يَا بَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي ۙ فَمَنِ اتَّقَىٰ وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
اے آدم کی اولاد ! اگر تمہارے پاس تم ہی میں سے میرے رسول آئیں (25) جو تمہیں میری آیتیں پڑھ کر سنائیں، تو جو کوئی تقوی کی راہ اختیار کرے گا اور عمل صالح کرے گا اسے نہ مستقبل کا کوئی خوف لاحق ہوگا اور نہ ماضی کا کوئی غم
جب اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو جنت سے نکال دیا تو ان کو رسول بھیج کر اور کتابیں نازل کر کے آزمایا۔ یہ رسول ان کو اللہ تعالیٰ کی آیتیں پڑھ کر سناتے تھے اور اس کے احکام ان پر واضح کرتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی فضیلت بیان فرمائی جس نے رسولوں کی دعوت پر لبیک کہا اور اس شخص کا خسارہ بیان کیا جس نے رسولوں کی دعوت کا جواب نہ دیا۔ چنانچہ فرمایا :﴿فَمَنِ اتَّقَىٰ﴾ ” پس جس شخص نے تقویٰ اختیار کیا۔“ یعنی جو ان امور سے بچ گیا جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے مثلاً شرک اور دیگر کبیرہ اور صغیرہ گناہ ﴿ وَأَصْلَحَ﴾ ” اور اس نے (ظاہری اور باطنی اعمال کی) اصلاح کرلی۔“ ﴿ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ ﴾ ” تو ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا۔“ یعنی وہ اس شر کے خوف سے مامون ہوں گے جس سے دیگر لوگ خوفزدہ ہوں گے۔﴿وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾ ” اور نہ وہ (گزرے ہوئے واقعات پر) غمگین ہوں گے۔“ جب ان سے حزن و خوف کی نفی ہوگئی تو انہیں کامل امن اور ابدی فلاح و سعادت حاصل ہوگئی۔