إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا ۖ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ
میں نے اپنا رخ (74) اس ذات کی طرف کرلیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اس حال میں کہ میں نے اللہ کے سوا سب سے منہ موڑ لیا ہے، اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں
﴿ إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا ۖ﴾” میں نے متوجہ کرلیا اپنے چہرے کو اسی کی طرف جس نے بنائے آسمان اور زمین سب سے یکسو ہو کر“ یعنی صرف الہ واحد کی طرف یکسوئی کے ساتھ متوجہ ہو کر اور ہر ماسوا سے منہ موڑ کر ﴿وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ﴾ ” اور میں نہیں ہوں شرک کرنے الا۔“ پس یوں ابراہیم علیہ السلام نے شرک سے برأت کا اظہار کیا اور توحید کے سامنے سرتسلیم خم کیا اور توحید پر دلیل قائم کی۔۔۔ یہ ہے ان آیات کریمہ کی تفسیر جو ہم نے بیان کی ہے اور یہی صواب ہے، نیز یہ کہ یہ مقام جناب ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے اپنی قوم کے ساتھ مناظرے کا مقام تھا اور مقصد ان اجرام فلکی وغیرہ کی الوہیت کا بطلان تھا۔ رہا ان لوگوں کا موقف کہ یہ جناب ابراہیم کے ایام طفولیت میں غور و فکر کا مقام تھا تو اس پر کوئی دلیل نہیں۔