فَرِيقًا هَدَىٰ وَفَرِيقًا حَقَّ عَلَيْهِمُ الضَّلَالَةُ ۗ إِنَّهُمُ اتَّخَذُوا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ اللَّهِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ
اللہ نے ایک جماعت کو ہدایت دی، اور ایک دوسری جماعت کی قسمت میں گمراہی آئی، بے شک ان لوگوں نے اللہ کے بجائے شیطانوں کو اپنا دوست اور مددگار بنا لیا تھا، اور ان کا خیال تھا کہ وہ راہ راست پر ہیں
﴿فَرِيقًا ﴾” ایک فریق کو“ یعنی تم میں سے ایک فریق کو ﴿هَدَىٰ ﴾” اس نے ہدایت دی۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اسے ہدایت کی توفیق سے نوازا، اس کے اسباب مہیا کئے اور اس کے موانع کو اس سے دور کیا﴿وَفَرِيقًا حَقَّ عَلَيْهِمُ الضَّلَالَةُ ﴾ ” اور ایک فریق، ثابت ہوگئی اس پر گمراہی“ چونکہ انہوں نے گمراہی کے اسباب اختیار کئے اور ہلاکت کے اسباب پر عمل پیرا ہوئے اس لئے اس لئے اللہ تعالیٰ نے گمراہی کو ان پر واجب کردیا۔ ﴿ إِنَّهُمُ اتَّخَذُوا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ اللَّـهِ ﴾” انہوں نے شیطانوں کو رفیق بنایا، اللہ کو چھوڑ کر“ اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا دوست بناتا ہے وہ واضح خسارے میں مبتلا ہوجاتا ہے اور چونکہ وہ اللہ رحمٰن کی ولایت اور دوستی سے نکل گئے اور انہوں نے شیطان کی دوستی کو پسند کرلیا، اس لئے انہیں اللہ تعالیٰ کی مدد و توفیق سے محرومی میں سے وافر حصہ نصیب ہوا اور چونکہ انہوں نے اپنے آپ پر بھروسہ کیا اس لئے وہ بہت بڑے خسارے میں پڑے گئے۔﴿وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ ﴾ ” اور وہ گمان کرتے ہیں کہ وہ ہدایت پر ہیں“ یعنی ان کے ہاں حقائق بدل گئے اور انہوں نے باطل کو حق اور حق کو باطل سمجھ لیا۔ ان آیات کریمہ میں اس امر کی دلیل ہے کہ اوامرونواہی اللہ تعالیٰ کی حکمت و مصلحت کے تابع ہیں، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ اللہ تعالیٰ کسی ایسے امر کا حکم دے جسے عقل فحش سمجھتی ہو اور اسے ناپسند کرتی ہو اور اللہ تعالیٰ عدل و انصاف کے سوا کسی چیز کا حکم نہیں دیتا۔ اس میں اس امر کی بھی دلیل ہے کہ ہدایت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اس کا دار و مدار اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم پر ہے اور گمراہی یہ ہے کہ جب بندہ اپنے ظلم و جہالت سے شیطان کو اپنا دوست اور اس کو اپنی گمراہی کا سبب بنا لے تو اللہ اس سے علیحدہ ہوجاتا ہے اور اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے اور جو کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ راہ ہدایت پر ہے درآں حالیہ وہ بھٹک چکا ہو تو اس کے لئے کوئی عذر نہیں کیونکہ وہ ہدایت حاصل کرسکتا تھا، لیکن اس نے اپنے گمان ہی کو سب کچھ سمجھا اور ہدایت کی منزل کو پہنچانے والے راستے کو ترک کر کے اپنے آپ پر ظلم کیا۔