ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يَأْتُوا بِالشَّهَادَةِ عَلَىٰ وَجْهِهَا أَوْ يَخَافُوا أَن تُرَدَّ أَيْمَانٌ بَعْدَ أَيْمَانِهِمْ ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاسْمَعُوا ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ
یہ طریقہ زیادہ مناسب ہے کہ وہ لوگ حقیقتِ حال کے مطابق گواہی دیں، یا ڈریں کہ ہماری قسمیں بھی ان کی قسموں کے بعد رد کردی جائیں گی، اور اللہ سے ڈرو، اور (اس کے احکام پر) دھیان دو، اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا ہے
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس گواہی، اس کی تاکید اور دونوں گواہوں سے خیانت ظاہر ہونے پر گواہی کو میت کے اولیاء کی طرف لوٹانے کی حکمت بیان کی ہے۔ ﴿ذٰلِكَ أَدْنَىٰ ﴾ ” اس طریق سے بہت قریب ہے۔“ یعنی یہ اس بات کے زیادہ قریب ہے ﴿أَن يَأْتُوا بِالشَّهَادَةِ عَلَىٰ وَجْهِهَا ﴾” کہ وہ ادا کریں گواہی کو ٹھیک طریقے پر“ یعنی جب ان گواہوں کو مذکورہ تاکیدات کے ذریعے سے تاکید کی جائے گی ﴿أَوْ يَخَافُوا أَن تُرَدَّ أَيْمَانٌ بَعْدَ أَيْمَانِهِمْ ﴾ ” اس بات سے خوف کریں کہ ہماری قسمیں ان کی قسموں کے بعد رد کردی جائیں گی۔“ یعنی ان کو خوف ہوگا کہ ان کی قسمیں قبول نہیں کی جائیں گی اور ان قسموں کو میت کے اولیاء کی طرف لوٹا دیا جائے گا﴿ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ ﴾ ” اور اللہ فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا“ یعنی وہ لوگ جن کا وصف فسق ہے جو ہدایت چاہتے ہیں نہ راہ راست پر چلنے کا کوئی ارادہ رکھتے ہیں۔ ان آیات کریمہ کا حاصل یہ ہے کہ سفر وغیرہ میں جب میت کی موت کا وقت آجائے اور وہ ایسی جگہ پر ہو جہاں گمان یہ ہو کہ معتبر گواہ بہت کم ہوں گے، تو میت کے لئے مناسب یہ ہے کہ وہ دو مسلمان عادل گواہوں کے سامنے وصیت کرے اور اگر صرف دو کافر گواہ مہیا ہوسکیں تو ان کے پاس بھی وصیت کرنا جائز ہے۔ اگر ان گواہوں کے کفر کی وجہ سے میت کے اولیاء ان کے بارے میں شک کریں تو نماز کے بعد ان سے حلف لیں کہ انہوں نے خیانت کا ارتکاب کیا ہے نہ جھوٹ بوالا ہے اور نہ انہوں نے وصیت میں کوئی تغیر و تبدل کیا ہے۔ اس طرح وہ اس حق کی ذمہ داری سے بری ہوجائیں گے جو ان پر ڈال دی گئی تھی۔ اگر میت کے اولیاء میں سے دو گواہ کھڑے ہو کر قسم کھائیں کہ ان کی گواہی پہلے گواہوں کی گواہی سے صحیح ہے اور یہ کہ پہلے گواہ خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں اور انہوں نے جھوٹ بولا ہے تو وہ ان پہلے گواہوں کے مقابلے میں اپنے دعوے پر مستحق قرار پائیں گے۔ یہ آیات کریمہ تیمم داری رضی اللہ عنہ اور عدوی بن بداء کے قصہ میں نازل ہوئی ہیں جو بہت مشہور ہے اور قصہ یوں ہے کہ عدوی نے ان دونوں حضرات کے پاس وصیت کی تھی۔ واللہ اعلم۔ [مفسر موصوف کو سہو ہوا ہے۔ صحیح بخاری، ترمذی، ابن کثیر اور دیگر مفسرین کے نزدیک عدوی کی جگہ سہمی وارد ہوا ہے یعنی بنو سہم کا ایک آدمی۔] [یہ قصہ اصل میں اس طرح ہے کہ حضرت تیمم داری (جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) اور عدی بن بداء، یہ دونوں نصرانی تھے اور تجارت کے لئے شام گئے ہوئے تھے۔ ایک مسلمان بدیل بن ابی مریم بھی وہاں گئے ہوئے تھے، وہاں بدیل سخت بیمار ہوگئے حتیٰ کہ زندگی سے مایوس ہوگئے۔ انہوں نے ان دونوں کو وصیت کی اور اپنا سامان بھی ان کے سپرد کردیا کہ وہ اسے ان کے گھر پہنچا دیں۔ ان دونوں نے اس سامان میں سے چاندی کا ایک پیالہ نکال کر بیچ دیا اور اس کی رقم آپس میں بانٹ لی۔ بعد میں ورثاء کو اس کا علم ہوا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے حلف لیا۔ (صحیح بخاری، الوصایا، حدیث :2780۔ ترمذی، التفسیر، حدیث: 3059) (ص۔ ی) ] ان آیات کریمہ سے متعدد احکام پر استدلال کیا جاتا ہے۔ (١) وصیت کرنا مشروع ہے جس کی موت کا وقت قریب آجائے تو اسے چاہئے کہ وصیت کرے۔ (٢) جب موت کے مقدمات و آثار نمودار ہوجائیں تو مرنے والے کی وصیت اس وقت تک معتبر ہے جب تک اس کے ہوش و حواس قائم ہیں۔ (٣) وصیت میں دو عادل گواہوں کی گواہی ضروری ہے۔ (٤) وصیت اور اس قسم کے دیگر مواقع پر، بوقت ضرورت کفار کی گواہی مقبول ہے۔ یہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا مذہب ہے۔ بہت سے اہل علم دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ حکم منسوخ ہے۔ مگر نسخ کے اس دعویٰ پر کوئی دلیل نہیں۔ (٥) اس حکم کے اشارہ اور اس کے معنی سے مستفاد ہوتا ہے کہ مسلمان گواہوں کی عدم موجودگی میں وصیت کے علاوہ دیگر مسائل میں بھی کفار کی گواہی قابل قبول ہے۔ جیسا کہ یہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا مذہب ہے۔ (٦) اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر خوف کی بات نہ ہو تو کفار کی معیت میں سفر جائز ہے۔ (٧) تجارت کے لئے سفر کرنا جائز ہے۔ (٨) اگر دونوں گواہوں کی گواہی کے بارے میں شک ہو مگر ایسا کوئی قرینہ موجود نہ ہو جو ان کی خیانت پر دلالت کرتا ہو اور وصیت کرنے والے کے اولیاء ان گواہوں سے قسم لینا چاہتے ہوں تو وہ انہیں نماز کے بعد روک لیں اور ان سے اس طریقے سے قسم لیں جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔ (٩) اگر ان دونوں کی گواہی میں کوئی شک اور تہمت نہ ہو تو ان کو روکنے اور ان سے قسم لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ (١٠) یہ آیت کریمہ شہادت کے معاملے کی تعظیم پر دلالت کرتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے شہادت کو اپنی طرف مضاف کیا ہے، نیز یہ کہ اس کو درخوراعتنا سمجھنا اور انصاف کے مطابق اس کو قائم کرنا واجب ہے۔ (١١) گواہوں کے بارے میں اگر شک ہو تو گواہوں کا امتحان اور ان کو علیحدہ علیحدہ کر کے گواہی لینا جائز ہے، تاکہ سچ اور جھوٹ کے اعتبار سے گواہی کی قدر و قیمت کا اندازہ لگایا جا سکے۔ (١٢) جب ایسے قرائن پائے جائیں جو اس مسئلے میں دونوں وصیوں (گواہوں) کے جھوٹ پر دلالت کرتے ہوں تو میت کے اولیاء میں سے دو آدمی کھڑے ہوں اور اللہ کی قسم کھائیں کہ ہماری قسم ان کی قسم سے زیادہ سچی ہے۔ انہوں نے خیانت کی ہے اور جھوٹ کہا ہے پھر جس چیز کا وہ دعویٰ کرتے ہیں ان کے حوالے کردی جائے گی۔ ان کی قسموں کے ساتھ، قرینہ، ثبوت کے قائم مقام ہے۔