وَإِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ۗ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ قَدْ جَاءَتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ ۖ هَٰذِهِ نَاقَةُ اللَّهِ لَكُمْ آيَةً ۖ فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِي أَرْضِ اللَّهِ ۖ وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اور ہم نے ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح (48) کو بھیجا، اس نے کہا، اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو، اس کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں ہے، تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس کھلی دلیل آچکی ہے، یہ اللہ کی اونٹنی ہے جسے اللہ نے تمہارے لیے بطور نشانی بھیجی ہے، تم لوگ اسے چھوڑ دو اللہ کی زمین میں کھاتی پھرے، اور کوئی تکلیف نہ پہنچا، ورنہ تمہیں دردناک عذاب پکڑ لے گا
(73۔84) اور ہم نے ثمودیوں کی طرف ان کے بھائی صالح کو رسول کر کے بھیجا اس نے بھی یہی کہا بھائیو ! اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرو۔ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک واضح دلیل بھی تم کے پاس آئی ہے۔ اگر غور کرو گے تو مفید پائو گے لو یہ میری دعا سے اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی اونٹنی تمہارے لئے معجزہ ہے) یہ اونٹنی کیسے پیدا ہوئی تھی اس کی بات کسی آیت یا حدیث میں ثبوت نہیں اتنا تو قرآن کی نصوص سے ثابت ہے کہ اس کی پیدائش میں کچھ عجوبہ امر تھا جو اس کو آیت نبوت کہا گیا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (منہ) ( پس اسے چھوڑ دو اللہ تعالیٰ کی زمین میں کھاتی پھرے اور بغرض ایذا رسانی اسے ہاتھ نہ لگانا۔ ورنہ دکھ کی مار تم کو پہنچے گی اور اس احسان اللہ تعالیٰ کو یاد کرو کہ اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کے بعد تم کو زمین پر نائب بنایا اور زمین میں تم کو جگہ دی اور ڈھب سکھایا کہ تم صاف زمین میں بڑے بڑے محل بنا لیتے ہو اور پہاڑوں کو کھود کر گھر بناتے ہو پس تم اللہ تعالیٰ کے احسان مانو اور زمین میں ناحق فتنہ و فساد نہ پھیلاتے پھرو۔ اس کی قوم کے متکبر سرگروہوں نے ضعیف لوگوں کو جو ایمان لائے ہوئے تھے کہا تمہیں اس بات کا یقین ہے کہ حضرت صالح (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کا رسول ہے۔ وہ بولے یقین کا جو کچھ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لے کر آیا ہے ہمارا اس پر ایمان ہے۔ ان متکبروں نے کہا جسے تم نے بلا سوچے سمجھے مانا ہے ہم اس سے منکر ہیں ہماری سمجھ میں وہ بات نہیں آتی۔ تم تو ظاہر میں بزدل ہو۔ صالح کے ڈرانے سے تم ڈر گئے ہو۔ بڑا ڈر تو وہ اونٹنی کا سناتا ہے۔ سو آج ہم اس کا فیصلہ ہی کئے دیتے ہیں پس انہوں نے اونٹنی کو مار ڈالا اور اپنے پروردگار کے حکم سے سرکشی اختیار کی اور بولے اے صالح ! اگر تو رسول ہے تو جس بات کا ہم کو ڈراوا دیتا ہے ہم پر لے آ۔ دیکھیں تو کیا ہوتا ہے پس ان کے کہنے کی دیر تھی کہ ان پر زلزلہ آیا تو وہ صبح کو اپنے گھروں میں بیٹھے کے بیٹھے ہی رہ گئے اور دم نکل گیا۔ پس صالح (علیہ السلام) ان کی یہ حالت دیکھ کر ان سے ہٹ گیا اور بولا۔ میری قوم کے لوگو ! افسوس میں نے تم کو اپنے پروردگار کے پیغام پہنچائے اور تمہاری خیر خواہی بھی کی۔ مگر تم ایسے شریر ہو کہ خیر خواہوں کو اپنا دوست نہیں جانتے۔ بلکہ الٹے بگڑتے ہو۔ پس اس کہے کا نتیجہ تم نے پایا۔ اور لوط (علیہ السلام) کو بھی ہم نے رسول کر کے بھیجا۔ اس نے بھی اپنی قوم کو بہت کچھ سمجھایا اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بلایا۔ اس کے تمام واقعات میں سے وہ واقعہ ضروری قابل تذکرہ ہے جب اس نے اپنی قوم کے لوگوں کو لواطت جیسی بے حیائی سے روکنے کے لئے کہا تھا۔ کیا تم ایسی بے حیائی کے مرتکب ہوتے ہو جو تم سے پہلے دنیا کے کسی باشندے نے نہیں کی۔ غضب ہے کہ تم عورتوں کو جو خاص اسی کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں چھوڑ کر لڑکوں سے شہوت رانی کرتے ہو بلکہ تم اسی طرح کئی امور قبیحہ کر کے حد سے بڑھے ہوئے ہو یہ سن کر معقول جواب تو دے نہ سکے اور بجز اس کے کچھ نہ بولے۔ کہ ایک دوسرے کو مخاطب کر کے تمسخر سے کہنے لگے کہ میاں اپنی بستی سے ان نیک آدمیوں کو جو لوط کے تابع ہوئے ہیں نکال دو کیونکہ یہ نیک پاک آدمی ہیں ان کو ہم گنہگاروں میں رہنے سے کیا مطلب۔ پس جب وہ حسد سے ہی متجاوز ہونے لگے تو ہم نے لوط کو اور اس کے تابعداروں کو بچا لیا مگر اس کی عورت اپنی بے فرمانی اور شرارت کی وجہ سے تباہ ہونے والوں میں رہی اور انہیں کی سنگت میں ہلاک ہوئی وہ بھی برباد کئے گئے اور ہم نے ان پر پتھروں کی بارش برسائی پس تو غور کر کہ بدکاروں کا انجام کیسا برا ہوا۔