فَالِقُ الْإِصْبَاحِ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَنًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ
وہی صبح کا نکالنے (92) والا ہے اور اسی نے رات کو سکون و آرام کا وقت، اور سورج اور چاند کو (مہینہ اور سال کے) حساب کے لیے بنایا ہے، یہ اس ذات کا مقرر کردہ نظام ہے جو زبردست، بڑا علم والا ہے
چنانچہ فرمایا : ﴿ فَالِقُ الْإِصْبَاحِ ﴾” پھاڑ نکالنے والا ہے صبح کی روشنی کا“ یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ دانے اور گٹھلی کو پھاڑتا ہے اسی طرح اندھیری رات کے اندھیروں کو جو تمام روئے زمین کو ڈھانپ لیتے ہیں، صبح کے اجالے کے ذریعے سے پھاڑتا ہے جو دھیرے دھیرے تاریکی کے پردے کو چاک کئے چلا جاتا ہے حتیٰ کہ تمام تاریکی ختم ہوجاتی ہے اور مخلوق اپنے مصالح، معاش اور اپنے دین و دنیا کے فوائد کے حصول میں مصروف ہوجاتی ہے۔ چونکہ مخلوق سکون، آرام اور ٹھہرنے کی محتاج ہوتی ہے اور یہ امور دن اور رات کے وجود کے بغیر مکمل نہیں ہوتے ﴿وَجَعَلَ ﴾ اللہ تعالیٰ نے بنایا ﴿اللَّيْلَ سَكَنًا﴾” رات کو آرام کے لئے“ جس میں آدمی اپنے گھروں اور خواب گاہوں میں، جانور اور مویشی اپنے ٹھکانوں میں اور پرندے اپنے گھونسلوں میں آرام کرتے ہیں اور سب راحت اور آرام میں سے اپنا اپنا حصہ وصول کرتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ اسے روشنی کے ذریعے سے زائل کردیتا ہے اور یہ سلسلہ ہمیشہ قیامت تک چلتا رہے گا۔ ﴿وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا﴾ ” اور سورج اور چاند حساب کے لئے“ اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند بنائے جن کے ذریعے سے زمان و اوقات کی پہچان کی جاتی ہے، ان کے ذریعے سے عبادات کے اوقات منضبط ہوتے ہیں، معاملات کی مدت مقرر ہوتی ہے اور سورج اور چاند کے وجود ہی سے یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ کتنا وقت گزر گیا ہے۔ اگر سورج اور چاند کا وجود اور ان کا باری باری ایک دوسرے کے پیچھے آنا نہ ہوتا تو عامتہ الناس ان تمام امور کو معلوم کر کے علم میں اشتراک نہ کرسکتے بلکہ چند افراد کے سوا کوئی بھی ان امور کی معرفت حاصل نہ کر پاتا اور وہ بھی نہایت کوشش اور اجتہاد کے بعد اور اس طرح تمام ضروری مصالح فوت ہوجاتے۔ ﴿ذَٰلِكَ﴾یہ مذکوررہ انداز ﴿تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ﴾ ” اندازہ ہے غالب جاننے والے کا“ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا غلبہ ہے کہ یہ بڑی بڑی مخلوق اس کی تدبیر کے سامنے سرتسلیم خم کئے ہوئے ہے اور اس کے حکم سے مطیع اور مسخر ہو کر اپنے راستے پر جاری و ساری ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے جو حدود مقرر کردی ہیں او وہ اس سے سرمو انحراف نہیں کرسکتی، آگے ہوسکتی ہے نہ پیچھے۔ ﴿ الْعَلِيمِ﴾ وہی ہستی ہے جس کے علم نے تمام ظاہر و باطن اور اوائل و اواخر کا احاطہ کر رکھا ہے اور اس کے علم محیط کی عقلی دلیل یہ ہے کہ اس نے بڑی بڑی مخلوقات کو ایک اندازے پر ایک انوکھے نظام کے ذریعے سے مسخر کر رکھا ہے کہ جس کے حسن و کمال اور مصالح اور حکمتوں کے ساتھ اس کی مطابقت کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔