” ظالم کا مقابلہ نہ کر بلکہ جو تیرے داھنے گال پر تماچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے جو کوئی تجھے ایک کوس بیگار لیجائے اس کے ساتھ دو کوس چلا جا“ (انجیل متی ٦ باب کی ٣٩) مگر عمل کرتے وقت ایسے شیریں کلاموں سے بجز رطب اللسان ہونے کے اور کچھ فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ قانون قدرت کا مقابلہ کرنا آسان کام نہیں جب کہ قدرت نے دشمن کی مدافعت انسان کی فطرت میں رکھی ہے تو کون ہے جو اسے بدل سکے۔ اس پر طرہ یہ کہ قرآن شریف پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ تلوار کے زور سے مسلمان بنانے کی تعلیم دیتا ہے حالانکہ کئی ایک آیتیں اس مضمون کی موجود ہیں کہ کفار سے باوجود مادہ شرارت ان میں موجود ہونے اور بہ قرائن تو یہ معلوم ہوجانے پر بھی جب تک دوبارہ فساد و شرارت ظاہر نہ ہو ان سے تعرض نہ کرو غور سے پڑھو۔ سَتَجِدُوْنَ اٰخَرِیْنَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَأْمَنُوْ کُم وَیَامَنُوا قَوْمَہُمْ کُلَّمَا رُدُّوْا اِلَی الفِتْنَۃِ اُرْکِسُوْا فِیْھَا فَاِنْ لَمْ یَعْتَزِلُوْ کُمْ وَیُلْقُوا اِلَیْکُمُ السَّلَمَ وَیَکُفُّوْا اَیْدِیَھُمْ فَخُذُوْھُمْ وَاقْتُلُوْھُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْھُمْ وَاُولٰئِکُمْ جَعَلْنَا لَکُمْ عَلَیْہِمْ سُلْطَانًا مُبِیْنًا ایسے لوگ بھی تم کو ملیں گے جن کی خواہش یہ ہوگی کہ تم سے بھی اور اپنی قوم سے بھی امن میں رہیں لیکن جب کبھی ان کو لڑائی پر تمہارے خلاف اکسایا جائے گا تو فوراً آمادہ ہوجائیں گے پس اگر وہ تم سے علیحدہ نہ رہیں اور تمہارے ساتھ صلح نہ رکھیں اور اپنے ہاتھ تم سے نہ روکیں تو ان کو پکڑو اور جہاں پائو ان کو قتل کرو ایسے ہی شریروں پر ہم تم کو غلبہ دیں گے۔ ١٢ منہ گویہ بہتان اس قابل ہی نہیں کہ اس کے دفعیہ کی کوشش کی جائے تاہم آیتہ مرقومہ بالا اس کی بیخ کنی اور اس کے بانیوں کی قلعی کھولنے کو کافی ہے اس لیے اس مضمون کے دوسرے حصے پر ہم آتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ عیہی وسلم کے مشہور غزوات (جنگوں) کا کسی قدر بیان کرتے ہیں۔ جنگ بدر :۔ اس لڑائی کا سبب حسب روایت امام بخاری و موافق بیان علامہ ابن خلدون وغیرہ یہ ہے کہ مکے والوں کا قافلہ جس میں تیس چالیس آدمی تھے شام کے ملک سے اسباب لے کر آرہا تھا جب اس کے آنے کی خبر مدینہ میں پہنچی تو چونکہ حربی تھے اور ہمیشہ برسر فساد رہتے تھے حسب قاعدہ جنگ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو روکنا چاہا چنانچہ تیاری کی تھی کہ قافلہ والوں کو بھی خبر پہنچ گئی انہوں نے ایک طرف تو ایک آدمی مکے والوں سے امداد مانگنے کے لئے بھیجا دوسری طرف سوچ بچار کر ایک مخفی راہ سے خفیہ خفیہ مسلمانوں سے بچ کر نکل گئے مکے والوں کی فوج جو قریب ایک ہزار کے ان کی امداد کو آئی تھی جن کا سپہ سالار خود ابوجہل رئیس مکہ تھا چونکہ جنگ کی تیاریاں کر کے مکہ سے نکلے تھے اس لیے ان کی غیرت اور اللہ تعالیٰ کی حکمت نے ان کو باوجود قافلہ کی سلامتی سے… پہنچ جانے کی خبر سن لینے کے واپس جانے کی اجازت نہ دی چنانچہ ایک مقام بدر پر دونوں (مکی۔ مدنی) فوجوں کا مقابلہ ٹھیر گیا۔ مکی فوج نہ صرف تعداد میں دگنی تگنی تھی بلکہ ساز و سامان میں بھی بڑھی ہوئی تھی۔ مگر مسلمانوں نے بھی بڑے حوصلہ سے مقابلہ کیا اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتے بھی اس جنگ میں مسلمانوں کی امداد کو اترے آخر کار اللہ تعالیٰ کے فضل سے کفار پر غالب آئے ستر آدمی ان کے مارے گئے اور ستر قید ہوئے جن میں حضرت عباس آنحضرت کے حقیقی چچا اور ابو العاص آپ کے داماد بھی تھے باقی فوج مشرکوں کی سب فرار ہوگئی ان گرفتاروں کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مشورہ لیا عموماً صحابہ کی رائے بدلہ لے کر چھوڑ دینے کی ہوئی سوائے حضرت عمر (رض) کے کہ انہوں نے نہایت زور سے درخواست کی کہ میرے رشتہ دار مجھے دے دیجئے میں ان کو قتل کر دوں۔ ابوبکر (رض) کے ابوبکر کو دے دیجئے علی (رض) کے علی کو۔ ان موذیوں نے ہماری ایذا رسانی میں کون سا دقیقہ اٹھا رکھا ہے کہ آئندہ کو ان سے خیر کی امید ہوسکتی ہے مگر چونکہ مسلمانوں کو روپیہ کی اشد ضرورت تھی اس لئے نقدی عوض بطور جرمانہ لے کر ان کو رہا کردیا گیا۔ حضرت عمر (رض) کی رائے تقدیر الٰہی کے موافق تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے عوض لینے پر ناراضگی فرمائی (کیونکہ جنگ میں خونریزی کافی ہوئی تھی) چنانچہ اسی سورت کے پانچویں رکوع میں اس کا ذکر آتا ہے۔ یہ واقعہ ماہ رمضان ٢ ہجری کا ہے ابوجہل بھی مع کئی ایک دوستوں کے اسی جنگ میں کام آیا۔ یہ تو مختصر سا اس کا تاریخی تذکرہ ہے مگر سر سید احمد خاں مرحوم نے اس بیان میں کئی حصوں میں اختلاف کیا ہے اول تو وہ اس جنگ کی یہ وجہ جو ہم نے بحوالہ امام بخاری اور علامہ ابن خلدون وغیرہ لکھی ہے نہیں مانتے دوئم وہ نزول ملائکہ سے بھی منکر ہیں۔ سوم وہ حضرت عمر (رض) کے قصے کو بھی جو اسیران جنگ سے متعلق ہے نہیں مانتے اس لئے ان تینوں مسئلوں پر ہم کسی قدر بحث کرتے ہیں۔ پہلے مسئلے کے متعلق سید صاحب لکھتے ہیں۔ ” تمام مسلمان مؤرخوں کا جن کی عادت میں داخل ہے کہ بلاسند روایتوں اور غلط اور صحیح افواہوں کو بلا تصحیح و تنقید اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں اور انہیں پر بنا واقعات قائم کرتے ہیں یہ قول ہے کہ آنحضرت اور ان کے صحابہ نے یہ بات خیال کر کے کہ ابی سفیان کے ساتھ قافلہ میں لوگ بہت تھوڑے ہیں اور مال بہت زیادہ ہے لوٹ لینے کا ارادہ کیا تھا اور اسی وجہ سے کوچ کیا اس کی خبر جب قریش مکہ کو پہنچی تو انہوں نے نفیر عام کی اور قافلہ کے بچانے کو نکلے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ قریش کے ساتھ لڑنے اور ان کے قافلہ کو لوٹنے کا قصد اول آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کیا۔ اور اس کے دفع کرنے کو قریش بقصد لڑائی نکلے۔ ان مسلمان مورخوں کی نادانی اور غلطی سے مخالفین مذہب اسلام کو آنحضرت صلعم اور صحابہ کی نسبت قافلوں کے لوٹنے کا جو پیغمبری کی شان کے شایاں نہیں ہے اور بلاسبب لڑائی کی ابتدا کرنے کے الزام لگانے کا موقعہ ہاتھ آیا اور بہت زور و شور سے ان الزاموں کو قائم کیا ہے۔ مگر درحقیقت یہ الزام محض غلط اور بے بنیاد ہیں اور وہ حدیثیں اور روایتیں جن کی بنا پر وہ الزام قائم کئے ہیں از سر تا پا غلط اور غیر مستند ہیں۔ قرآن مجید میں یہ واقعہ تو نہایت صفائی سے مندرج ہے اور اس میں صاف بیان ہوا ہے کہ کس گروہ کے مقابلہ میں آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مقابلہ کے قصد سے کوچ فرمایا تھا آیا قافلہ لوٹنے کے ارادہ سے یا اس گروہ کے مقابلہ کے لئے جن کو قریش مکہ نے لڑنے کے ارادہ سے جمع کر کے کوچ کیا تھا اور آنحضرت صلعم کا کوچ فرمانا قریش مکہ کے کوچ کرنے کے بعد ہوا تھا یا اس کے قبل ہوا تھا۔ (تفسیر جلد چہارم ص ٣۔ ٤) سید صاحب کی منقولہ بالا تحریر میں جیسے کل محدثین اور مورخین اسلام سے ان کا اختلاف معلوم ہوتا ہے اس اختلاف کی وجہ بھی صاف مفہوم ہوتی ہے کہ آپ کو مخالفین اسلام کے الزاموں سے بے چینی اور گھبراہٹ ہو رہی ہے جس گھبراہٹ کا علاج انہوں نے اسی میں سمجھا کہ ان واقعات کا سرے سے انکار ہی کیا جائے اس لئے ہمارے نزدیک سید صاحب کی نیت صحیح ہے اور فعل غلط۔ ہم نے اس اعتراض کا جواب دے دیا ہے۔ چونکہ قریش مکہ حربی تھے یعنی آنحضرت (علیہ السلام) سے ان کی جنگ بدستور قائم تھی اور کوئی باقاعدہ صلح نہ ہوچکی تھی چنانچہ اس جنگ (بدر) سے پہلے کئی ایک چھوٹی چھوٹی لڑائیاں ان کی ہوچکی تھیں جن کا ذکر سید صاحب نے بھی جلد چہارم ص ٧٠ سے ص ٧٢ تک کیا ہے تو ایسے لوگوں کا مال و اسباب چھین لینا یا ان پر لوٹ ڈالنی کسی شرعی حکم اور قاعدہ جنگ کے خلاف نہیں سید صاحب کے خلاف ہو تو ہو اور تو نہ کسی اہل مذہب کے خلاف ہے اور نہ کسی متمدا نہ قوم کے مخالف۔ کیا یورپ کی جنگ عظیم میں کوئی فریق کسی فریق کے اسباب چھیننے یا لوٹنے سے رکتا اور دریغ کرتا تھا؟ پس اسی قاعدہ پر کفار قریش اور آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا معاملہ ہے کوئی گھبراہٹ اور بے چینی کی بات نہیں صرف سید صاحب کی دور اندیشی ہے ہاں اگر دشمنوں کے مال پر کسی طرح بوقت غلبہ بھی تصرف کرنا منع ہے پھر تو فیصلہ ہی آسان ہے مگر اسے تو سید صاحب بھی مانتے نہیں چنانچہ آپ نے بھی صفحہ ٩ پر مال غنیمت کی تقسیم بتلائی ہے اور قرآن شریف کی نص ! وَاعْلَمُوْا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَیئٍ فَاِنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہٗ وَلِلْرَّسُوْلِ۔ الایۃ موجود ہے۔ دوسرے امر (نزول ملائکہ سے انکار) کے متعلق آپ فرماتے ہیں : ” ہمارے نزدیک نہ ان لڑائیوں میں ایسے فرشتے جن کو لوگ ایک مخلوق جداگانہ اور متحیر بالذات مانتے ہیں آئے تھے اور نہ اللہ تعالیٰ نے ایسے فرشتوں کو بھیجنے کا وعدہ کیا تھا اور نہ قرآن مجید سے ایسے فرشتوں کا آنا یا اللہ تعالیٰ کا ایسے فرشتوں کے بھیجنے کا وعدہ کرنا پایا جاتا ہے اگر ہم حقیقت ملائکہ کی بحث کو الگ رکھیں اور فرشتوں کو ویسا ہی فرض کرلیں جیسا کہ لوگ مانتے ہیں تو بھی قرآن مجید سے ان کا فی الواقع آنا یا لڑائی میں شریک ہونا ثابت نہیں ہے۔ سورۃ آل عمران کی پہلی آیت میں تو صرف استفہام ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ تین ہزار فرشتوں سے مدد کرے تو کیا تم کو کافی نہ ہوگا اور دوسری آیت میں ہے کہ اگر تم لڑائی میں صبر کرو گے تو اللہ تعالیٰ پانچ ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا۔ مگر ان دونوں آیتوں سے اس کا وقوع یعنی فرشتوں کا آنا کسی طرح ظاہر نہیں ہوتا۔ سورۃ انفال کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے کہا کہ میں تمہاری ہزار فرشتوں سے مدد کروں گا مگر اس سے بھی فرشتوں کا فی الواقع آنا نہیں پایا جاتا اس پر یہ خیال کرنا کہ اگر مدد موعودہ وقوع میں نہ آئی ہو تو اللہ تعالیٰ کی نسبت خلف وعدہ کا الزام آتا ہے صحیح نہیں ہے کیونکہ مدد کی حاجت باقی نہ رہنے سے مدد کا وقوع میں نہ آنا خلف وعدہ نہیں ہے۔ مسلمانوں کی اللہ تعالیٰ کی عنایت سے فتح ہوگئی تھی اور فرشتوں کو تکلیف دینے کی (کیا فرشتے بھی آپ ١ ؎ کی طرح عمر رسیدہ ہیں کہ ان کو حرکت کرنے میں تکلیف ہوتی ہے) حاجت باقی نہیں رہی تھی یہ کہنا کہ وہ فتح فرشتوں کے آنے سبب سے ہوئی تھی اس لیے صحیح نہیں ہے کہ اس کے لئے اول قرآن مجید سے فرشتوں کا آنا ثابت کرنا چاہئے اس کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ فرشتوں کے آنے سے فتح ہوئی تھی روایتوں کو فرشتوں کے آنے پر سند لانی کافی نہیں ہے اول تو وہ روایتیں ہی معتبر اور قابل استناد نہیں ہیں۔ (گو صحیح بخاری کی روایت بھی ہو جس کو اسی جلد کے ص ٨٣ پر سب سے زیادہ معتبر کہہ چکے ہیں) دوسرے خود ان کے مضمون ایسے بے سر و پا ہیں جن سے کسی امر کا ثبوت حاصل نہیں ہوسکتا خصوصاً اس وجہ سے کہ خود راوی فرشتوں کو دیکھتے نہیں تھے۔“ (تفسیر جلد ٤ ص ١١۔ ١٢) بے شک سید صاحب کا یہ قول صحیح ہے کہ اول قرآن مجید سے فرشتوں کا آنا ثابت کرنا چاہئے کہ پہلے ہم قرآن شریف سے نزول ملائکہ کا ثبوت دیں مگر قرآن شریف سے نزول ملائکہ کا ثبوت دینا ایسا مشکل نہیں ہے جیسے کہ سید صاحب کے اس پر دستخط کرانے مشکل ہیں پس سید صاحب کے دوست اور ہمارے ناظرین اگر دوسرے کام کی ہمیں تکلیف نہ دیں تو پہلے کے لئے ہم حاضر ہیں۔ سورۃ انفال کی آیت کا مضمون ہے کہ اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ اِنِّی مُمِدُّکُمْ بِاَلْفٍ مِنَ المَلَائِکَۃِ مُرْدِفِیْنَ جس وقت تم اپنے پروردگار سے فریاد کرتے تھے تو اس نے تمہاری دعا کو بدیں مضمون قبول فرمایا کہ میں ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کرنے کو ہوں۔ اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس جنگ اور گھبراہٹ کے متعلق آنحضرت اور مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ سے فریاد کی تھی اسی جنگ میں مدد بھیجنے کا وعدہ کیا تھا جو بحکم اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُخْلِفُ المِیْعَاد پوری بھی ہوئی ہوگی اس پر سید صاحب کا یہ عذر کرنا کہ مدد کی حاجت باقی نہ رہنے سے رد کا وقوع میں نہ آنا خلاف وعدہ نہیں ہے۔“ ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔ کیونکہ جس جنگ میں آنحضرت نے جناب باری میں بالحاح وزاری (جیسا کہ بخاری و مسلم وغیرہ کتب احادیث و تاریخ میں موجود ہے) دعا کی تھی اس میں بے سروسامانی کی یہ حالت تھی کہ پانی تک بھی دشمنوں کے قبضہ میں تھا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منہ سے یہ الفاظ بھی نکل گئے تھے کہ اللھم ان شئت لم تعبد (یا اللہ تعالیٰ اگر تیری یہی مرضی ہے کہ مسلمان یہاں اس بے سروسامانی میں ہلاک ہوں تو تیری خالص عبادت دنیا میں نہ کی جائے گی‘ پھر کس ذریعہ اور کس وجہ سے ان کو مدد کی ضرورت نہ ر ہی تھی کہ خلف وعدہ کا الزام نہ ہو حالانکہ برابر فتح کے ظہور پذیر ہونے تک یہی حالت رہی تھی۔ دوسری آیت اس سے بھی واضح تر ہے جس کا مضمون ہے کہ اِذْ یُوْحِیْ رَبُّکَ اِلَی الْمَلٰئِکَۃِ اَنِّیْ مَعَکُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَااُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الرُّغْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَاضْرِبُوْا مِنْہُمْ کُلَّ بَنَانٍ۔ (انفال ع ٢) اللہ تعالیٰ فرشتوں کو الہام کرتا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں پس تم مسلمانوں کو لڑائی پر مضبوط رکھو میں کافروں کے دلوں میں رعب ڈالوں گا پس تم ان کی گردنوں کو مارنا اور ان کے ہر ایک جوڑ پر ضرب لگانا۔ یہ آیت بھی اپنے مضمون میں صاف ہے کہ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا کہ مسلمانوں کی دلجمعی کرو اور کافروں کی گردنیں اڑائو مگر سید صاحب نے اسے بھی دودھ کی کھیر کی طرح ٹیڑھا بنا دیا ہے آپ فرماتے ہیں : فتح کے اتفاقی اسباب سے جو بعض اوقات آفات ارضی و سماوی کے دفعتہ ظہور میں آنے سے ہوتے ہیں قطع نظر کر کے دیکھا جائے کہ ان لوگوں پر کیا کیفیت طاری ہوتی ہے جو فتح پاتے ہیں ان کے قویٰ اندرونی جوش میں آتے ہیں۔ جرأت‘ ہمت، صبر، شجاعت، استقلال، بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے اور یہی قویٰ اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ فتح مندوں کو فتح دیتا ہے اور اس کے برخلاف حالت یعنی بزدلی اور رعب ان لوگوں پر طاری ہوتا ہے جن کی شکست ہوتی ہے پس ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا کہ میں فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا مگر وہ بجز خوشخبری فتح کے اور کچھ نہیں ہے جس کے سبب تم میں ایسے قویٰ برانگیختہ ہوں گے جو فتح کے باعث ہوں گے تمہارے دل قوی ہوجاویں گے لڑائی میں تم ثابت قدم ہو گے۔ جرأت۔ ہمت۔ شجاعت کا جوش تم میں پیدا ہوگا اور دشمنوں پر فتح پائو گے یہ معنی ان آیتوں کے ہم نے پیدا نہیں کئے ہیں بلکہ خود اللہ تعالیٰ نے یہی تفسیر اپنے کلام کی کی ہے جہاں اسی سورت میں اور اسی واقعہ کی نسبت فرماتا ہے اِذْ یُوْحِیْ رَبُّکَ اِلَی الْمَلٰئِکَۃِ اَنِّیْ مَعَکُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَالْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الرُّغْبَ یعنی جب تیرا پروردگار فرشتوں کو وحی بھیجتا تھا (یہ وہی فرشتے ہیں جن کے بھیجنے کا مدد کے لئے وعدہ کیا تھا) کہ میں تمہارے (یعنی مسلمانوں کے) ساتھ ہوں (تو ان فرشتوں سے یہ کام لینے چاہے تھے) کہ ثابت قدم رکھو ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں میں بہت جلد ان لوگوں کے دلوں میں جو کافر ہیں رعب ڈالوں گا۔ لڑائی میں ثابت قدم رکھنے والی کون چیز تھی وہی ان کی جرأت اور ہمت تھی کوئی اور شخص ان کے پاس کھڑے ہوئے شاباش شاباش نہیں کہہ رہے تھے پس ظاہر ہے کہ فرشتوں سے مراد ہی قویٰ انسانی تھے جنکے پاس وحی بھیجی تھی اور جو لڑنے والوں میں موجود تھے (تفسیر جلد ٤ ص ١٣۔ ١٤) اصل یہ ہے کہ سید صاحب چونکہ وجود خارجی ملائکہ سے منکر ہیں یعنی ان کو متخیر بالذات نہیں مانتے اس لئے جہاں کہیں کوئی ایسا کام ملائکہ کی طرف منسوب ہوتا ہے وہاں پر وہ بپابندی اصول خود مجبور ہیں پس اصل بحث اس امر پر نہیں کہ فرشتے جنگ بدر میں آئے تھے یا نہ بلکہ اس امر پر ہے کہ فرشتوں کا کوئی وجود خارجی ہے کہ نہیں کیونکہ فرشتوں کا نزول تو سر سید کو قبول ہے لیکن انکے نزدیک فرشتے انسانی قوی کے نام ہیں اور بس۔ پس اس مسئلہ کی تحقیق کے لئے ہم اپنے ناظرین کو جلد اول تفسیر ثنائی کا حوالہ دیتے ہیں جہاں وجود ملائکہ پر بحث ہوچکی ہے۔ ہاں سورۃ آل عمران کی آیت کے جو معنی سید صاحب نے بتائے ہیں وہ ضرور قابل بیان ہیں آیت کا مضمون ہے کہ اَلَنْ یَّکْفِیَکُمْ اَنْ یُّمِدَّکُمْ رَبَّکُمْ بِثَلاَثۃِ اٰلاٰفٍ مِّنَ الْمَلٰئِکَۃِ مُنْزَلِیْنَ۔ (ال عمران ع ١٣) کیا تم کو کافی نہیں کہ اللہ تعالیٰ تین ہزار اتارے ہوئے فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا یعنی اللہ تعالیٰ پیغمبر کے کلام کو نقل کرتا ہے کہ جب یہ کہتا تھا جس سے صاف سمجھ آتا ہے کہ فرشتوں کا تقرر ہوچکا تھا جس کا ذکر رسول اللہ تعالیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فوج میں کر رہے تھے مگر سید صاحب فرماتے ہیں کہ : ” سورۃ آل عمران میں آیت میں تو صرف استفہام ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ تین ہزار فرشتوں سے مدد کرے تو کیا تم کو کافی نہ ہوگا۔“ (جلد چہارم۔ ص ١١) غور کیجئے سید صاحب نے اس میں کیا غضب کیا ایک تو قطعی امداد کو ” اگر“ لگا کر شکی بنا دیا حالانکہ استفہام صرف کفائت سے متعلق تھا نہ کہ امداد سے دوم یہ کیا عذر کہ آیت میں صرف استفہام ہے۔ کیا استفہام تقریری حکم قضیہ تبیہ کا نہیں رکھتا کیا اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ اور اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ اور اَلَیْسَ اللّٰہُ بِعَزِیْزٍ ذِی انْتِقَامٍ اور اَلَیْسَ ذٰلِکَ بِقَادِرٍ عَلٰی اَنْ یُّحْیِیَ الْمَوْتٰی وغیرہ بھی اسی طرح قابل توجہ نہیں کہ ان آیتوں میں یہی صرف استفہام ہے جس سے یہ سمجھ میں نہیں آتا؟ کہ اللہ تعالیٰ واقعی اپنے بندوں کو کافی ہے یا واقعی وہ سب کا رب ہے یا واقعی وہ غالب ذوالانتقام ہے یا واقعی وہ مردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہے وغیرہ اگر ان آیتوں سے یہ مضمون ثابت نہیں ہوتے تو ہم بھی قائل ہوئے کہ آیت زیر بحث سے فرشتوں کا مسلمانوں کی امداد کے لئے آنا ثابت نہیں ہوتا ہٹ چھوڑئیے بس اب سر انصاف آئے ر انکار ہی رہے گا میری جان کب تلک سید صاحب نے ضمیر ما جعلہ اللہ تعالیٰ پر بھی بحث کی ہے اور تابمقدور اپنے مفید مطلب بنانا چاہا ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں۔ ” برخلاف اس کے قرآن مجید سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی ایک فرشتہ بھی نہیں آیا تھا (سید صاحب ! فرشتوں کا نزول تو آپ ص ١٢ و ١٤ پر مانتے ہیں صرف کیفیت میں کلام ہے پھر یہاں پر سرے سے جواب کیوں دیتے ہیں) دونوں سورتوں میں اس آیت کے بعد جس میں فرشتوں کے بھیجنے کو کہا ہے یہ آیت ہے وَمَا جَعَلَہُ اللّٰہُ الاَّ بُشْرٰی لَکُمْ وَلِتَطْمَئِنَّ قُلُوْبُکُمْ وَمَا النَّصْرُ الاَّ مِنْ عِنْدِاللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ یعنی اور نہیں کیا اس کو اللہ تعالیٰ نے مگر خوشخبری تمہارے لئے تاکہ مطمئن ہوجائیں اس سے تمہارے دل اور فتح نہیں ہے مگر اللہ تعالیٰ کے پاس سے بیشک اللہ تعالیٰ غالب ہے حکمت والا۔“ یہ بات غور کے لائق ہے کہ وما جعلہ اللہ تعالیٰ میں جو ضمیر ہے وہ کس کی طرف راجع ہے امام رازی صاحب فرماتے ہیں کہ ضمیر راجع ہے طرف مصدر کے جو صریحاً مذکور نہیں ہے مگر لفظ یمدکم میں ضمنا داخل ہے یعنی ماجعل اللہ تعالیٰ الامداد الا بشری اور زجاج کا قول ہے کہ ما جعلہ اللہ تعالیٰ ای ذکر المدود الا بشری مگر امام رازی صاحب نے جو فرمایا ہے وہ ٹھیک نہیں معلوم ہوتا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے کہا تھا کہ میں تمہاری فرشتوں سے مدد کروں گا پھر فرمایا کہ وہ یعنی یہ کہنا کہ میں فرشتوں سے مدد کروں گا صرف خوشخبری تھی پس علانہا سیاق عبارت سے ظاہر ہے کہ ماجعلہ کی ضمیر قول امداد و ذکر امداد کی طرف راجع ہے جیسا کہ زجاج کا قول ہے نہ بطرف مصدر کے جو مذکور بھی نہیں ہے البتہ اس صریح و صاف مرجع ضمیر کو چھوڑ کر مصدر کی طرف اس صورت میں ضمیر راجع ہوسکتی ہے کہ اول وقوع اس مدد کا یعنی فرشتوں کا آنا ثابت ہوجائے اور وہ ابھی تک ثابت نہیں ہوا۔ (ہم تو کر آئے) اس لئے مصدر کی طرف ضمیر کا راجع کرنا ٹھیک نہیں ہے ” ماجعلہ“ میں ” ما“ نافیہ ہے جو عام طور پر نفی کرتا ہے اس لئے سورۃ آل عمران کی آیت کے صاف معنے یہ ہیں کہ نہیں کیا اللہ تعالیٰ نے پغمبر کے اس قول کو کہ کیا تمہارے لئے کافی نہیں ہے کہ تمہارے پروردگار فرشتوں سے مدد کرے کوئی چیز مگر بشارت یعنی صرف بشارت تاکہ تمہارے دل مطمئن ہوجائیں اور سورۃ انفال کی آیت کے صاف معنی یہ ہیں کہ جب تم نے اللہ تعالیٰ سے فریاد کی اور اس نے تمہارے فریاد کو قبول کیا کہ میں فرشتوں سے تمہاری مدد کروں گا تو نہیں کیا اللہ تعالیٰ نے اس قبول کرنے کو جس کے ساتھ فرشتوں سے مدد دینے کو کہا تھا کوئی چیز مگر بشارت تاکہ تمہارے دل مطمئن ہوجائیں اور یہ طرز کلام قطعاً اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ کوئی ایسا فرشتہ جیسا کہ لوگ خیال کرتے ہیں لڑائی کے میدان میں نہیں آیا تھا“ (جلد چہارم ص ١٢۔ ١٣) گو مطلب بالکل صاف ہے مگر سید صاحب نے ناحق اسے طول دے کر وقت ضائع کیا زجاج کا قول بھی جو آپ کا مسلمہ ہے بجائے خود صحیح ہے اگر اس پر بھی بنا کریں تو کوئی شبہ نہیں ہوسکتا چنانچہ آپ نے بیک اس پر کوئی شبہ نہیں کیا بلکہ تسلیم کیا ہے اور اگر انزال الملائکہ کی طرف بھی جو مُنَزلِیْن سے مستنبط ہوتا ضمیر راجع کی جائے تو کیا حرج ہے معنی آیت کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کا بھیجنا یا (بقول آپ کے) بذریعہ ملائکہ تمہاری مدد کرنا محض تمہاری تسکین خاطر کو کیا تھا ورنہ مدد اور نصرت تو اللہ تعالیٰ غالب کے پاس سے ہے جن کو چاہے فتح دے چاہے وہ تھوڑے ہی ہوں بیشک ہم مانتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو بغیر فرشتوں کے بھی مسلمانوں کو فتح دیتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ چاہتا تو ہر ایک گائوں میں ایک ایک نبی بھیج دیتا مگر اس سے یہ لازم نہیں کہ محمد رسول اللہ تعالیٰ صلی اللہ تعالیٰ عل ہے وسلم جو سب جہان کے لئے نبی ہونے کے مدعی ہیں معاذ اللہ تعالیٰ ان کا دعوی صحیح نہیں اسی پر کیا منحصر ہے جو کلام اللہ تعالیٰ کرتا ہے اگر چاہتا تو اور طرح سے بھی یہ مفاد ہم کو دے سکتا تھا۔ تو کیا اس سے ان طرق مفیدہ سے ہی انکار کردیں۔ فافہم تیسرے امر یعنی اسیران جنگ کی نسبت سید صاحب لکھتے ہیں : ” ان قیدیوں کی نسبت آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ سے مشورہ کیا کہ کیا کیا جائے حضرت عمر اور سعد بن معاذ نے رائے دی کہ سب کو قتل کرنا چاہئے حضرت ابوبکر نے کہا کہ فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے چنانچہ فدیہ لے کر چھوڑ دیا گیا۔ فدیہ لینے پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ناراضگی ظاہر کی کیونکہ وہ لوگ بغیر لڑنے کے پکڑے گئے تھے اور اس لئے لڑائی کے قیدی جن سے فدیہ لیا جاسکتا ہے نہیں تھے اس پر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَمَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗ اَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ جن لوگوں کی یہ رائے ہے کہ ان کے قتل نہ کرنے پر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہوئی تھی وہ کسی طرح پر صحیح نہیں ہوسکتی اس لئے اللہ تعالیٰ نے جب ان کا قیدی جنگ ہونا ہی نہیں قرار دیا تو ان کے قتل نہ کرنے پر کیونکر ناراضگی ہوسکتی تھی۔“ (جلد چہارم ص ٤١) سید صاحب کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ پکڑے گئے تھے وہ لڑائی کے قیدی نہ تھے کیونکہ وہ میدان جنگ میں نہ آئے تھے بلکہ بھاگتے ہوئے پکڑے گئے تھے جس کا ثبوت سید صاحب کے ذہن کے سوا کہیں نہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس مقام پر آئتیں اور روایتیں جن میں اس قصہ کا ذکر ہے (جن کو سید صاحب نے بھی نقل کیا ہے مگر بقول آوہا تیتر آوہا بٹیر اوہوری چھوڑ دی ہیں) پوری نقل کر کے ان کے معنے بیان کردیں ان کے معنے بتلانے ہی سے سید صاحب سے ہمارا تصفیہ ہوجائے گا۔ ایک مقام پر اسیران جنگ کی نسبت ارشاد ہے کہ حَتّٰی اِذَا اثْخَنْتُمُوْھُمْ فَشُدُّ وْالوَثَاقَ فَاِمَّا مَنَّا بَعْدُ وَاِمَّا فِدَآئً جب تم خونریزی کرچکو تو ان کو مضبوطی سے قید کرلو بعد ازاں کیا تو تم احسان کر کے انہیں چھوڑ دو یا ان سے عوض مالی لے لیا کرو۔ غرض جیسا مناسب سمجھو کرو۔ اس آیت میں جس کے متعلق یہاں ذکر ہے۔ یوں ارشاد ہے کہ مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَکُوْنَ لَہٗ اُسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الاَرْضِ نبی جب تک اچھی طرح خونریزی نہ کرچکے اس کو قیدیوں کا رکھنا جائز نہیں۔ وہ روایت جس کو سید صاحب نے نقل کیا جس میں حضرت عمر کے مشورہ کا ذکر ہے اس میں یہ لفظ بھی ہیں کہ ونزل القران بقول عمر و ما کان لنبی ان یکون لہ اسری حتی یتخن فی الارض الی اخر الایۃ (ترمذی) یعنی قرآن میں حضرت عمر کی رائے کے موافق یہ آیت اتری جو اوپر لکھی ہے پس روایت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آیت موصوفہ کے ایسے معنے ہونے چاہئیں جو حضرت عمر کے مشورہ کے موافق ہوں یعنی وہ مستحق قتل تھے جن کو قتل نہ کرنے پر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہوئی ہاں اس میں شک نہیں کہ ان معنی سے پہلی آیت جس کو ہم نے نقل کیا ہے جس میں اسیران جنگ کی بابت صرف احسان یا فدیہ کا ذکر ہے بظاہر مخالف ہے کیونکہ اس میں قتل کی کوئی صورت نہیں بتلائی گئی تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسیران جنگ دو قسم ہوتے ہیں ایک وہ جو لڑتے ہوئے سفید جھنڈا صلح کا کھڑا کردیتے ہیں اور ہتھیار ڈال دیتے ہیں ایسے قیدیوں سے وہی سلوک ہونا چاہئے جو آیت اول میں بیان ہوا ہے قسم دوم وہ قیدی ہوتے ہیں جو صلح کی درخواست نہیں کرتے اور نہ ہی ہتھیار ڈالتے ہیں مگر گھیرے میں آ کر پکڑے جاتے ہیں ان کا حکم دوسری آیت کے مطابق قتل ہے۔ تیسری آیت ان معنی کی تفسیر کرتی ہے جس میں ارشاد ہے کہ وَاِنْ جَنَحُوْ الِلْسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَھَا ” اگر کافر صلح کو جھکیں تو تم بھی جھک جائو۔ “ کیونکہ قسم اول کے قیدی گو بظاہر قیدی ہیں لیکن حقیقت میں ہتھیار ڈالنے سے وہ صلح کے طالب ہیں گو ان کے افسر یا حکومت نے صلح نہیں چاہی مگر خود ان کی صلح خواہی میں تو شک نہیں اس لئے ان کو قتل کرنا گویا مصالحین کو قتل کرنا ہے جو کسی طرح جائز نہیں اور قسم دوم کے قیدی ایسے نہیں بلکہ تا مواخذہ برسر قتال ہیں اس لئے ان کے برابر نہیں ہوسکتے جو ہتھیار ڈال کر طالب صلح ہوں بدر میں جو لوگ قیدی ہو کر آئے تھے وہ قسم دوم سے تھے یہی وجہ تھی کہ کسی صحابی نے حضرت عمر کے مقابل پر آیت اولیٰ پڑھ کر قائل نہیں کیا۔ پس جو شبہ سید صاحب کو اسیران جنگ کے واجب القتل ہونے پر تھا کہ آیت اولیٰ کے خلاف ہے گویا انہوں نے ظاہر لفظوں میں اس کا اظہار نہیں کیا ہماری تقریر سے دور ہوگیا۔ نیز آیتوں اور روایتوں میں بفضلہ تعالیٰ تطبیق بھی ہوگئی جو بظاہر مشکل تھی۔ فالحمدللہ غزوہ احد :۔ دوسری مشہور جنگ آنحضرت سے شوال ٣ ہجری میں جس کا نام جنگ احد ہے مدینہ سے باہر احد ایک پہاڑی ہے قریش مکہ بدر کی شکست کا عوض لینے کو تین ہزار جرار فوج لے کر بسر کردگی ابوسفیان مدینہ پر حملہ آور ہوئے ادھر سے اسلامی فوج جو ہزار سے بھی کم تھی مدینہ سے باہر احد کے پاس ان سے مقابل ہوئی اللہ تعالیٰ کے ارادہ سے مسلمانوں کو فتح ہوئی مگر ذرا سی غلطی سے وہ فتح فوراً منقلب ہوگئی۔ مسلمان کفار کو بھاگتے ہوئے دیکھ کر مال غنیمت کے جمع کرنے میں مصروف ہوگئے۔ ادھر کفار نے ان کی مصروفیت سے فائدہ اٹھایا کہ فوراً لوٹ کر حملہ کردیا مسلمانوں کو سخت تکلیف ہوئی آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دانت مبارک شہید ہوئے آپ گڑھے میں گر گئے مگر ثبات قدمی جو قومی شرافت کے علاوہ لازمہ نبوت تھا اس وقت بھی برابر جلوہ گر تھا کہ آپ کو ذرہ لغزش نہ تھی بلکہ بالکل اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ تھا اور یقین تھا کہ ہماری ہی فتح ہوگی اسی جنگ میں آنحضرت کی وفات کی خبر بھی مشہور ہوگئی جس پر صحابہ کو سخت رنج ہوا اور قریب قریب تمام منتشر ہوگئے آخر بعد تحقیق خبر کے پھر جمع ہوگئے اسی اثنا میں مسلمان جمع ہو کر مشورہ کر رہے تھے کہ ابوسفیان نے بلند آواز سے پکارا کہ ابوبکر زندہ ہے؟ عمر ابن الخطاب زندہ ہے؟ جواب میں ذرہ دیر ہوئی تو یہ کہہ کر کہ سب مر گئے کہنے لگا اُعْلُ ھُبَل اُعْلُ ھبل (اے ھُبَلْ (بت کا نام ہے) تو بلند ہو کہ تیرے دشمن مر گئے اس پر آپ کے حکم سے حضرت عمر نے پکارا کہ اللّٰہُ اَعْلٰی وَاَجَلُّ اللّٰہُ اَعْلٰے وَاَجَلُّ (اللہ تعالیٰ ہی بلند اور بزرگ ہے) پھر ابوسفیان نے پکارا اِنَّ العُزّٰی لَنَا وَلاَ عُزّٰی لَکُمْ (عزی بت ہمارا مددگار ہے اور تمہارا کوئی عزی نہیں) اس کا جواب بھی بحکم نبوی اس کو دیا گیا کہ اللّٰہُ مَوْلٰی لَنَا وَلاَ مَوْلٰی لَکُمْ (اللہ تعالیٰ ہمارا والی اور مددگار ہے اور تمہارا کوئی مددگار نہیں) غرض اسی طرح کے سوال و جواب ہوتے رہے مگر کسی فریق نے بڑھ کر دوسرے پر حملہ نہ کیا آخر قریش عرب اسی پر قناعت کر کے واپس چلے گئے راہ میں جا کر ایک تجویز سوچی کہ ایک آدمی کو مدینہ بھیج کر یہ مشہور کریں کہ قریش کی فوج بے حد جمع ہو رہی ہے بہتر ہے کہ تم اس دین سے باز آجائو ورنہ وہ تم کو پیس ڈالیں گے مگر مسلمان اس امر سے ذرہ بھی خائف نہ ہوئے بلکہ حَسْبُنَا اللّٰہُ وَ نِعْمَ الوَکِیْلُ پڑھا۔ آنحضرت نے چند آدمی بغرض دریافت حال باہر بھیجے تو کوئی فوج ان کو نہ ملی آخر اسی طرح معاملہ رفع دفع ہوگیا۔ مسلمان قریباً ستر اس جنگ میں شہید ہوئے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہم غزوۂ خندق :۔ تیسری مشہور جنگ غزوۂ خندق ہے ماہ شوال ٤ ہجری میں ہوئی تھی جنگ بدر کی شکست اور احد کی ناکامی سے قریش مکہ کے دلوں میں سخت اضطراب تھا اتنے میں یہودیوں کے قبیلہ بنی نضیر وغیرہ کے چند سردار قریش مکہ کے پاس پہنچے اور مدد کا وعدہ دے کر ان کو مسلمانوں سے لڑنے پر اکسایا وہ پہلے ہی غیض و غضب میں بھرے ہوئے تھے پس ان کا اکسانا ” دیوانہ را ہوے بس است“ کا مصداق ہوا۔ چنانچہ قریباً دس ہزار فوج جرار لے کر بسر کردگی ابوسفیان مدینہ پر حملہ آور ہوئے۔ بنی نضیر نے ان کو اکسایا تھا بنی قریظہ یہودیوں کا قبیلہ بھی باوجود معاہدہ صلح کے ان سے مل گئے آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حسب مشورہ سلمان فارسی (رض) مدینہ کے گرد خندق کھدوائی (اسی وجہ سے اس کو غزوہ خندق کہتے ہیں) اس خندق کھودنے میں بہت سے خدائی کرشمے ظاہر ہوئے ایک پتھر نہایت سنگین تھا صحابہ سے اس کو جنبش نہ ہوئی تو آپ کو اطلاع کی گئی تو آپ نے اپنے ہاتھ مبارک سے اس کو توڑا اس کے ٹوٹتے ہوئے حسب دستور ایک چمکارا نکلا آپ نے فرمایا اس کی روشنی سے مجھے قیصر و کسری (روم اور ایران کے بادشاہوں) کے محلات دکھا دئیے گئے ہیں کہ یہ تیری امت کو ملیں گے الحمدللہ یہ پیشگوئی حرف بحرف پوری ہوئی) خندق کھودتے وقت دستور کے مطابق صحابہ رجز کرتے تھے یعنی اشعار شوقیہ حسب حال پڑھتے تھے اور آپ بھی بذات خاص ان کو جواب دیتے تھے ان اشعار میں سے چند اشعار یہ ہیں۔ صحابہ کہتے تھے نحن الذین بایعوا محمدا۔ علی الجہاد ما بقینا ابدا۔ آپ فرماتے تھے اللھم ! لاخیر الاخیر الاخرہ۔ فبارک فی الانصار والمھاجرۃ ہم ہیں جنہوں نے محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم) سے مرتے دم تک جہاد کرنے پر بیعت کی ہوئی ہے۔ ١٢ اے اللہ تعالیٰ خیر و برکت آخرت کی خیر ہے پس تو انصار اور مہاجرین میں برکت دے۔ ١٢ گا ہے آپ یہ اشعار بھی پڑھتے تھے اللھم لو لا انت ما اھتدینا۔ فلا تصدقنا ولا صلینا۔ انزلن ! سکینۃ علینا۔ ثبت الاقدام ان لاقینا۔ ان الاولاقد بغوا علینا۔ اذا ارادوا افتنۃ ابینا۔ اے اللہ تعالیٰ اگر تو مددگار اور راہ نما نہ ہوتا تو ہم نہ تو صدقہ دے سکتے اور نہ ہی ہم نماز پڑھ سکتے۔ ١٢ تو ہم پر تسلی اور تسکین نازل فرما اگر ہم دشمنوں سے جنگ میں ملیں تو تو ہمیں ثابت قدم رکھ۔ ١٢ ان کفار نے ہم پر زیادتی اور ظلم کئے ہیں جب انہوں نے ہم سے ناجائز حرکات چاہیں یعنی کفر و شرک کرانے پر زور دیا تو ہم نے انکار کردیا۔ ١٢ مہینہ بھر کفار کا محاصرہ رہا درمیان میں کبھی کبھی معمولی سی چھیڑ چھاڑ بھی ہوجاتی مگر کفار کے دل میں یہ غرور تھا کہ اب یہ مسلمان جائیں گے کہاں۔ شہر کے اندر گھرے ہوئے ہیں باہر کے دشمنوں کے علاوہ خود شہر میں بھی منافق چھپے دشمن بظاہر مومن خفیہ کافر موجود تھے جو ہر آن ان کو خبر پہنچاتے ہیں اس لئے قریش اس گھمنڈ میں تھے کہ یا تو اسی طرح گھبراہٹ سے بے چین ہو کر مر جائیں گے یا اپنے آبائی مذہب کی طرف رجوع ہوں گے اس واقعہ کی تکالیف شدیدہ کا مختصر سا نقشہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بتلایا ہے۔ ارشاد ہے۔ اِذْجَآئُوْکُمْ مِّنْ فَوْقِکُمْ وَمِنْ اَسْفَلَ مِنْکُمْ وَ اِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّوْنَ باللّٰہِ الظُّنُوْنَا ھُنَالِکَ ابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَزُلْزِلُوْا زِلْرَ الاً شَدِیْدًا وَاِذْ یَقُوْلُ الْمُنَافِقُوْنَ وَالَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ مَّاوَعَدَنَا اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ الاَّ غُرُوْرًا وَاِذْ قَالَتْ طَآئِفَۃٌ مِنْہُمْ یَا اَھْلَ یَثْرِبَ لاَمُقَامَ لَکُمْ فَارْجِعُوْا وَیَسْتَاْذِنُ فَرِیْقٌ مِّنْہُمُ النَّبِیَّ یَقُوْلُوْنَ اِنَّ بَوْوْتَنَا عَوْرَۃٌ وَمَا ھِیَ بِعَوْرَۃٍ اِنْ یُّرِیْدُوْنَ الاَّ فِرَارًا (احزاب ع ٢) یعنی جب کفار تم پر اوپر سے اور نیچے سے لوٹ پڑے تھے اور جب تمہاری آنکھیں ڈگنے لگی تھیں اور دل مارے گھبراہٹ کے حلق پر پہنچے ہوئے تھے اور تم اللہ تعالیٰ کی نسبت خلف وعدہ اور خوف ہلاکت کی مختلف بدگمانیاں کر رہے تھے اس وقت مسلمان سخت بلا میں مبتلا تھے اور سخت گھبراہٹ کے زلزلوں سے متزلزل ہوئے تھے یعنی جس وقت منافق اور مریض دلوں والے کہتے تھے کہ ہم سے تو اللہ تعالیٰ اور رسول نے محض دھوکہ کے وعدے دئیے تھے (کہ تمہاری ترقی ہوگی) اور جس وقت ایک جماعت ان میں سے یہ کہتی تھی کہ اے مدینہ والو ! تمہارے لئے کوئی جگہ نہیں پس بہتر ہے کہ تم اپنے آبائی مذہب کی طرف رجوع ہوجائو اور ان میں سے ایک جماعت نبی سے اجازت چاہتی تھی اس بہانہ سے کہ ہمارے گھروں میں کوئی نہیں بالکل خالی ہیں حالانکہ خالی نہ تھے بلکہ وہ صرف بھاگنا ہی چاہتے تھے۔ “ ایسی حالت میں فقر و فاقوں کا کیا شمار ہوگا حضرت جابر (رض) کہتے ہیں میں نے آنحضرت کے چہرۂ مبارک پر بھوک سے فاختہ اڑتے دیکھے تو اجازت لے کر اپنے گھر گیا اور اپنی بیوی سے ذکر کیا کہ میں نے آنحضرت کے چہرۂ مبارک پر ایسی حالت دیکھی ہے کہ مجھ سے صبر نہ ہوسکا تیرے پاس کوئی کھانے کی چیز ہے؟ اس نے کہا تھوڑا سا آٹا جوئوں کا ہے اور ایک بکری کا بچہ ہے میں نے اسے تو آٹا گوندھنے کو کہا اور آپ بکری کے بچہ کو ذبح کر کے فوراً تیار کیا اور ہنڈیا چولہے پر رکھ دی اور آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے آ کر عرض کیا کہ آپ کی اور ایک دو آدمیوں کی آپ کے ساتھ غریب خانہ پر دعوت ہے آپ نے فرمایا کھانا کتنا کچھ ہے جس قدر تھا میں نے عرض کردیا آپ نے فرمایا اپنی بیوی سے کہیو کہ میرے آنے سے پیشتر نہ تو روٹیاں پکائے اور نہ ہنڈیا چولہے سے اتارے۔ ادھر آپ نے تمام فوج میں پکار دیا کہ جابر کے ہاں آج تمہاری دعوت ہے چنانچہ آپ تمام صحابہ مہاجرین اور انصار کو لے کر جابر کے گھر پہنچے جابر اتنی بھیڑ بھاڑ دیکھ کر گھبرا گئے اور اپنی بیوی سے جا کر کہا کہ حضرت تو تمام صحابہ کو ساتھ لے آئے ہیں اس دانا عورت نے کہا کہ تجھ سے آپ نے سوال کیا تھا تو تو نے اصل واقعہ کو جس قدر کھانا ہے عرض کردیا تھا؟ جابر نے کہا ہاں بولی کچھ حرج نہیں یعنی جب آپ باوجود علم اصل واقعہ کے اتنے لوگوں کو ساتھ لائے ہیں تو انتظام بھی خود ہی فرما لیں گے۔ چنانچہ آپ نے سب فوج کو جو ایک ہزار تھی بٹھا دیا اور ہنڈیا اور آٹے میں اپنا لب مبارک ڈال کر روٹیاں پکانے اور سالن برتنوں میں ڈالنے کا حکم دیا جابر قسمیہ کہتے ہیں کہ سب فوج کھانا کھا چکی تو بھی ہماری ہنڈیا اسی طرح ابل رہی تھی سب سے اخیر جابر کی بیوی سے کہا کہ اب تو خود بھی کھا اور لوگوں کو جو شہر میں ہیں تحفہ بھیج کیونکہ آج لوگوں کو بھوک سے تکلیف ہے۔ ناظرین ! سید صاحب اس واقعہ کو نہ مانیں تو ان سے کہہ دیجئے کہ یہ روایت صحیح بخاری کی ہے جس کو آپ تفسیر جلد چہارم کے صفحہ ٨٣ پر سب سے زیادہ معتبر مانتے ہیں۔ سپر نیچرل (خلاف فطرت) کہیں تو تفسیر ثنائی جلد دوم و سوم ملاحظہ کرا دیں۔ خیر اللہ اللہ کر کے بعد ایک مہینے کے قریش کا محاصرہ اٹھا۔ کس طرح اٹھا؟ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اس کی وجہ بتلائی ہے ارشاد ہے یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْجَآئَ ْتکُمْ جُنُوْدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ رِیْحًا وَّجُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْھَا وَکَان اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًا (احزاب ع ٢) مسلمانو ! اللہ تعالیٰ کی مہربانی جو تم پر ہوئی ہے وہ یاد کرو جب قریش کی فوجیں تم پر آئی تھیں تو ہم نے ان پر زور کی ہوا اور ایسی فوج بھیجی جسے تم نے نہ دیکھا اور اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہے) راتوں رات اس ہوا اور آسمانی فوج سے ان کے خیمے الٹ گئے گھوڑے بھاگ گئے تمام تکبر و غرور جو دماغ میں لئے بیٹھے تھے الٹے وبال جان ان کے لئے ہوئے اور اپنا سا منہ لے کر مکہ کو چلتے بنے حباب بحر کو دیکھو یہ کیسا سر اٹھاتا ہے تکبر وہ بری شے ہے کہ فوراً ٹوٹ جاتا ہے ان سے فارغ ہو کر حسب مشورہ جبرئیل آپ نے بنی قریظہ کا جنہوں نے باوجود معاہدہ قریش کا ساتھ دیا تھا تعاقب کیا چنانچہ ان کے قلعہ کا محاصرہ ہوا تو انہوں نے خود ہی حضرت سعد بن معاذ (رض) (جو زمانہ جاہلیت میں ان کے حلیف (ہم سو گند یعنی معاہد) تھے) کے فیصلہ کو منظور کرلیا حضرت سعد نے ان پر بغاوت کا جرم سمجھ کر بالغوں کو قتل کرنے اور نابالغوں اور عورتوں کے لونڈی غلام بنا لینے کا حکم دیا۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا کئی سو بنی قریظہ بغاوت کے جرم میں تہ تیغ ہوئے تو مدینہ میں امن ہوا۔ ایک بات یاد رکھنے کے قابل یہ ہے کہ اسی جنگ خندق میں آپ نے ایک پیشگوئی بایں الفاظ فرمائی تھی جو بالفاظ پوری ہوئی فرمایا نحن نفزوھم ولا یغزوننا (آئندہ کو ہم ان کفار پر چڑھائی کیا کریں گے اور وہ ہم پر نہ چڑہائی کریں گے) یعنی ان میں جس قدر ہمت اور حوصلہ تھا آج کے زور ختم ہوگیا اب ان کو (مشرکین عرب ہوں یا یہودی یا عیسائی) اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم پر حملہ آور ہونے کی جرأت نہ ہوگی چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ فالحمدللہ علی ذلک۔ غزوۂ خیبر :۔ یہ لڑائی محرم ٧ ہجری میں ہوئی۔ خیبر ایک بڑا شہر ہے جس میں یہودی بکثرت بستے تھے اور اس کی اطراف میں ان کے بڑے مضبوط قلعے تھے اور وہ مدت سے مسلمانوں کے ساتھ لڑائی کی تیاریاں کر رہے تھے اتنے میں آنحضرت کو ان کی تیاریوں کی خبر پہنچی تو آپ نے ان پر فوج کشی کر کے مہینے بھر کی لڑائی کے بعد خیبر فتح کیا۔ یہودیوں کو جان کی امان دی گئی اور تمام مال و اسباب ان کا غنیمت یا معاوضہ جنگ میں لیا گیا اور زمینوں پر انہی کو بطور مزارع کے قابض رکھا اور پیداوار کا نصف حصہ ان کا اور نصف غنیمت کے لئے مقرر ہوا۔ بعد فتح ایک ! یہودن نے آپ کی دعوت کر کے گوشت میں زہر ملا دیا جونہی آپ نے ایک لقمہ کھایا ہاتھ کھینچ لیا فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتلایا ہے کہ اس میں زہر ہے۔ آپ کے بتلانے سے بیشتر جلدی میں جن لوگوں نے گوشت کھایا تھا شہید ہوگئے آپ نے اس عورت سے دریافت کیا کہ تو نے اس میں زہر کیوں ڈالا؟ تو اس نے کہا کہ ہمارا خیال تھا کہ اگر آپ سچے نبی ہوں گے تو آپ کو کچھ ضرر نہ ہوگا اور اگر جھوٹے ہوں گے تو ہماری جان چھوٹ جائے گی یعنی آپ مر جاویں گے۔ شاید اس عورت کو حسب ہدایت توریت استثنائ۔ ١٣ باب کے یہ خیال پیدا ہوا ہوگا جہاں مذکور ہے کہ جھوٹا نبی مارا جائے گا۔ مگر آپ بفضلہ تعالیٰ زندہ سلامت باکرامت رہے مختصر یہ ہے کہ خیبر پر بتمامہ مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا۔ غزوہ فتح مکہ المکرمہ :۔ ماہ رمضان ٨ ہجری میں یہ واقع ہوا اس کی مختصر کیفیت یہ ہے کہ یوم حدیبیہ میں ٦ ہجری میں قریش سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صلح دس سال تک قرار پائی تھی یہ بات طے ہوچکی تھی کہ بنو خزاعہ گو تمام مسلمان نہ تھے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب قرار پائے تھے اور بنو بکر قریش مکہ کی ان دونوں (بنو بکر اور بنو خزاعہ) میں سخت عداوت تھی اتفاق سے ان کی آپس میں چل پڑی معاہدہ کے مطابق قریش مکہ کو الگ تھلگ رہنا چاہئے تھا۔ مگر انہوں نے ایسا نہ کیا بلکہ بنو بکر کی علانیہ امداد کی اور بنو خزاعہ کو بہت نقصان پہنچایا۔ جب آپ کو اس امر کی اطلاع ملی تو آپ نے مکہ پر فوج کشی کا ارادہ مصمم کرلیا کیونکہ قریش مکہ نے اپنے معاہدہ کی پرواہ نہ کی تھی۔ آخر کار دس ہزار فوج جرار لے کر آپ مکہ پر حملہ آور ہوئے مگر مکہ والوں کے دلوں پر اللہ تعالیٰ نے ایسا رعب ڈالا کہ کوئی مقابلہ پر نہ آیا بلکہ ان کا سردار ابوسفیان جو احد اور خندق کی لڑائیوں میں سپہ سالار تھا مسلمانوں کی فوج کی خبر سن کر ایک شخص بدیل نامی کے ساتھ خود تجسس حال کو نکلا۔ حضرت عباس کے قابو آگیا حضرت عباس اس کو آپ کی خدمت میں لائے آپ نے فرمایا کل صبح اس کو پیش کرنا رات کو حضرت عباس نے ابو سفیان کو اسلام کی تلقین کی تو اس کے دل میں بھی شوق پیدا ہوا چنانچہ وہ مسلمان ہوگیا حضرت عباس کی سفارش پر آپ نے منادی کرا دی کہ جو کوئی ابوسفیان کے گھر میں جا گھسے گا اس کو امن مل جائے گا اور وہ جان سے مارا نہ جائے گا مختصر یہ کہ آپ نے بغیر کسی سخت مقابلہ کے مکہ فتح کیا لوگوں کو خطرہ تھا کہ آپ اپنی پہلی تکلیفوں کو جو ہجرت سے پہلے مکہ والوں سے اٹھائی تھیں بدلہ لیں گے مگر آپ نے ان سب کو مخاطب کر کے فرمایا۔ میں تم سے وہ معاملہ کروں گا جو حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا جائو سب کو معاف۔ اللّٰہ اکبر سچ ہے شنیدم کہ مردان راہ اللہ دل دشمناں ہم نہ کردند تنگ غزوۂ حنین :۔ طائف اور مکہ شریف کے درمیان حنین ایک مشہور مقام ہے جہاں قوم ہوازن رہتی تھی رمضان ٨ ھ میں آپ نے فتح مکہ کیا ابھی مکہ کے انتظام ہی میں مشغول تھے کہ ہوازن کے حملہ کی خبر پہنچی چنانچہ آپ نے بارہ ہزار جرار لشکر ان کے مقابلہ کے لئے تیار کیا جن میں دس ہزار تو وہ لوگ تھے جو مدینہ سے بغرض فتح مکہ آپ کے ساتھ آئے تھے اور دو ہزار ان لوگوں سے جو فتح مکہ کے روز مسلمان ہوئے تھے انہی میں سے ابو سفیان (رض) بھی تھے جو احد اور خندق میں کفار کے سپہ سالار تھے اور فتح مکہ میں مسلمان ہوئے تھے چند ہی روز میں ان کا ایمان اور اخلاص ایسا مضبوط ہوگیا کہ حینے میں ان سے بہت سی خدمات نمایاں صادر ہوئیں بلکہ ایسے موقعہ پر بھی وہ آنحضرت کے ہمرکاب رہے کہ تمام فوج منتشر ہوگئی تھی جس کا بیان آتا ہے خیر آپ بسم اللہ تعالیٰ مجریہا ومرسہا کہہ کر بغرض دفع حملہ ہوازن کے مقام پر پہنچے جونہی پہنچے تھے کہ ابھی کوئی جنگ کی تیاری بھی نہ تھی کہ ناگاہ بے خبری میں قوم ہوازن نے جو بڑے جنگجو تیر انداز تھے مسلمانوں پر بڑے زور سے تیر برسائے جس سے فوج نظام میں خلل آگیا اور صحابہ قریب قریب تمام منتشر ہوگئے مگر حضرت عباس اور ابوسفیان آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سواری کے ہمرکاب تھے ادھر یہ شہرت ہوگئی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم شہید ہوگئے ایسی بے قراری کے وقت بھی آپ کی قومی شجاعت اور اللہ کے وعدوں پر بھروسہ کا یہ عالم تھا کہ آپ بجائے گھبراہٹ کے بلند آواز سے یہ پکار رہے تھے انا النبی لاکذب انا ابن عبدالمطلب یعنی میرے پیچھے نہ ہٹنے کی دو وجہ ہیں ایک تو یہ کہ میں نبی ہوں اللہ تعالیٰ نے مجھے وعدہ نصرت کیا ہوا ہے دوم یہ کہ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں ہماری قومی شجاعت بھی اسی امر کی مقتضی ہے کہ میدان جنگ سے پیچھے نہ ہٹیں آخر بہ حکم نبوی حضرت عباس نے بلند آواز سے صحابہ کو پکارا کہ اے مہاجرو ! اے شجرہ کے نیچے بیعت کرنے والو ! اے انصارو ! چلو بھاگو لپکو ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زندہ ہیں۔ چنانچہ پھر مسلمان جمع ہوگئے اور باقاعدہ ایک ہی حملہ میں سب دشمن مغلوب ہوگئے۔ اس جنگ کی مختصر سی کفیت اور ابتدائی شکست کی وجہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بیان فرمائی ہے چنانچہ ارشاد ہے۔ لَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ فِیْ مَوَاطِنَ کَثِیْرَۃٍ وَّیَوْمَ حُنَیْنٍ اِذْ اَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْکُمْ شَیْئًا وَضَاقَتْ عَلَیْکُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُّدْبِرِیْنَ۔ ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلی رَسُوْلِہٖ وَعَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَاَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْھَا وَعَذَّبَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَذٰلِکَ جَزَائُ الْکٰفِرِیْنَ۔َ (التوبۃ) اللہ تعالیٰ نے تمہاری کئی ایک مواقع میں مدد کی ہے اور حنین کے دن بھی مدد کی تھی۔ جب تم اپنی کثرت پر نازاں تھے پھر اس کثرت نے تمہیں کوئی کام نہ دیا اور زمین باوجود وسعت کے تم پر تنگ ہوگئی پھر تم پیٹھ پھیر کر لوٹ گئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور مسلمانوں پر تسلی نازل کی اور جن فوجوں کو تم نے نہیں دیکھا وہ نازل کیں اور کافروں کو عذاب دیا۔ کافروں کا یہی بدلہ ہے۔ “ مختصر یہ کہ صحابہ کو اپنی کثرت کی وجہ سے بتقاضائے بشریت توکل علی اللہ تعالیٰ میں فرق آگیا تھا اس پر یہ تکلیف ہوئی سچ ہے ایں سعادت بزور باز و نیست تانہ بخشد خدائے بخشندہ بعد فتح کے یہ لوگ مسلمان ہوگئے تو ان کے قیدی بھی آنحضرت نے ان کو دے دئیے اور مسلمانوں کی قید سے آزاد کر دئیے گئے۔ غزوۂ تبوک :۔ تبوک شام اور وادی القریٰ کے درمیان ایک جگہ ہے آپ کو رومیوں کے اجتماع کی خبر ملی تو آپ نے باوجود سخت گرمی کے موسم ہونے کے فوراً رجب ٩ ہجری میں تیاری کی یہ جنگ بلحاظ تکالیف سفر جیسی مشکل تھی کوئی نہ تھی۔ مگر صحابہ نے اس کی دشواریوں کی کوئی پروا نہ کی حسب فرمان نبوی فوراً تیار ہوگئے ہرچند منافقوں نے مسلمانوں کی جنگ کی سختی سے ڈرایا مگر حب نبی نے کچھ اثر ہونے نہ دیا آخر آپ مقام جنگ پر پہنچے تو بغیر جنگ و جدال کامیاب واپس آئے عموماً سب سرداران قوم سے معاہدے ہوگئے اور جزیہ مقرر ہوا جو انہوں نے اپنی خوشی سے منظور کیا۔ یہ ہے آپ کے غزوات کی نہایت مختصر تاریخ ان کے علاو چھوٹی چھوٹی لڑائیاں بھی ان کے درمیان ہوتی رہیں مگر ہم نے ان کو نہیں بیان کیا کیونکہ ان میں آنحضرت کی بذات خود شرکت نہ تھی بلکہ یوں کہئے کہ کوئی جنگ ہی نہ تھی بسا اوقات معمولی دبائو منظور ہوتا تھا۔ والعلم عنداللہ۔ منہ جس طرح تیرے پروردگار نے بدر کی لڑائی کے لئے تجھے سچے وعدے کے ساتھ گھر سے نکالا تھا۔ اور مسلمانوں کی ایک جماعت اس کو ناپسند کرتی تھی کیونکہ بظاہر سامان مفقود تھا سوائے بھروسہ اللہ تعالیٰ کے کچھ بھی نہ تھا باوجود ضرورت جنگ ظاہر ہونے کے اور اللہ تعالیٰ کے سچے احکام اور مواعید سننے کے بعد بھی تجھ سے مفید اور ضروری کام یعنی جنگ کے بارے میں جھگڑتے تھے اور جی میں ایسے خوفزدہ تھے کہ گویا وہ موت کی طرف دھکیلے جاتے تھے اور وہ گویا موت کو بچشم خود سامنے دیکھ رہے تھے۔ پھر اس وقت جیسا وعدہ الٰہی نے کرشمہ دکھایا اور جیسی محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے باوجود قلت سامان مسلمانوں کی فتح ہوئی اسی طرح آخرت کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ وعدہ پورا کرے گا۔ سنو ! اور اس وقت کو یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے بزبان رسول تم سے وعدہ کیا تھا کہ دو جماعتوں میں سے ایک پر تم کو ضروری ہی غلبہ ہوگا یعنی قافلہ پر یا جنگی جماعت پر جو مکہ سے تمہاری لڑائی کو آئے تھے اور تم چاہتے تھے کہ کمزور جماعت یعنی قافلہ پر تم کو غلبہ ہو اور تمہارے ہاتھ آئے دوسرا صف اور اللہ تعالیٰ کو منظور تھا کہ جنگی جماعت کی بیخ کنی سے آئندہ کو تمہاری راہ سے کانٹے اٹھاتے اور اپنے حکم سے دین حق کو مضبوط کرے اور کافروں کی جڑکاٹ دے تاکہ حق کی تقویت کرے اور باطل کی بنیاد اکھاڑے اور ہمیشہ کے لئے کفر مغلوب ہو گو کافروں کو برا ہی کیوں نہ لگے وہ وقت بھی قابل تذکرہ ہے جب تم اپنے پروردگار سے فریاد کر رہے تھے اور اپنی بے سر و سامانی کو دیکھ کر محض اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کر کے دعائوں میں مشغول تھے تو اس نے تمہاری سنی اور وعدہ فرمایا کہ میں تم کو ایک ہزار فرشتوں سے جو پے در پے تمہارے پاس پہنچیں گے مدد دوں گا اور حقیقت میں یہ فرشتوں کی امداد کا تذکرہ صرف تمہاری خوشی اور تسکین خاطر کے لئے تھا ورنہ سب کچھ تو اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے ورنہ اصل مدد صرف اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے وہ جس کو چاہے فتح دے اور جسے چاہے شکست تھوڑی جماعت کو بہتوں پر غالب کرے اور بہتوں کو تھوڑوں سے ذلیل کرائے کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ سب پر غالب اور بڑی حکمت والا ہے جو کام کرنا چاہتا ہے ایسی حکمت سے اس کے اسباب مہیا کردیتا ہے کہ کسی کو خبر تک بھی نہیں ہوتی کیا تم نے نہیں سنا ہست سلطانی مسلم مرد را نیست کس را زہرہ چون و چرا وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب تمہارے آرام کے لئے اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے تم پر اونگھ ڈالی تھی اور اوپر کی جانب سے تم پر پانی اتارا تھا کہ تم کو پاک کرے اور شیطانی نجاست جو جنابت وغیرہ سے تم کو لاحق ہو رہی تھی تم سے دور کرے یعنی تم غسل کرو اور پاک و صاف ہوجائو اور گرمی کی گھبراہٹ دور کر کے تمہارے دلوں کو تسکین دے اور تمہارے قدم مضبوط کرے خاص کر وہ وقت قابل ذکر ہے جب تیرا پروردگار یعنی رب العالمین فرشتوں کو الہام اور حکم کر رہا تھا کہ مومنوں کی مدد کرو۔ میں تمہارے ساتھ ہوں یعنی میری مدد اور نصرت تمہارے ساتھ ہے پس تم مومنوں کو اپنی تاثیر صحبت سے ثابت قدم رکھو میں کافروں کے دلوں پر مومنوں کی دہشت اور رعب ڈالوں گا۔ پس تم مومونوں کو تاثیر صحبت سے مضبوط رکھو اور اگر موقعہ پڑے تو کافروں کی گردنیں اور جوڑ پورا اڑا دو کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ اور رسول کی مخالفت دانستہ اختیار کر رکھی ہے اور یہ عام قانون ہے کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرتا ہے وہ اپنا ہی کچھ کھوتا ہے کیونکہ ایسے کافروں کے لئے اللہ تعالیٰ کا عذاب بڑا سخت ہے جب عذاب آئے گا تو ان کو کہا جائے گا پس لو اسے چکھو اور یقین رکھو کہ کافروں کے لئے آگ کا عذاب بروز قیامت تیار ہے۔ مسلمانو ! چونکہ یہ لڑائی بھڑائی کا جھگڑا تم میں ہمیشہ کو جاری ہوگیا ہے کسی نہ کسی ملک میں اس کا ظہور ہوتا رہے گا۔ پس جب تم جنگ کے وقت کافروں سے بھیڑ میں ملو یعنی مٹھ بھیڑ ان سے ہوجائے تو ان سے پیٹھ مت پھیرنا بلکہ خوب مضبوط ہو کر لڑنا۔ کیونکہ تمہارا مرنا جینے سے اچھا ہے پس تم پیٹھ کیوں دینے لگے اور بھاگنے کیوں لگے۔ جو کوئی بغیر ضرورت تدبیر جنگ کے یا بلانیت اپنی جماعت میں ملنے کے میدان جنگ میں پیٹھ دے گا اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہوگا اور ٹھکانہ اس کا جہنم میں ہوگا اور وہ جہنم بہت ہی بری جگہ ہے یعنی اگر بصنعت جنگ کسی تدبیر سے پیٹھ دے کر دشمنوں کو مثلاً قلعوں سے نکال کر میدان میں لانا منظور ہو یا کسی ایسے موقعہ پر کہ اپنی کمک دور ہے اور میدان جنگ سے پھر کر اپنی کمک کے ساتھ مل کر لڑنا منظور ہو تو ایسے لوگ ان پیٹھ دینے والوں میں سے نہیں پس جب کہ سب فتح اور نصرت اللہ تعالیٰ ہی کے قبضے میں ہے تو سچ سمجھو کہ میدان جنگ میں تم نے ان کو قتل نہیں کیا کیونکہ تم اس روز تھے ہی کیا تمہارے پاس سامان ہی کیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو قتل کیا یعنی تمہارا خوف ان کے دلوں میں ایسا ڈالا کہ باوجود ایسے بہادر اور شاہ زور ہونے کے ان کو بغیر بھاگنے کے کچھ نہ سوجھی اور (اے رسول جب تو نے کنکریوں کی مٹھی بھر کر کافروں کی طرف چلائی تھی اور وہ تمام کی آنکھوں میں پڑگئی تھی جس سے وہ آنکھیں بند کر کے میدان سے بھاگتے وہ تو نے نہیں پہنچائی تھی بلکہ اللہ تعالیٰ نے پہنچائی ہے کیونکہ ان کنکریوں کا ان کی آنکھوں میں پہنچانا تیری قدرت نہ تھی بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ظہور تھا۔ کیا تم نے کسی اہل دل کا قول نہیں سنا کار زلف قست مشک افشانی اما عاشقاں مصلحت را تہمتے برآ ہوئے چیں بستہ اند اصل مطلب اس سے یہ تھا کہ کافروں کو شکست ہو تاکہ مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے مہربانی کرے اور فتح نصیب ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ سب کی سنتا اور سب کے حالات جانتا ہے مسلمانوں پر کفار کے مظالم بکثرت ہوچکے ہیں اب ان کی انتہا کا وقت آگیا ہے بات تو یہ ہے جو ہوچکی اس پر غور کرو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا کرشمہ کیسا دکھایا اور دل سے جانو کہ اللہ تعالیٰ کافروں کی تدبیریں مومنوں کے مقابل چلنے نہ دے گا بشرطیکہ مومن اپنے ایمان میں پختہ ہوں گے۔ مکہ والو ! اگر تم فتح چاہتے تھے یعنی اپنے جی میں یہ خیال جمائے ہوئے تھے کہ اگر یہ نبی ہم پر غالب آیا تو سچا ہے کیونکہ تم نے سمجھا ہوا تھا کہ ہم کعبہ شریف کے مجاور ہیں کوئی جھوٹا آدمی جس کا دین اور طریق اللہ تعالیٰ کو پسند نہ ہوگا ہم پر غالب نہ آئے گا تو لو اب تو فتح بھی تم نے دیکھ لی کہ مسلمان کس بے سر و سامانی میں محض اللہ تعالیٰ کی تائید سے تم پر غالب آئے اور اگر اب بھی تم مخالفت سے باز آئو تو تمہارے حق میں بہتر ہوگا اور اگر تم نے شرارت سے وہی کام کیا جو پہلے کرچکے ہو تو ہم بھی وہی عذاب کریں گے جو پہلے کرچکے تمہارا سر کچلیں گے اور یاد رکھو تمہاری جمعیت کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو ہرگز تمہارے کام نہ آوے گی اور یہ بھی جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ کی مدد مومنوں کے ساتھ ہے ہاں یہ ضرور یہ ہے کہ مسلمان مسلمان ہوں یعنی اللہ تعالیٰ اور رسول کے حکموں کے فرمانبردار پس مسلمان ! اگر اللہ تعالیٰ کی مدد کا سہارا چاہتے ہو تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتے رہو یعنی جو کچھ اللہ تعالیٰ تم کو حکم دے یا جو کچھ رسول تم کو سکھائے اسی پر جم جائو اور اس سے منہ نہ پھیرو حالانکہ تم سنتے ہو کہ کافروں کی گت اور ذلت صرف اس لئے ہوئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور رسول کے حکموں سے سرتابی کرتے ہیں پس تم نے اس میں کسی طرح غفلت نہ کرنا اور جو لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم نے کلام الٰہی سنا حالانکہ وہ دل لگا کر نہیں سنتے تم نے ان جیسے نہ ہونا یعنی صرف زبانی لفاظی بلا عمل کرنے والے جن کے حق میں کسی بزرگ نے کہا ہے ایں مدعیان در طلبش بے خبر انند کا نرانکہ خبر شد خبرش باز آمد اللہ تعالیٰ کے نزدیک کچھ رتبہ نہیں رکھتے بلکہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے حکموں کی تعمیل سے بہرے اور گونگے ہو کر اصل مطلب سے بے سمجھ ہو رہتے ہیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب جانداروں اور حیوانوں سے یعنی کتوں اور سوروں سے بھی بدتر ہیں کیونکہ حیوانوں کو جس کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے وہ اس کو پورا کر رہے ہیں مگر یہ حضرت انسان اپنے فرائض سے غافل ہیں پس اپنی غفلت کا نتیجہ پائیں گے اور اب ان کی یہ حالت ہے کہ فطرت سے جو قابلیت اللہ تعالیٰ نے ان میں پیدا کی تھی یہ کم بخت اس کو بھی کھو بیٹھے ہیں یعنی وہ ان میں ایسے مغلوب ہے کہ کان لم یکن اور اگر اللہ تعالیٰ ان میں کچھ قابلیت پاتا تو ضرور ان کو تیرا کلام سناتا یعنی وعظ و نصیحت سے ان کو فائدہ ہوتا اور اگر اس حال میں ان کو سناتا ہے یعنی ان کے کانوں میں آواز پہنچاتا ہے تو فوراً منہ پھیر جاتے ہیں اور پروا بھی نہیں کرتے کہ کس کی آواز ہے؟ اور کون سمجھاتا ہے؟ کیونکہ یہ لوگ تکبر اور گردن کشی میں ایسے عادی ہو رہے ہیں کہ گویا وہ طبعاً حق سے منہ پھیرنے والے ہیں مسلمانو ! ایسے لوگوں سے پرہیز کرو اور اللہ تعالیٰ کے حکم مانو اور رسول کی اطاعت کرو جب وہ تم کو تمہاری روحانی زندگی کے لئے پکارے یعنی مذہبی امور اور شرعی احکام میں تم پر رسول کی اطاعت واجب ہے دنیاوی امور میں اگر وہ تم کو بطور مشورہ کچھ کہے تو تمہارا اختیار ہے اور اس بات کو خوب جان رکھو کہ بے فرمانی کرنے پر ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کے دل پر پردہ ہوجاتا ہے اور اس کو مفید امور کی سمجھ نہیں دیتا یہی وہ پردہ ہے جس کو دوسرے لفظوں میں ختم اللہ تعالیٰ علی قلوبھم کہتے ہیں۔ پس تم خود بھی نیک عمل کیا کرو اور لوگوں کو بھی نیکی پر ترغیب دیتے رہو کیونکہ بدکاری پھیلنے پر گناہ کرنے والوں اور خاموش رہنے والوں دونوں پر عذاب آتا ہے پس تم خاموش نہ رہو اور اس عذاب سے جو بالخصوص تم میں سے ظالموں کو نہیں بلکہ سب کو پہنچے گا یعنی خاموشی کرنے والے بھی آلودہ عذاب ہوں گے۔ اس عذاب سے ڈرتے رہو اور جانو کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب بہت ہی سخت ہے کسی کو اس کی برداشت کی ہمت نہیں اور اگر یہ خیال ہو کہ بسا اوقات مجرموں کی کثرت ہوتی ہے تو اس وقت ان کو سمجھانا بالکل ضائع اور بے فائدہ ہے تو اس وقت کو یاد کرو جب تم تمام ملک میں بہت ہی قلیل اور ساتھ ہی اس کے ایسے کمزور تھے کہ تمہیں ہر وقت خوف رہتا تھا کہ لوگ تم کو پیس نہ ڈالیں پھر اللہ تعالیٰ نے تم کو مدینہ میں جگہ دی اور اپنی مدد سے تم کو قوت عنایت کی اور پاکیزہ اور حلال رزق تم کو دیا۔ پھر تم رفتہ رفتہ اس کثرت پر پہنچے کس طرح پہنچے؟ زبانی سمجھنے سے اس طرح تم بھی لوگوں کو اگر کامل اخلاص سے سمجھاتے رہو گے تو تمہارے سمجھانے میں بھی برکت ہوگی اور کسی نہ کسی وقت مجرم تمام نہیں تو بعض ضرور ہی تمہارے ساتھ ہوجائیں گے یہ اظہار اس لئے ہے کہ تم اس نعمت کا شکر کرو اور وعظ کرتے وقت اس بات کا خیال بھی نہ لائو کہ ہم منع کرنے والے تھوڑے ہیں اور مخالفت زیادہ کیونکہ تمہارا کام صرف کہہ دینا ہے اتنے کام کے لئے تھوڑے اور بہت میں کیا فرق ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ کہتے ہوئے نرم الفاظ اور مخاطب کی شان کے مناسب طریق سے کہو موقع پا کر بھی امر معروف نہ کرنا اللہ تعالیٰ اور رسول کی بے فرمانی ہے پس تم مسلمانو ! اللہ تعالیٰ اور رسول کی خیانت یعنی بے فرمانی سے بچتے رہنا اور آپس میں ایک دوسرے کے مال و اسباب کی دانستہ خیانت کبھی نہ کرنا۔ کیونکہ اس کا نتیجہ بد ہے۔ دنیا میں بھی بدنامی اور خواری ہے بہت دفعہ انسان کو ایسے بدارادوں کے کرنے پر اولاد کی محبت اور ان کے لئے مال جمع کرنے کی فکر باعث ہوتی ہے سو تم اس کا خیال تک نہ کرو اور دل سے جان رکھو کہ تمہارے مال اور اولاد تمہارے لئے ہدایت سے روک ہیں اور اللہ تعالیٰ کی تابعداری کرنے پر اس کے ہاں بہت بڑا اجر ہے اے مسلمانو ! اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری اور تقویٰ شعاری میں دینی اور دنیاوی فائدے ہیں۔ اگر تم اللہ تعالیٰ کی بے فرمانی سے ڈرتے رہو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے لئے ایک تمیز کا نشان کر دے گا۔ یعنی دنیا کی قومیں جان لیں گی کہ فلاں قوم نے اپنے رسول کی اطاعت میں یہ عزت پائی ہے یہ تم کو دنیاوی فائدہ ہوگا اور دینی فائدہ یہ ہوگا کہ تمہارے گناہ جو بتقضائے بشریت کبھی تم کر گذرو گے تم سے دور کر دے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ بڑے فضل کا مالک ہے اس کے فضل اور مہربانی کا تقاضا ہے کہ تم آج تک باوجود کفار کی ایسی شرارتوں اور اذیتوں کے زندہ سلامت رہے ہو اپنے سابقہ واقعات پر غور کرو اور بالخصوص تو اے رسول اس وقت کو یاد کر جب کافر تیرے حق میں خفیہ خفیہ تدبیریں کر رہے تھے کہ تیرے معاملہ میں کیا کریں تجھے قید کرلیں۔ تاکہ دوسرے ملکوں میں جا کر جمعیت بہم پہنچا کر ان پر تو حملہ آور نہ ہو یا تجھے سرے سے قتل ہی کر ڈالیں کہ ہمیشہ کے خطرات سے پاک ہوجائیں کیونکہ قید کرنے میں بھی تیری تاثیر کلام۔ کا ان کو اندیشہ اور بنی ہاشم کا خوف تھا یا تجھے مکہ سے جلاوطن کردیں مگر اس صورت میں بھی ان کو اندیشہ تھا کہ جہاں تو جائے گا تیرے ساتھ لوگ ہوجائیں گے اور کسی نہ کسی وقت ایک بڑی جمعیت سے تو ان پر حملہ کرے گا غرض بہت سے فکر و غور کے بعد انہوں نے درمیانی صورت اختیار کی چنانچہ انہوں نے تیرے سوتے وقت تیرے مکان کو آگھیرا اور خفیہ تدابیر تیرے پکڑنے کو کر رہے تھے اور اللہ تعالیٰ بھی ان کی آنکھوں سے پوشیدہ جیسا اس کا دستور ہے کام کر رہا تھا آخر اللہ تعالیٰ ہی کا حکم غالب آیا ان سب کو نیچا دیکھنا پڑا کہ اللہ تعالیٰ تجھ کو سب میں سے زندہ سلامت باکرامت بچا کرلے گیا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تدبیر اور حکم سب پر غالب ہے اور اللہ تعالیٰ سب سے اچھا تدبیر کرنے والا ہے کیونکہ اس کی تدبیر کچھ سوچنے سے متعلق نہیں ہوتی کہ اس میں غلطی کا احتمال ہو بلکہ اس کی تدبیر کے تو بس یہ معنی ہیں کہ انسان پر جب تک بلا نازل نہیں ہوجاتی اس کو خبر تک نہیں ہوتی چنانچہ مشہور ہے کہ ” اللہ تعالیٰ کی لکڑی میں آواز نہیں“ اس پر بھی یہ لوگ نہیں سمجھتے اور باور نہیں کرتے بلکہ جب کبھی ہماری آیات ان کو سنائی جاتی ہیں تو منکر بجائے تسلیم کرنے کے الٹے کہتے ہیں میاں ہم نے تمہاری آیات سن لیں۔ اگر ہم چاہتے تو ایسے کلام مدت سے بنا لیتے اس میں رکھا ہی کیا ہے یہ تو صرف پہلے لوگوں کے قصے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر ان کی بے وقوفی معلوم کرنی چاہو تو اس وقت کو یاد کرو جب ان شورہ پشت کافروں نے عناد اور ضد میں کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ! ! اگر یہ قرآن سچ مچ تیرے پاس سے ہے تو تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا ہم پر کوئی دکھ کی مار ڈال دے۔ (شان نزول (واذ قالوا اللھم) مشرکین عرب جب گذشتہ لوگوں کے حالات سنتے کہ انبیاء کی تکذیب پر ان کی کیا کیا گت ہوئی تو ظالم بجائے ڈرنے کے الٹے اکڑتے اور یہ دعا کرتے جس کا ذکر اس آیت میں ہے۔ ١٢ منہ) کم بختوں نے یہ نہ کہا کہ اگر یہ حق ہے تو ہمیں ہدایت کر جو قاعدہ کہنے کا ہے مگر اللہ تعالیٰ کو بھی کیا جلدی تھی کہ ان کو فوراً پکڑ لیتا اور خصوصاً جب کہ اس کی رحمت کا تقاضا بھی یہ ہے کہ جس حال میں تو اے رسول ان میں تھا اللہ تعالیٰ ان کو عذاب نہ کرتا نیز جس حال میں یہ اپنے گناہوں پر بخشش مانگتے ہوتے اللہ تعالیٰ ان کو عذاب نہ کرتا اس موجودہ صورت میں گو دوسرا مانع متحقق نہیں کیونکہ بجائے استغفار کے یہ لوگ الٹے اکڑتے ہیں اور جو مانگتے بھی ہیں وہ بھی بحکم ان الذین کفروا واعمالھم کرماد ہیچ ہے اور اگر یہ خود بھی غور کریں تو ان کو معلوم ہوجائے کہ صرف تیری موجودگی کا اثر ہے کہ ان پر عذاب نازل نہیں ہوتا۔ بھلا ان کا کیا عذر ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو عذاب نہ کرے حالانکہ وہ ایسے بڑے ظلم کے مرتکب ہوتے تھے کہ کعبہ شریف کی محترم اور بابرکت مسجد سے مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے روکتے ہیں اور لطف یہ ہے کہ خود اس مسجد کے قابل اور اہل نہیں کیونکہ اس کے بانی حضرت ابراہیم کی وصیت اور ہدایت سے خلاف چل رہے ہیں اور جس کام (توحید) کے لئے حضرت موصوف نے یہ مسجد بنائی تھی وہ ان میں مفقود ہے حقیقت میں اس مسجد کے اہل تو متقی اور شرک و کفر سے بچنے والے لوگ ہیں۔ کیونکہ ابراہیمی ( علیہ السلام) وصیت کے مطابق یہ مسجد انہی لوگوں کے لئے ہے جو صرف اکیلے اللہ تعالیٰ کی اس میں عبادت کریں لیکن بہت سے لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے اور ان کا تو یہ حال ہے کہ شرک و کفر بت پرستی کے علاوہ ان کافروں کے عمل ضائع ہیں کی خالص عبادت بھی صرف سیٹیاں اور تالیاں ہی ہوتی ہے جیسے ہندوستان کے ہندوئوں کی عبادت باجے گاجے وغیرہ لواب تو یہ پیغمبر مکہ چھوڑ کر مدینہ میں نکل آئے ہیں پس اپنی بدکرداری اور کفر کی پاداش میں عذاب کا مزہ چکھو اور اپنا سر کھائو۔ مسلمانو ! کافر لوگ جس کوشش میں ہیں ان سے سبق حاصل کرو دیکھو یہ لوگ کس طرح ان تھک کوشش کر رہے ہیں کہاں امریکہ اور کہاں انگلینڈ وغیرہ اتنے دور دراز ملکوں سے پادریوں کو بھیجتے ہیں اور مال صرف اس لئے خرچتے ہیں کہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ اسلام اور توحید سے روکیں اور کفر اور تثلیث پرستی میں پھنسا دیں اور اسی دھن میں ہمیشہ خرچتے رہیں گے آخر ناکام ہوں گے اور وہ مال ان پر حسرت کا سبب ہوگا کہ ہائے ہم نے کیوں ضائع کیا پھر آخر کار مغلوب ہوجائیں گے ایسے کہ ان کا نام لیوا بھی عرب میں کوئی نہ ملے گا اور سب سے اخیر یہ فیصلہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی سیدھی راہ سے انکار کرنے والے کافر جہنم میں جمع کئے جائیں گے جس سے مطلب یہ ہوگا کہ دنیا میں تو نیک و بد کی تمیز نہ ہوئی اس وقت ان کو جہنم میں ڈالے گا۔ تاکہ اللہ تعالیٰ ناپاک کو پاک سے سے الگ کرے اور ناپاک بدباطن لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر ایک جگہ ڈھیر لگا دے پھر اس ڈھیر کو جہنم میں جھونک دے کیونکہ یہی لوگ سخت خسارہ اٹھانے والے ہیں اور ایسے لوگوں کا یہی انجام ہے (اس زمانہ میں آریوں نے جو شدھی کی تحریک جاری کی ہے جس پر ملک میں بڑے بڑے فساد ہوئے جس پر آریوں کو بڑا ناز ہے کہ ہم تو مسلمانوں کو مرتد کرنے میں کامیاب ہوں گے اس آیت میں اس شدھی کی اور اس کے انجام کی بابت بڑی زبردست پیشگوئی ہے جس کی تفصیل یوں ہے۔ زمانہ نزول قرآن میں کافروں کے مال خرچ کرنے کا ذکر ہے کہ اس غرض سے خرچ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ سے لوگوں کو روکیں۔ آریوں کی شدھی یقینا نمبر دوم میں داخل ہے اس لئے اس کے نتیجے بھی وہی ہوں گے جو کلام پاک میں مذکور ہیں یعنی خرچ کئے ہوئے اموال پر افسوس اور آخر کار مقابلے میں مغلوبی انشاء اللہ تعالیٰ تعالیٰ۔ سماجی دوستو ! ہم خاک نشینوں کا ستانا نہیں اچھا ہل جائیں گے افلاک جو فریاد کریں گے منہ) اب بھی تو کافروں سے کہہ دے اگر کفر سے باز آجائیں تو ان کے پہلے گناہ سب معاف کئے جائیں گے اور اگر انہوں نے پھر سر اٹھایا اور شرارت کی سوجھی تو پہلے کافروں کے واقعات گذر چکے ہیں۔ ان پر غور کریں جو ان کا انجام ہوا ان کا بھی ہوگا۔ مسلمانو ! تم ان مشرکوں کی ذرہ بھر پروا نہ کرو کیا کہتے ہیں کہتے رہیں تم اپنی کوشش میں لگے رہو اور اگر ان سے لڑائی کی ٹھن جائے تو خوب لڑو یہاں تک کہ فتنہ و فساد کا نام نہ رہے اور جیسا دستور ہے فاتح قوم کا بول بالا ہوتا ہے سب قانون ملکی دیوانی و فوجداری اللہ تعالیٰ کی کتاب کا رائج ہو اور تمام انتظام اسی کے مطابق ہو جو قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے بتلایا ہے پھر دیکھیں کیسی سرسبزی اور شادابی ہوتی ہے پھر بعد مغلوب ہونے اور قانون الٰہی رائج ہونے کے بھی اگر یہ لوگ شرارت اور خباثت سے باز آجائیں تو ان سے ویسا ہی معاملہ کیا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کے کاموں کو دیکھتا ہے انہی کے مطابق جزا دے گا تم نے ان کو کچھ نہ کہنا بلکہ اگر وہ کفر و شرک اور اپنی مذہبی رسوم ہی پر رہنا چاہیں لیکن ذمی اور ماتحت رعایا ہو کر رہیں تو رہنے دینا تم کو جائز نہیں کہ ایسے وقت میں ان پر دست درازی کرنے لگو۔ اور اگر وہ سرتابی اور سرکشی کریں گے اور بغاوت پھیلائیں گے تو تم جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہارا مددگار ہے وہ بہت ہی اچھا مولا اور بہت ہی اچھا حمایتی ہے اس کے ہوتے ہوئے تم کو کس کی ضرورت ہے وہ تم کو ہمیشہ فتح و نصرت دے گا اور مال غنیمت سے مالا مال کرے گا۔ پس تم اسی سے توقع کئے رہو