سورة البقرة - آیت 97

قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَىٰ قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

آپ کہہ دیجئے کہ اگر کوئی جبریل کا دشمن (١٥١) ہے (تو اسے کچھ نقصان نہیں) اس لیے کہ اس نے قرآن آپ کے دل پر اللہ کے حکم سے اتارا ہے، جو گذشتہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے، اور مومنین کے لیے ہدایت اور خوشخبری ہے

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(97۔101)۔ بھلا یہ بھی کوئی دینداروں کی بات ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ہم تو قرآن کو اس لئے نہیں مانتے کہ اس کا لانے والا جبرئیل فرشتہ ہے اور اس سے ہماری ابتدا سے دشمنی ہے کیونکہ وہ ہم پر ہمیشہ طرح طرح کے عذاب لاتا رہا اس نے ہم سے کبھی خیر نہیں کی۔ اے رسول ! تو کہدے یادرکھو جو کوئی ! جبرائیل سے دشمن ہوگا وہ سخت ٹوٹا پائے گا۔ اس لئے کہ وہ تو محض مامور ہے جو کچھ اسے حکم ہوتا ہے وہی کرتا ہے یہ قرآن مجید بھی اسی نے تیرے دل پر (اے محمدﷺ!) اللہ کے حکم سے نازل کیا ہے اگر اس میں کوئی ان یہودیوں کی برائی مذکور ہے تو اس کا قصور نہیں سو یہ وجہ تکذیب کی بیان کرنا بھی عبث ہے بلکہ اصل وجہ تکذیب کی جیسا کہ ہم پہلے بتلاآئے ہیں دوہی امر ہوا کرتے ہیں یا وہ کلام فی نفسہ کسی دلیل سے ثابت نہ ہو یا ثابت ہو یا ثابت ہو مگر کسی عقیدہ سابقہ مسلمہ کے خلاف ہوسو پہلے عذر کا جواب یہ ہے کہ یہ قرآن سچا بتلاتا ہے اپنے سامنے والی کتاب یینت تورات کو اور فی نفسہ کامل اور سچی ہدائیت ہے اور بڑی خوشخبری ہے اس کے ماننے والوں کو۔ اب بتلاؤ کہ مامور سے عداوت امر سے عداوت ہے یا نہیں۔ بھلا کوئی شخص کسی سپاہی سے جو حاکم کا حکم لیکر اس کے پاس آیا ہے۔ عداوت رکھے کہ یہ حکم کیوں لایا ہے تو ایسا شخص در اصل سپاہی سے عداوت نہیں رکھتا بلکی حاکم سے رکھتا ہے۔ ایسا ہی جبرئیل سے عداوت رکھنا گویا اللہ تعالیٰ سے بلکہ تمام اس کے مقربین ملائکہ سے عداوت ہے سو یاد رکھو جو شخص اللہ تعالیٰ سے اور اس کے مقربین ملائکہ یا اس کے رسولوں سے یا جبرئیل یا میکائیل سے عداوت رکھے گا وہ اپنی بہتری نہ دیکھے گا اس لئے کہ اللہ ایسے بے ایمان کافروں کا خود دشمن ہے ایسا ہی معاملہ ان سے کریگا اور ایسے عذاب میں پھنسائے گا جیسا کوئی دشمن کسی دشمن کو پھنسایا کرتا ہے جس سے کبھی رہائی نہ ہوگی بھلا یہ عذر ان کا کیسے مسموع ہوسکتا ہے حالانکہ ہم نے تیری طرف کھلی کھلی آیتیں اتاری ہیں جنہیں کسی طرح کا ایچ پیچ نہیں جن کو سب راست باز تسلیم کرتے ہیں اور بڑا بھاری ثبوت ان کی حقانیت کا یہ ہے کہ بدکار لوگ ہی ان سے انکاری ہوتے ہیں۔ کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بھی بڑے راستباز اور دیانت دار ہیں حالانکہ جب کبھی انہوں نے ہم سے کوئی عہد کیا کہ آئیندہ ضرور تابعدار رہیں گے تو ایک فریق نے ضرور اسے ایسا چھوڑا کہ گویا پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا۔ پھر اسی پر بس نہیں کی بلکہ بہت سے ان میں سے مانتے ہی نہیں سرے سے دین مذہب سے منکر ہیں۔ اور ان کی بے ایمانی کا ثبوت سنو ! کہ جب ان کے پاس اللہ کے ہاں سے ایک رسول (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آیا۔ جس کی رسالت کو بقرائن شہادت کتاب خوب ہی پہچان چکے ہیں جو ان کے ساتھ والی کتاب کی توحید میں تصدیق کرتا ہے تو با ایں ہم ایک جماعت نے ان کتاب پانے والوں میں سے اس رسول کا انکار کردیا اور کتاب اللہ تورات کو بھی اپنی پیٹھ پیچھے پھینک دیا اور ایسے ہوگئے گویا کچھ بھی نہیں جانتے شان نزول : (جو کوئی جبرئیل) ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے آنحضرتﷺ سے سوال کیا کہ آپ کے پاس کون فرشتہ قرآن لاتا ہے؟ آپ نے فرمایا جبرئیل۔ وہ بولا جبرئیل تو ہمارا قدیم سے دشمن ہے اس کی ہماری تو کبھی بنی ہی نہیں۔ ہمیشہ ہم پر عذاب لاتا رہا۔ اگر میکائیل ہوتا تو ہم مان لیتے۔ اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (معالم) سر سید کی ساتویں غلطی : ! (جو کوئی جبرئیل کا) اس آیت میں اللہ تعالیٰ جبرئیل کا ذکر فرماتا ہے اور اس کی ہستی جدا گانہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ یہ مسئلہ (کہ جبرئیل ایک فرشتہ ہے جو انبیاء پر اللہ تعالیٰ کا کلام لایا کرتا ہے) تمام اہل الکتاب (یہود نصاریٰ اہل اسلام) میں متفق علیہ ہے۔ قرآن مجید میں اس کا کئی جگہ ذکر صریح آیا ہے اور احادیث نبویہ تو بھری پڑی ہیں مگر باایں ہمہ سر سید احمد خاں نے حسب عادت قدیمہ باوجود دعوٰے اسلام کے اس سے بھی انکار کیا ہے۔ چنانچہ اپنی تفسیر کی جلد اوّل میں فرماتے ہیں :۔ ” یہ جبرئیل ایک ملکہ فطرتی کا نام ہے جو انبیاء میں ابتداء فطرت سے ہوتا ہے وہی ملکہ اس کو بلاتا ہے وہی اس (نبی) میں نئے نئے خیالات پیدا کرتا ہے یا پیدا کرنے کا باعث ہوتا ہے جیسا کہ ایک لوہار کو اپنے فن آہنگری میں نئے نئے قسم کے خیالات سوجھتے ہیں یا جیسا کہ (معاذ اللہ) ایک دیوانہ کو نئے نئے جوش از خود اٹھتے ہیں حالانکہ اس کے پاس کوئی نہیں ہوتا۔ مگر وہ کسی کو اپنے پاس کھڑا سمجھ کر باتیں کیا کرتا ہے۔ اسی طرح (بقول سید صاحب) نبی اپنی نبوت کو نباہتا ہے اس کے پاس بھی سوائے اس ملکہ نبوت کے کوئی جبرئیل نہیں آتا۔ مگر وہ اس ملکہ کے ذریعہ سے سمجھتا ہے کہ میرے پاس کوئی کھڑا مجھ سے باتیں کر رہا ہے حالانکہ دراصل کوئی بھی اس سے باتیں نہیں کرتا۔ بلکہ اس کے دل سے فوارہ کی طرح وحی اٹھتی ہے اور اسی پر گرتی ہے جس کو وہ خود ہی الہام کہتا ہے (خلاصہ صفحہ ٢٩) ناظرینؔ! یہ ہے سرسید کی کمال تحقیق۔ جس پر بڑا فخر کرتے ہوئے علماء اسلام کو کوڑ مغز ملا شہوت پرست زاہد وغیرہ وغیرہ القاب بخشا کرتے ہیں جس کے جواب میں علماء کہا کرتے ہیں بدم گفتی و خر سندم عفاک اللہ نکوگفنی نہیں معلوم سید صاحب کو بے ثبوت کہنے کی کیوں عادت ہے بےدلیل بات اور بے ثبوت دعویٰ کرنے کے خوگیر کیوں تھے؟ ہم اپنے ناظرین ہی سے نہیں بلکہ سید صاحب کے بااخلاص احباب سے بھی دریافت کرتے ہیں کہ آپ نے اس امر پر کوئی دلیل ایسی بھی بیان کی ہے جس سے ایسا بڑا اہم مسئلہ جس کے ماننے کی تعلیم تمام سلسلہ نبوت میں پائی جاتی ہے طے ہوجائے۔ ہاں میں بھول گیا۔ ایک دلیل بھی بزعم خود لائے ہیں جس کا ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ فرماتے ہیں :۔ قولہٗ:۔ ” اللہ نے بہت سی جگہ قرآن (مجید) میں جبرئیل کا نام لیا ہے مگر سورۃ بقر میں اس کی ماہیت بتا دی ہے جہاں فرمایا ہے کہ جبرئیل نے تیرے دل میں قرآن کو اللہ کے حکم سے ڈالا ہے۔ دل پر اتارنے والی یا دل میں ڈالنے والی چیز وہی ہوتی ہے جو خود انسان کی فطرت میں ہو نہ کوئی دوسری چیز جو فطرت سے خارج اور خود اس کی خلقت سے جس کے دل پر ڈالی گئی ہے جدا گانہ ہو“ (جلد اوّل صفحہ ٣٠) سید صاحب کے کیا کہنے ہیں یہ تو خیال فرما لیا ہوتا کہ ماہیت شئے کس کو کہتے ہیں ماہیت تو ذاتیات کو سنا تھا جن کا ذات سے تاخر محال ہے جیسے کہ انسان کی ماہیت حیوان ناطق (وغیرہ) کا تاخر انسان سے ممکن نہیں۔ پس اب میں پوچھتا ہوں کہ اگر تنزیل ماہیت جبرئیل ہے تو جب سے جبرئیل ہے تب سے ہی تنزیل ہوگی۔ حالانکہ تنزیل آنحضرتﷺ پر چالیس سال بعد شروع ہوئی اور جبرئیل تو بقول آپ کے ابتدائے پیدائش ہی سے ہوتا ہے چنانچہ آپ نے اس امر کی تصریح بھی کردی ہے جو لکھتے ہیں :۔ ” جس میں اخلاق انسانی کی تعلیم و تربیت کا ملکہ بمقتضائے اس کی فطرت کے اللہ تعالیٰ سے عنائت ہوتا ہے وہ پیغمبر کہلاتا ہے“ (صفحہ ٢٨) پھر آگے چل کر تحریر فرماتے ہیں : ” جس طرح اور قوٰی انسانی بمناسبت اس کے اعضاء کے قوی ہوتے جاتے ہیں اسی طرح یہ ملکہ بھی قوی ہوتا جاتا ہے اور جب اپنی قوت پر پہنچ جاتا ہے تو اس سے وہ ظہور میں آتا ہے۔ جس کو عرف عام میں بعثت سے تعبیر کرتے ہیں“ (صفحہ ٢٩) بتلا دیں ذات کا تقدم ذاتیات یا ماہیت سے ہوا یا نہیں فافھم فانہ دقیق خیر اس کو تو آپ ” شعر مرا بمدرسہ کہ برد“ کا مصداق بتادیں گے اور مولویا نہ فضول جھگڑا بتاویں گے اس لئے ہم بھی اس سے درگذر کرتے ہیں لیکن یہ بات کہ دل پر اتارنے والی یا دل میں ڈالنے والی وہی چیز ہوتی ہے جو خود انسان کی فطرت میں ہو نہ کوئی دوسری چیز جو فطرت سے خارج ہو اور خود اس کی خلقت سے جس کے دل پر ڈالی گئی ہے جدا گانہ ہو جس سے آپ نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ :۔ ” اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسی ملکہ نبوت کا جو اللہ تعالیٰ نے انبیاء میں پیدا کیا ہے جبرئیل نام ہے“ (صفحہ ٣٠) ہرگز قابل پذیرائی نہیں اس لئے کہ دل میں ڈالنا یا دل پر کسی چیز کا اتارنا یہ محاورہ ہے اس کے ذہن نشین کرنے سے بھلا اور کسی کی شہادت اس بارے میں تو آپ کا ہے کوئی مانیں گے آپ ہی کے لخت جگر آنریبل سید محمود صاحب مرحوم (جو بفحوائے ابن الفقیہ نصف الفقیہ گویا کہ آپ ہی ہیں) کا کلام پیش کرتا ہوں جو غالباً آپ کے ملاحظہ سے گذر کر تہذیب الاخلاق نمبر ٢ بابت ذی قعدہ ١٣١١ ھ؁ صفحہ ٣٢ کلام ٢ میں چھپا ہے جو میرے اس دعویٰ کی کامل شہادت ہے وہو ہذا :۔ سید محمود کی شہادت : ” میں سلطان کے پاس جاتا ہوں۔ ٹھیرمت جا۔ میں ابھی اس کے حضور سے آتا ہوں۔ اور اس دل میں ایسی باتیں ڈال آیا ہوں جو غرناطہ کے بادشاہ کو زبیا ہیں “ فرماویں اور سچ فرماویں کہ اس کا قائل کون تھا؟ کیا کوئی اہل زبان اس کے معنے یہ سمجھے گا کہ اس کلام کا قائل بادشاہ کے قویٰ ہیں۔ دور کیوں جائے گا اپنے صاحبزادے ہی سے ذرہ دریافت فرمالیں کہ انہوں نے کیا سمجھ کر اس کو لکھا تھا۔ یا اپنی کا نشنس (طبیعت) سے بانصاف استفسار کریں کہ آپ نے اس کلام سے بھی یہی معنے سمجھے تھے جو اس آیت سے بتلا رہے ہیں۔ حاشا وکلا ہرگز نہیں۔ سید صاحب ! یہی عرب کا محاورہ ہے اور اس میں کسی زبان کی کچھ خصوصیت بھی نہیں۔ سب زبانوں میں برابر یہی محاورہ بولا جاتا ہے۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ سب اہل زبان اس میں مجھ سے اتفاق رائے کریں گے۔ پس آپ کا جبرئیل اس آیت سے ثابت نہ ہوا کہ وہ انسانی قویٰ ہیں ہاں یہ ثابت ہو کہ جبرئیل بھی کوئی شخص ہے جو قرآن مجید آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فدا روحی کے ذہین نشین کیا کرتا تھا۔ پھر یہ دلیل آپ کی ہوئی یا آپ کے مخالف کی؟ سچ ہے ؎ دوست ہی دشمن جاں ہوگیا اپنا حافظؔ نوش دارو نے کیا اثر سم پیدا پھر آپ کا فرمانا کہ : ” یہی مطلب قرآن کی بہت سی آیتوں سے پایا جاتا ہے جیسا کہ سورۃ قیامہ میں فرمایا ہے کہ اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ۔ یعنی ہمارے ذمہ ہے وحی کو تیرے دل میں اکٹھا کرنے اور اس کے پڑھنے کا۔ فَاِذَا قَرَئْ نَاہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ۔ پھر جب ہم اس کو پڑھ چکیں تو اس پڑھنے کی پیروی کر ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ پھر ہمارا ذمہ ہے اس کا مطلب بتانا۔ ان آیتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور پیغمبر میں کوئی واسطہ نہیں خود اللہ تعالیٰ ہی پیغمبر کے دل میں وحی جمع کرتا ہے وہی پڑھتا ہے وہ مطلب بتاتا ہے اور یہ سب کام اسی فطری قوت نبوی کے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مثل دیگر قویٰ انسانی کے انبیاء میں بمقتضائے ان کی فطرت کے پیدا کی ہے اور وہی قوت ناموس اکبر ہے۔ اور وہی قوت جبرئیل پیغمبر“ (جلد اوّل صفحہ ٣٠) عجیب ہی رنگ دکھا رہا ہے۔ سید صاحب ! واسطہ کی نفی تو جب ہوگی کہ اس فطری قوت کا بھی انکار کیا جاوے جسے آپ تسلیم کرتے ہیں اس کے ہوتے ہوئے واسطہ کی نفی کرنا آپ جیسے دانائوں کی شان سے بعید ہے شائد کہ آپ فطری قوت نبوی میں اور جناب باری میں اتحاد محض کے قائل ہوں وھو کما ترٰی۔ سید صاحب انصاف فرمائے کہ آپ نے کس قدر اس آیت میں تصرفات کئے۔ اول تو آپ نے قرءنا میں نسبت حقیقی سمجھی پھر اسے بھول کر سب کو فعل فطری بنایا وھل ھٰذا لاتھافت قبیح وتناقض صریح۔ اگر آپ اس کی یہ توجیہ فرما دیں کہ قرئت حقیقتہً اس قوت فطری کا فعل ہے لیکن مجازاً اسی جناب باری سے نسبت کرسکتے ہیں اس لئے ہم کہتے ہیں کہ خود اللہ ہی پیغمبر کے دل میں وحی جمع کرتا ہے اور پڑھتا ہے اور مطلب بتاتا ہے اور یہ سب کام اسی فطری قوت کے ہیں“ تو آپ کا اور ہمارا چنداں اختلاف نہ رہے گا اس لئے کہ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ اس آیت میں نسبت مجازی ہے جیسی کہ یُجَادِلُنَا فِیْ قَوْمِ لُوْطٍ میں ہے یعی حقیقت میں تو قرئت فعل جبرئیل کا ہے مگر مجازاً جناب باری نے اپنی طرف منسوب کر کے فاذا قراء نا فرمایا ہے پس جب تک کہ آپ دلائل خارجیہ سے اس امر کا ثبوت نہ دیں کہ جبرئیل کا وجود مستقل یا یوں کہئے کہ بالمعنے المتعارف نہیں ہوسکتا اور اس سے مراد قویٰ فطری ہیں جو مثل دیگر قویٰ کے انبیاء میں ہوا کرتے ہیں تب تک آپ کی یہ توجیہیں تار عنکبوت سے بھی ضعیف سمجھی جائیں گی۔ ودونہ خرط القتاد۔ اسی طرح سورۃ والنجم کی آیت وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْرٰی کی نسبت آپ کا فرمانا کہ ” یہ تمام مشاہدہ اگر انہیں ظاہری آنکھوں سے تھا تو وہ عکس خود اپنی دل کی تجلیات ربانی کا تھا جو بمقتضائے فطرت انسانی و فطرت نبوت دکھائی دیتا تھا۔ اور دراصل بجز ملکہ نبوت کے جس کو جبرئیل کہو یا اور کچھ۔ کچھ نہ تھا۔ (صفحہ ٣٠) ہرگز قابل التفات نہیں جب تک کہ آپ اس کا ثبوت نہ دیں کہ جبرئیل کا وجود مستقل (جیسا کہ قرآن مجید کے ظاہری الفاظ سے ثابت ہوتا ہے اور تمام اہل ادیان (یہود نصارٰی مسلمان اس کو تسلیم کرتے ہیں) نہیں ہوسکتا سنا تھا کہ اہل علم قدیماً و حدیثاً اس سے پرہیز کرتے تھے۔ کہ کوئی بات ایسی منہ سے نہ نکالیں جس کی دلیل نہ ہو۔ مگر آپ نے اس شنید کی خوب ہی تکذیب کی۔ سچ ہے ترا دیدۂ و یوسف را شنیدہ شنیدہ کے بود مانند دیدہ بلا سے کبھی آپ نے کوئی دلیل مثبت مدعا بیان کی ہو جس کا جواب دینا مقابل پر ضروری ہو بجز اس کے کہ دعویٰ کی دلیل دعوٰے ہوتا ہے۔ ہاں اس میں شک نہیں کہ بہت سے لوگ بوجہ علوم شرعیہ سے ناواقفی اور آپ سے حسن ظن رکھنے کے آپ کی بےدلیل باتیں بھی قبول کرلیں گے۔ مگر اہل علم تو ایسی بےدلیل بات پر توجہ نہیں کیا کرتے۔ کیونکہ ان کے ہاں یہ اصول ہے نگفتہ ندار و کسے باتو کار ولیکن چوگفتی دلیلش بیار (منہ) مولانا عبدالحق صاحب مصنف تفسیر حقانی دہلوی نے اس ملکہ کا جواب یہ دیا ہے کہ اگر جبرئیل ملکہ نبوت کا نام تھا تو یہود کے جواب میں جو جبرئیل کو اپنا دشمن جانتے تھے یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ جس جبرئیل (ملکۂ نبوت) کے ساتھ تمہاری عداوت ہے وہ تو اپنے نبی کے ساتھ چلا گیا۔ کیونکہ عوارض اپنے معروض سے ہوتے ہیں۔ یہ تو جبرئیل (ملکۂ نبوت محمدی) اور ہی ہے۔ لیکن میں نے اس لئے اس کو نقل نہ کیا کہ شاید سید صاحب ماہیت نوعیہ سے عداوت بتلا دیں۔ جو تغیر افراد سے بدلا نہیں کرتی۔ جیسی کرپانی اور آگ یا انسان اور سانپ میں۔ ١٢ فافہم