قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ هَلْ تَنقِمُونَ مِنَّا إِلَّا أَنْ آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلُ وَأَنَّ أَكْثَرَكُمْ فَاسِقُونَ
آپ کہہ دیجئے، اے اہل کتاب ! تم ہمارے اندر کون سا عیب (82) پاتے ہو، سوائے اس کے کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس چیز پر جو ہمارے لیے نازل کی گئی، اور یہ کہ تم میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں
﴿قُلْ ﴾ یعنی اے رسول کہہ دیجیے !﴿يَا أَهْلَ الْكِتَابِ﴾ ” اے اہل کتاب !“ یعنی ان پر حجت لازم کرتے ہوئے۔ بلاشبہ دین اسلام دین حق ہے اور اس میں طعن و تشنیع ایک ایسے معاملے میں طعن و تشنیع ہے جو درحقیقت مدح کے لائق ہے۔ ﴿ هَلْ تَنقِمُونَ مِنَّا إِلَّا أَنْ آمَنَّا بِاللَّـهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلُ وَأَنَّ أَكْثَرَكُمْ فَاسِقُونَ﴾” تم ہم میں برائی ہی کیا دیکھتے ہو سوائے اس کے کہ ہم اللہ پر اور جو (کتاب) ہم پر نازل ہوئی اس پر اور جو (کتابیں) پہلے نازل ہوئیں ان پر ایمان لائے ہیں اور تم میں اکثر فاسق ہیں۔“ یعنی اس کے سوا ہم میں اور کیا عیب ہے کہ ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں، اس کی گزشتہ کتابوں اور انبیائے متقدمین و متاخرین پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور ہم نہایت جزم کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ جو کوئی اس ایمان جیسا ایمان نہیں رکھتا وہ کافر اور فاسق ہے۔ کیا تم صرف اس امر کی بنا پر ہمیں طعن و تشنیع کرتے ہو جو تمام مکلفین پر سب سے زیادہ فرض ہے اور بایں ہمہ کو ان میں سے اکثر فاسق ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے باہر اور اس کی نافرمانی کی جسارت کرنے والے ہیں تو اے فاسقو ! تمہارے لئے خاموش رہنا ہی بہتر ہے۔ پس اگر تم میں یہی عیب ہوتا جب کہ تم فسق سے پاک ہوتے، حالانکہ یہ بہت بعید ہے۔۔۔ تو یہ برائی تمہارے فسق کی معیت میں تمہارے ہماری بابت طعن و تشنیع سے خفیف تر ہوتی۔