سورة الانعام - آیت 149

قُلْ فَلِلَّهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ ۖ فَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

آپ کہئے کہ حجت تامہ (149) صرف اللہ کے پاس ہے، پس اگر وہ چاہتا تو تم سب کو راہ راست پر لا کھڑا کرتا

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

(٣) حجت بالغہ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، جو کسی کے لئے کوئی عذر نہیں رہنے دیتی، جس پر تمام انبیاء و مرسلین، تمام کتب الٰہیہ، تمام آثار نبویہ، عقل صحیح، فطرت سلیم اور اخلاق مستقیم متفق ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ جو کوئی اس آیت قاطعہ کی مخالفت کرتا ہے وہ باطل ہے، کیونکہ حق کی مخالفت کرنے والا باطل کے سوا کچھ بھی نہیں۔ (٤) اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر انسان کو قدرت اور ارادہ عطا کیا ہے جس کے ذریعے سے وہ ان تمام افعال کے ارتکاب پر قادر ہے جن کا اسے مکلف کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی انسان پر کوئی ایسی چیز واجب نہیں کی جس کے فعل پر وہ قدرت نہیں رکھتا اور نہ کسی ایسی چیز کو اس پر حرام ٹھہرایا ہے جس کو ترک کرنے کی وہ طاقت نہیں رکھتا۔ پس اس کے بعد قضاء و قدر کو دلیل بنانا محض ظلم اور مجرد عناد ہے۔ (٥) اللہ تعالیٰ نے بندوں کے افعال میں جبر نہیں کیا، بلکہ ان کے افعال کو ان کے اختیار کے تابع بنایا ہے۔ پس اگر وہ چاہیں تو کسی فعل کا ارتکاب کریں اور اگر چاہیں تو اس فعل کے ارتکاب سے باز رہ سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کا انکار صرف وہی کرسکتا ہے جو حق کے ساتھ عناد رکھتا ہے اور محسوسات کا انکار کرتا ہے، کیونکہ ہر شخص حرکت اختیاری اور حرکت جبری میں امتیاز کرسکتا ہے اگرچہ تمام حرکات اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کے ارادے کے تحت آتی ہیں۔ (٦) اپنے گناہوں پر قضا و قدر کو دلیل بنانے والے تناقص (تضاد) کا شکار ہیں، کیونکہ ان کے لئے اس کو درست ثابت کرنا ممکن نہیں۔ بلکہ اگر کوئی مار پیٹ یا مال وغیرہ چھین کر ان کے ساتھ برا سلوک کر کے تقدیر کا بہانہ پیش کرتا ہے تو وہ اس شخص کی دلیل کو کبھی قبول نہیں کریں گے اور اس شخص پر سخت ناراض ہوں گے۔ نہایت عجیب بات ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کی ناراضی کے کاموں پر تو قضا و قدر کا عذر پیش کرتے ہیں اور اگر کوئی ان کے ساتھ برا سلوک کر کے ان کو یہی دلیل پیش کرتا ہے تو اسے قبول نہیں کرتے۔ (٧) قضا و قدر سے استدلال کرنا ان کا مقصد نہیں ہے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ قضا و قدر کا عذر دلیل نہیں۔ ان کا مقصد تو صرف حق کو ٹھکرانا اور اس کو روکنا ہے کیونکہ وہ حق کو یوں سمجھتے ہیں جیسے کوئی حملہ آور ہو۔ چنانچہ وہ ہر صحیح یا غلط خیال کے ذریعے سے، جو ان کے دل میں آتا ہے، حق کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔