سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ ۚ فَإِن جَاءُوكَ فَاحْكُم بَيْنَهُمْ أَوْ أَعْرِضْ عَنْهُمْ ۖ وَإِن تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَن يَضُرُّوكَ شَيْئًا ۖ وَإِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ
یہ لوگ جھوٹ بولنے کے لیے دوسرے کی باتوں پر کان لگاتے ہیں، اور بڑے حرام (58) کھانے والے ہیں، پس اگر وہ لوگ آپ کے پاس آویں تو ان کے درمیان فیصلہ کردیجئے یا ان سے منہ پھیر لیجئے، اور اگر آپ ان سے منہ پھیر لیں گے تو وہ آپ کا کچھ بھی بگاء نہ سکیں گے، اور اگر آپ فیصلہ کیجئے تو ان کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کیجئے، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے
﴿سَمّٰعُونَ لِلْكَذِبِ سَمَّاعُونَ لِقَوْمٍ آخَرِينَ لَمْ يَأْتُوكَ ۖ ﴾ ” جاسوسی کرتے ہیں جھوٹ بولنے کے لئے، وہ جاسوس ہیں دوسرے لوگوں کے جو آپ تک نہیں آئے“ یعنی اپنے سرداروں کی آواز پر لبیک کہنے والے، ان کے مقلد، جن کا تمام تر معاملہ جھوٹ اور گمراہی پر مبنی ہے اور یہ سردار جن کی پیروی کی جاتی ہے﴿ لَمْ يَأْتُوكَ ﴾” آپ کے پاس کبھی نہیں آئے“ بلکہ وہ آپ سے روگردانی کرتے ہیں اور اسی باطل پر خوش ہیں جو ان کے پاس ﴿ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِن بَعْدِ مَوَاضِعِهِ ﴾’ ’وہ بدل ڈالتے ہیں بات کو، اس کا ٹھکانا چھوڑ کر“ یعنی وہ اللہ کی مخلوق کو گمراہ کرنے اور حق کو روکنے کے لئے الفاظ کو ایسے معانی پہناتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مراد نہیں ہے پس لوگ گمراہی کی طرف دعوت دینے والوں کے پیچھے چلتے ہیں اور محال کی پیروی کرتے ہیں جو تمام تر جھوٹ ہی لے کر آتے ہیں جو عقل سے محروم اور عزم و ہمت سے تہی دست ہیں۔ اگر وہ آپ کی اتباع نہیں کرتے تو پروا نہ کیجیے، کیونکہ وہ اتنہائی ناقص ہیں اور ناقص کی پروا نہیں کی جاتی ﴿يَقُولُونَ إِنْ أُوتِيتُمْ هَـٰذَا فَخُذُوهُ وَإِن لَّمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوا ﴾ ” کہتے ہیں اگر تم کو یہ حکم ملے تو قبول کرلینا اور اگر یہ حکم نہ ملے تو بچتے رہنا“ یعنی یہ بات وہ اس وقت کہتے ہیں جب وہ فیصلہ کروانے کے لئے آپ کے پاس آتے ہیں۔ خواہشات نفس کی پیروی کے سوا ان کا کوئی مقصد نہیں ہوتا۔ وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں ” اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری خواہش کے مطابق فیصلہ کرے تو اسے قبول کرلو اور اگر وہ تمہاری خواہش کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو اس فیصلے میں اس کی پیروی سے بچو۔“ یہ نقطہ نظر فتنہ اور خواہشات نفس کی پیروی ہے۔ ﴿وَمَن يُرِدِ اللّٰهُ فِتْنَتَهُ فَلَن تَمْلِكَ لَهُ مِنَ اللَّـهِ شَيْئًا ۚ ﴾ ” اور جس کو اللہ گمراہ کرنے کا ارادہ کرلے، آپ اس کے لئے اللہ کے ہاں کچھ نہیں کرسکتے“ اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ ارشاد اس قول کی مانند ہے ﴿إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ﴾ (القصص:56؍68) ” آپ جسے پسند کریں اسے ہدایت نہیں دے سکتے، بلکہ اللہ ہی جس کو چاہے ہدایت دے سکتا ہے۔“ ﴿ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ لَمْ يُرِدِ اللّٰهُ أَن يُطَهِّرَ قُلُوبَهُمْ ۚ ﴾” یہ وہی لوگ ہیں جن کو اللہ نے نہیں چاہا کہ ان کے دل پاک کرے“ یعنی پس ان سے جو کچھ صادر ہو رہا ہے وہ اسی وجہ سے صادر ہو رہا ہے۔ ان کا یہ رویہ اس حقیقت پر دلالت کرتا ہے کہ جو کوئی خواہش نفس کی اتباع کی خاطر شریعت کے مطابق فیصلہ کرواتا ہے اگر فیصلہ اس کے حق میں ہو تو راضی ہوجاتا ہے اور اگر فیصلہ اس کے خلاف ہو تو ناراض ہوجاتا ہے، تو یہ چیز اس کے قلب کی عدم طہارت میں سے ہے۔ جیسے وہ شخص جو اپنا فیصلہ شریعت کی طرف لے جاتا ہے اور اس پر راضی ہوتا ہے، چاہے وہ فیصلہ اس کی خواہش کے مطابق ہو یا مخالف، تو یہ اس کی طہارت قلب میں سے ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ طہارت قلب ہر بھلائی کا سبب ہے اور طہارت قلب رشد و ہدایت اور عمل سدید کا سب سے بڑا داعی ہے۔ ﴿لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ ﴾ ” ان کے لئے دنیا میں بھی ذلت ہے۔“ یعنی دنیا میں ان کے لئے فضیحت اور عار ہے ﴿وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴾ ” اور آخرت میں عذاب عظیم ہے“ عذاب عظیم سے مراد جہنم اور اللہ جبار کی ناراضی ہے ﴿سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ ﴾” جاسوسی کرنے والے ہیں جھوٹ بولنے کے لئے“ یہاں سننے سے مراد اطاعت کے لئے سننا ہے یعنی وہ قلت دین اور قلت عقل کی بنا پر ہر اس شخص کی بات پر لبیک کہتے ہیں جو انہیں جھوٹ کی طرف دعوت دیتا ہے ﴿أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ ﴾” کھانے والے ہیں حرام کے“ یعنی اپنے عوام اور گھٹیا لوگوں سے ناحق وظائف لے کر حرام مال کھاتے ہیں۔ پس انہوں نے اپنے اندر جھوٹ کی پیروی اور اکل حرام کو یکجا کرلیا ﴿فَإِن جَاءُوكَ فَاحْكُم بَيْنَهُمْ أَوْ أَعْرِضْ عَنْهُمْ ﴾” اگر یہ آپ کے پاس (کوئی فیصلہ کرانے کو) آئیں تو آپ ان میں فیصلہ کردیں یا اعراض کریں۔“ یعنی آپ کو اس بارے میں اختیار ہے کہ جب وہ آپ کے پاس آئیں تو ان کے درمیان فیصلہ کریں یا ان سے اعراض فرما لیں۔ یہ آیت کریمہ منسوخ نہیں ہے بلکہ اس قسم کے لوگوں کے بارے میں جو فیصلہ کروانے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں آپ کو اختیار دیا گیا ہے کہ آپ ان کے درمیان فیصلہ کریں یا فیصلہ کرنے سے گریز کریں اور اس کا سبب یہ ہے کہ وہ صرف اسی وقت شریعت کے مطابق فیصلہ کروانے کا قصد کرتے ہیں جب فیصلہ ان کی خواہشات نفس کے مطابق ہو۔ بنا بریں فتویٰ طلب کرنے والے اور کسی عالم کے پاس فیصلہ کروانے کے لئے جانے والے کے احوال کی تحقیق کی جائے اگر یہ معلوم ہوجائے کہ وہ اپنے خلاف فیصلے پر راضی نہ ہوگا تو اس کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنا واجب ہے نہ فتویٰ دینا۔ تاہم اگر وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا واجب ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَإِن تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَن يَضُرُّوكَ شَيْئًا ۖ وَإِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ﴾ ”اگر آپ ان سے منہ پھیر لیں تو وہ آپ کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے اور اگر آپ فیصلہ کریں تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے“ حتی کہ۔۔۔۔۔۔ خواہ لوگ ظالم اور دشمن ہی کیو نہ ہوں تب بھی ان کے درمیان عدل کے ساتھ فیصلہ کرنے سے کوئی چیز مانع نہ ہو۔