سورة البقرة - آیت 75

أَفَتَطْمَعُونَ أَن يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِن بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

کیا تم امید (١٢٢) رکھتے ہو کہ (یہ لوگ) تمہارے لیے ایمان لے آئیں گے، حالانکہ ان میں کا ایک گروہ کلام الٰہی سنتا تھا، پھر اسے سمجھ لینے کے بعد، جان بوجھ کر اسے بدل دیتا تھا

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یہاں اہل کتاب کے ایمان لانے کے بارے میں اہل ایمان کی امیدوں کو ختم کردیا ہے کہ تم ان کے ایمان کی امید نہ رکھو۔ ان کے اخلاق ایسے ہیں جو ان کے ایمان کی امید کے متقاضی نہیں، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو سمجھ کر اور جان بوجھ کر اس کے معانی میں تحریف کرتے ہیں۔ پس وہ اس کے لئے ایسے معانی اور مفاہیم وضع کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مراد نہیں ہیں تاکہ لوگ اس وہم میں مبتلا ہوں کہ یہ مفاہیم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہرگز نہیں۔ پس جب ان کی اس کتاب کے بارے میں یہ حالت ہے جسے وہ اپنے لئے باعث شرف اور اپنا دین قرار دیتے ہیں اور اس کتاب کے ذریعے سے وہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔ تب ان سے کیونکر یہ امید رکھی جاسکتی ہے کہ وہ تم پر ایمان لائیں گے۔ یہ بعید ترین چیز ہے۔