وَإِذَا جَاءَتْهُمْ آيَةٌ قَالُوا لَن نُّؤْمِنَ حَتَّىٰ نُؤْتَىٰ مِثْلَ مَا أُوتِيَ رُسُلُ اللَّهِ ۘ اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ ۗ سَيُصِيبُ الَّذِينَ أَجْرَمُوا صَغَارٌ عِندَ اللَّهِ وَعَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا كَانُوا يَمْكُرُونَ
اور جب ان کے پاس کوئی نشانی (121) آتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو ہرگز ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ ہمیں وہ چیز (یعنی رسالت) نہ دی جائے جو اللہ کے رسولوں کو دی جاتی تھی، اللہ کو خوب معلوم ہے کہ وہ اپنی رسالت کہاں ودیعت کرے، عنقریب ان مجرموں (122) کو اللہ کے نزدیک ان کے مکر و فریب کی وجہ سے ذلت و رسوائی اور شدید عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا
﴿اللَّـهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ ﴾” اللہ خوب جانتا ہے اس موقع کو جہاں رکھے وہ اپنی پیغمبری“ یعنی اللہ کے علم میں جو رسول بننے کا اہل ہے، جو رسالت کے بوجھ کو اٹھا سکتا ہے، جو ہر قسم کے خلق جمیل سے متصف اور ہر قسم کے گندے اخلاق سے مبرا ہو، اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے تقاضے کے مطابق اسے رسالت کا منصب عطا کرتا ہے اور جو اس معیار پر پورا نہ اترتا ہو اور اس کی اہلیت نہ رکھتا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنے بہترین مواہب سے ہرگز نہیں نوازتا اور نہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں پاک گردانا جاتا ہے۔ یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے کمال حکمت پر دلالت کرتی ہے۔ ہرچند کہ اللہ تعالیٰ نہایت رحیم، وسیع جو دو کرم اور بہت فضل و احسان کا مالک ہے تاہم وہ حکیم بھی ہے اس لئے وہ اپنی بخشش سے صرف اس کو نوازتا ہے جو اس کا اہل ہوتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مجرموں کو وعید سناتے ہوئے فرمایا : ﴿سَيُصِيبُ الَّذِينَ أَجْرَمُوا صَغَارٌ عِندَ اللَّـهِ ﴾ ” عنقریب پہنچے گی گناہگاروں کو ذلت، اللہ کے ہاں‘‘ یعنی اہانت اور ذلت جیسے وہ حق کے ساتھ تکبر سے پیش آئے، اللہ تعالیٰ نے ان کو ذلیل و رسوا کردیا۔ ﴿وَعَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا كَانُوا يَمْكُرُونَ ﴾ ” اور سخت عذاب، اس وجہ سے کہ وہ مکر کرتے تھے“ یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر ظلم نہیں، بلکہ ان کی چالبازیوں کے سبب سے اللہ تعالیٰ انہیں سخت عذاب میں مبتلا کرے گا۔