سورة الانعام - آیت 102

ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوهُ ۚ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

وہی اللہ تمہارا رب (98) ہے، اس کے علاوہ کوئی معبود (برحق) نہیں ہے، وہ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے، پس تم لوگ اس کی عبادت کرو، اور وہ ہر چیز کا نگراں ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ذَٰلِكُمُ اللَّـهُ رَبُّكُمْ﴾ ” یہی اللہ تمہارا رب ہے۔“ یعنی یہ معبود، جو انتہائی تذلل اور انتہائی محبت کا مستحق ہے وہی تمہارا رب ہے جس نے اپنی نعمتوں کے ذریعے سے تمام مخلوق کی ربوبیت کا انتظام فرمایا اور ان سے مختلف اصناف کی تکالیف کو دور ہٹایا۔ ﴿لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوهُ﴾ ” اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ہر چیز کا خالق ہے، پس تم اسی کی عبادت کرو۔“ یعنی جب یہ بات ثابت ہے کہ وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، تو اپنی ہر قسم کی عبادت کا رخ اسی کی طرف پھیر دو، اپنی تمام عبادات کو اسی کے لئے خالص کرو اور ان عبادات میں صرف اسی کی رضا کو مقصد بناؤ۔ تخلیق کائنات کا مقصد بھی یہی ہے اور اسی کی خاطر ان کو پیدا کیا گیا ہے۔﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ﴾ (الذاریات :51؍56) ” میں نے جن وانس کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔“ ﴿وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ﴾” اور وہ ہر چیز پر کار ساز ہے۔“ یعنی تمام اشیا تخلیق و تدبیر اور تصرف کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی وکالت اور بندوبست کے تحت ہیں اور یہ بات معلوم ہے کہ وہ امر جو کسی کے تصرف میں دیا گیا ہے، اس کی استقامت، اس کا اتمام اور اس کا کمال انتظام وکیل کے حسب حال ہوتا ہے۔ تمام اشیاء پر اللہ تبارک و تعالیٰ کی وکالت، مخلوق کی وکالت کی مانند نہیں ہے کیونکہ مخلوق کی وکالت تو درحقیقت نیابت ہے اور اس میں وکیل اپنے موکل کے تابع ہوتا ہے۔ جہاں تک باری تعالیٰ کی ذات ہے، تو اس کی وکالت اپنی طرف سے اپنے لئے ہوتی ہے جو کمال علم، حسن تدبیر اور عدل و احسان کو متضمن ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے کسی کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ پر استدراک (کسی کوتاہی کا ازالہ) کرے، نہ اسے اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں کوئی خلل نظر آئے گا اور نہ اس کی تدبیر میں کوئی نقص اور عیب۔ اللہ تعالیٰ کی وکالت کا ایک حصہ یہ ہے کہ اس نے اپنے دین کو توضیح و تبیین کا کام اپنے ذمہ لیا اور دین کو خراب کرنے اور بدلنے والے تمام امور سے اس کی حفاظت کی اور وہ اہل ایمان کی حفاظت اور ایسے امور سے ان کو بچانے کا ضامن بنا جو ان کے دین و ایمان کو خراب کرتے ہیں۔