سورة المآئدہ - آیت 37

يُرِيدُونَ أَن يَخْرُجُوا مِنَ النَّارِ وَمَا هُم بِخَارِجِينَ مِنْهَا ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّقِيمٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

وہ لوگ آگ سے نکلنا چاہیں گے، لیکن کبھی بھی نہ نکل پائیں گے، اور انہیں دائمی عذاب دیا جائے گا

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

چور اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی دوسرے کا قابل احترام مال، اس کی رضا مندی کے بغیر خفیہ طور پر ہتھیاتا ہے۔ چوری کا شمار کبیرہ گناہوں میں ہوتا ہے جو بدترین سزا کا موجب ہے یعنی دائیاں ہاتھ کاٹنا، جیسا کہ بعض صحابہ کی قراءت میں آتا ہے۔ ہاتھ کا اطلاق کلائی کے جوڑ تک ہتھیلی پر ہوتا ہے۔ اگر کوئی چوری کرتا ہے تو ہاتھ کلائی سے کاٹ دیا جائے اور اس کے بعد اسے تیل میں داغ دیا جائے تاکہ رگیں مسدود ہوجائیں اور خون رک جائے۔ سنت نبوی نے اس آیت کریمہ کے عموم کو متعدد پہلوؤں سے مقید کیا ہے۔ (١) حفاظت : چوری کے اطلاق کے لئے ضروری ہے کہ مال محفوظ جگہ سے اٹھایا گیا ہو، یہاں مال کی حفاظت سے مراد وہ حفاظت ہے جو عادتاً کی جاتی ہے۔ چورنے اگر کسی ایسے مال کی چوری کی ہو جو حفاظت میں نہ ہو تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ (٢) نصاب : چور کا ہاتھ کاٹنے کے لئے مال مسروقہ کا نصاب ضروری ہے یہ نصاب کم از کم ایک چوتھائی دینا ریا تین درہم یا ان میں سے کسی ایک کے برابر ہو۔ مال مسروقہ اگر اس نصاب سے کم ہو تو چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ شاید یہ لفظ سرقہ اور اس کے معنی سے ماخوذ ہے کیونکہ لفظ ” سرقہ“ سے مراد ہے کوئی چیز اس طریقے سے لینا جس سے احتراز ممکن نہ ہو اور یہ اسی وقت ہی ہوگا کہ مال کو حفاظت کے ساتھ رکھا گیا ہو۔ اگر مال کو حفاظت کے ساتھ نہ رکھا گیا تو اس مال کا لینا شرعی سرقہ کے زمرے میں نہیں آئے گا۔ یہ بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کی حکمت ہے کہ تھوڑی اور حقیر سی شے کی چوری میں ہاتھ نہ کاٹا جائے۔ چونکہ قطع ید کے لئے کم ترین نصاب مقرر کرنا ضروری ہے، اس لئے نصاب شرعی ہی کتاب اللہ کی تخصیص کرنے والا ہوگا۔ چوری میں ہاتھ کاٹنے میں حکمت یہ ہے کہ اس سے مال محفوظ ہوجاتے ہیں اور اس عضو کو بھی کٹ جانا چاہئے جس سے جرم صادر ہوا ہے۔ دائیاں ہاتھ کاٹ دیئے جانے کے بعد اگر چور دوبارہ چوری کا ارتکاب کرے تو اس کا بایاں پاؤں کاٹ دیا جائے۔ اگر پھر چوری کرے تو بعض کہتے ہیں کہ اس کا بایاں ہاتھ بھی کاٹ دیا اور اگر پھر بھی باز نہ آئے تو دائیاں پاؤں کاٹ دیا جائے اور بعض فقہا کہتے ہیں کہ اس کو قید کردیا جائے یہاں تک کہ وہ قید ہی میں مر جائے۔﴿جَزَاءً بِمَا كَسَبَا﴾ ” یہ بدلہ ہے اس کا جو انہوں نے کمایا‘‘ یعنی یہ قطع ید، چور کو اس بات کی سزا دی گئی ہے کہ اس نے لوگوں کا مال چرایا ہے ﴿نَكَالًا مِّنَ اللَّـهِ ﴾ ” یہ تنبیہ ہے اللہ کی طرف سے“ یعنی یہ سزا چور اور دیگر لوگوں کو ڈرانے کے لئے ہے، کیونکہ چوروں کو جب معلوم ہوگا کہ چوری کے ارتکاب پر ہاتھ کاٹ دیا جائے گا، تو وہ چوری سے باز آجائیں گے ﴿وَاللّٰهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴾ ” اور اللہ زبردست، صاحب حکمت ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے اس لئے اس نے چور کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا ہے۔