وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُم مِّنَ الْإِنسِ ۖ وَقَالَ أَوْلِيَاؤُهُم مِّنَ الْإِنسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَبَلَغْنَا أَجَلَنَا الَّذِي أَجَّلْتَ لَنَا ۚ قَالَ النَّارُ مَثْوَاكُمْ خَالِدِينَ فِيهَا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۗ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ
اور جس دن اللہ تمام (جنوں اور انسانوں) کو اکٹھا (127) کرے گا اور کہے گا کہ اے جنوں کی جماعت ! تم نے تو انسانوں کی بہت بڑی تعداد کو اپنا فرمانبردار بنا لیا، اور انسانوں میں سے ان کے دوست کہیں گے، اے ہمارے رب ! ہم میں سے ایک نے دوسرے سے فائدہ اٹھایا تھا، اور ہم اس میعاد کو پہنچ گئے جو تو نے ہمارے لیے مقرر کیا تھا، اللہ کہے گا کہ تمہارا ٹھکانا آگ ہے جس میں ہمیشہ کے لیے رہو گے، مگر اللہ جو چاہے گا (128) (اسے ہونا ہے) (یعنی جسے چاہے گا اپنی مرضی سے جہنم سے نکال دے گا) بے شک آپ کا رب بڑی حکمتوں والا، بڑے علم والا ہے
﴿وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ﴾” اور جس دن جمع کرے گا ان سب کو“ یعنی تمام جن و انس کو، ان میں سے جو گمراہ ہوئے اور جنہوں نے دوسروں کو گمراہ کیا۔ اللہ تعالیٰ جنوں کو، جنہوں نے انسانوں کو گمراہ کیا، برائی کو ان کے سامنے مزین کیا اور ارتکاب معاصی میں ان کی مدد کی، زجز و توبیح کرتے ہوئے فرمائے گا : ﴿ يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُم مِّنَ الْإِنسِ ﴾ ” اے گروہ جنات تم نے انسانوں سے بہت (فائدے) حاصل کئے۔“ یعنی اے جنوں کی جماعت ! تم نے انسانوں کو خوب گمراہ کیا اور ان کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکا۔ تم نے کیسے میرے محارم کی خلاف ورزی کی اور میرے رسولوں کے ساتھ عناد رکھنے کی جرأت کی اور تم اللہ تعالیٰ کے خلاف جنگ کرنے کے لئے کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اس کے راستے سے روکنے اور جہنم کے راستے پر دھکیلنے کی کوشش کی؟ آج تم میری لعنت کے حق دار ہو اور تم پر میری ناراضی واجب ہوگئی۔ آج ہم تمہیں، تمہارے کفر اور دوسروں کو گمراہ کرنے کے مطابق زیادہ عذاب دیں گے۔ آج تمہارے پاس کوئی عذر نہیں جو پیش کرسکو، کوئی ٹھکانا نہیں جہاں تم پناہ لے سکو، کوئی سفارشی نہیں جو تمہاری سفارش کرسکے اور نہ تمہاری پکار ہی سنی جائے گی۔ اس وقت مت پوچھئے کہ ان پر سزا کے کون سے پہاڑ ٹوٹیں گے اور انہیں کون سی رسوائی اور وبال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے کسی عذر کا ذکر نہیں فرمایا۔ رہے ان کے دوست انسان تو وہ عذر پیش کریں گے جسے قبول نہیں کیا جائے گا﴿ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ ﴾” اے رب ہمارے ! فائدہ اٹھایا ہم میں سے ایک نے دوسرے سے“ یعنی تمام جنوں اور انسانوں نے ایک دوسرے سے خوب فائدہ اٹھایا جنوں نے انسانوں سے اپنی اطاعت، اپنی عبادت اور اپنی تعظیم کروا کے اور ان کی پناہ کی طلب سے فائدہ اٹھایا۔ اور انسان جنوں کی خدمت کے مطابق اپنی اغراض اور شہوات کے حصول میں ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ انسان جنوں کی عبادت کرتے ہیں، جن ان کی خدمت کرتے ہیں اور ان کی دنیاوی حاجتیں پوری کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہم سے بہت ہی گناہ سر زد ہوئے اور اب ان کا لوٹانا ممکن نہیں ﴿وَبَلَغْنَا أَجَلَنَا الَّذِي أَجَّلْتَ لَنَا ﴾ ” اور ہم پہنچے اپنے اس وعدے کو جو تو نے ہمارے لئے مقرر کیا تھا“ یعنی اب ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں ہمیں ہمارے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔ اب تو جو چاہے ہمارے ساتھ سلوک کر اور جو تیرا ارادہ ہے ہمارے بارے میں، وہی فیصلہ کر۔ ہماری حجت تو منقطع ہوگئی، ہمارے پاس کوئی عذر باقی نہیں رہا۔ معاملہ وہ ہو گا جو تیرا حکم ہے۔ فیصلہ وہی ہے جو تیرا فیصلہ ہے۔ ان کے اس کلام میں ایک قسم کی گریہ زاری اور رقت ہے مگر یہ سب کچھ بے وقت اور بے موقف ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں عدل پر مبنی فیصلہ جو ظلم و جور سے پاک ہے، کرتے ہوئے فرمایا ﴿ النَّارُ مَثْوَاكُمْ خَالِدِينَ فِيهَا ﴾ ہے۔ اس لئے فرمایا : ﴿ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ ﴾ ”بے شک تمہارا رب دانا، خبردار ہے۔“ جیسے اس کا علم تمام اشیاء کا احاطہ کئے ہوئے ہے، ویسے ہی اس کی بے انتہا حکمت تمام اشیاء پر عام اور تمام اشیاء کو شامل ہے۔