سورة الانعام - آیت 68

وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ وَإِمَّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَىٰ مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جب آپ ان لوگوں کو دیکھئے جو ہماری آیتوں کے خلاف باتیں (62) بناتے ہیں، تو آپ ان سے اعراض کیجئے، یہاں تک کہ وہ اس کے علاوہ کوئی اور بات کرنے لگیں، اور اگر شیطان آپ کو بھلادے تو یاد آنے کے بعد ظالم لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھئے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ کی آیات میں جھگڑنے اور مشغول ہونے سے مراد ہے ان کے بارے میں ناحق باتیں کرنا، اقوال باطلہ کی تحسین کرنا، ان کی طرف دعوت دینا، اقوال باطلہ کے قائلین کی مدح کرنا، حق سے روگردانی کرنا اور حق اور اہل حق کی عیب چینی کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے اصولی طور پر اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اور تبعاً تمام اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی کو اللہ تعالیٰ کی آیات کی مذکورہ عیب چینی میں مشغول دیکھیں تو اس سے اعراض کریں۔ باطل میں مشغول لوگوں کی مجالس میں نہ جائیں جب تک کہ وہ کسی اور بحث میں مشغول نہ ہوجائیں۔ اگر وہ آیات الٰہی کی بجائے کسی اور بحث میں مشغول ہوں تو ان میں بیٹھنا اس ممانعت کے زمرے میں نہیں آئے گا۔ اگر ان میں بیٹھنے میں کوئی راجح مصلحت ہو تو وہ ان میں بیٹھنے پر مامور ہے، اگر ایسا نہ ہو تو یہ بیٹھنا مفید ہے نہ وہ اس پر مامور ہے۔ باطل میں مشغولیت کی مذمت درحقیقت حق میں غور و فکر اور بحث و تحقیق کی ترغیب ہے۔ ﴿وَإِمَّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ﴾ ” اگر شیطان آپ کو بھلا دے۔“ یعنی اگر آپ کو شیطان بھلا دے اور آپ غفلت و نسیان کی وجہ سے ان کی مجلس میں بیٹھ جائیں ﴿فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَىٰ مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴾ ” تو یاد آنے کے بعد ظالموں کے ساتھ نہ بیٹھیں“ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ان تمام لوگوں کو شامل ہے جو باطل میں مشغول ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ان تمام لوگوں کو شامل ہے جو باطل میں مشغول ہوتے ہیں۔ جو ایسی باتیں کہتے یا کرتے ہیں جن کو حرام ٹھہرایا گیا ہے تو ان لوگوں میں بیٹھنا حرام ہے۔ منکرات کی موجودگی میں جبکہ وہ ان کے ازالے کی قدرت نہ رکھتا ہو، اس مجلس میں حاضر ہونا بھی ممنوع ہے۔