لَّقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ ۚ قُلْ فَمَن يَمْلِكُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ أَن يُهْلِكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ وَمَن فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ۗ وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
یقیناً وہ لوگ کافر (37) ہوگئے جنہوں نے کہا کہ بے شک اللہ مسیح ابن مریم ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ اللہ کی جانب سے پھر کس کو کچھ بھی اختیار حاصل ہے، کہ اگر اللہ مسیح ابن مریم اور اس کی ماں اور تمام اہل زمین کو ہلاک کرنا چاہے (تو وہ آڑے آجائے) اور آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی ہر چیز کا مالک صرف اللہ ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے
اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاری سے عہد لینے اور ان کے نقض عہد کا ذکر کرنے کے بعد ان کے اقوال قبیحہ کا ذکر فرمایا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نصاریٰ کے قول کا ذکر فرمایا اور یہ بات نصاریٰ سے پہلے کسی نے نہیں کہی۔ وہ کہتے ہیں کہ مسیح ابن مریم ہی اللہ ہے اور ان کے شبہ کا سبب یہ ہے کہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے، بنا بریں یہ اعتقاد باطل ان میں در آیا۔ حالانکہ جناب حوا علیہا السلام کی تخلیق ایک نظیر ہے جن کو بغیر ماں کے پیدا کیا گیا اور اس لحاظ سے جناب آدم علیہ السلام تو الوہیت کے سب سے زیادہ مستحق ہیں جو باپ اور ماں دونوں کے بغیرپیدا ہوئے۔ کیا انہوں آدم علیہ السلام اور جناب حوا علیہا السلام کے بارے میں اسی طرح الوہیت کا دعویٰ کیا ہے جس طرح انہوں نے مسیح علیہ السلام کے بارے میں کیا؟ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ ان کا حضرت مسیح علیہ السلام کی الوہیت کا دعویٰ بغیر کسی برہان کے خواہش نفس کی پیروی ہے۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے واضح عقلی دلائل سے ان کے اس قول باطل کا رد کیا ہے، چنانچہ فرمایا :﴿قُلْ فَمَن يَمْلِكُ مِنَ اللَّـهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ أَن يُهْلِكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ وَمَن فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ﴾ ” فرما دیجیے، پس کس کا بس چل سکتا ہے اللہ کے آگے کچھ بھی اگر وہ چاہے کہ ہلاک کر دے مسیح ابن مریم کو، اس کی ماں کو اور تمام اہل زمین کو“ چونکہ اگر اللہ تعالیٰ ان مذکور لوگوں کو ہلاک کرنا چاہے تو ان کے پاس اپنے آپ کو بچانے کی قدرت اور طاقت نہیں۔ اس لئے یہ اس ہستی کی الوہیت کے بطلان کی دلیل ہے جو اپنے آپ کو ہلاکت سے نہیں بچا سکتی اور نہ چھڑا سکتی ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحدانیت کی ایک دلیل یہ بھی ہے ﴿وَلِلَّـهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ﴾ ” اور زمین و آسمان کی بادشاہت اسی کی ہے“ پس وہ ان میں تکوینی، شرعی اور جزائی احکام کے ذریعے سے تصرف کرتا ہے وہ سب مملوک ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی تدبیر کرتا ہے۔ کیا مملوک اور بندہ محتاج کو لائق ہے کہ وہ الٰہ بن جائے جو ہر لحاظ سے بے نیاز ہو؟۔۔۔ یہ سب سے بڑا محال ہے۔ عیسیٰ علیہ الصلوۃ و السلام کا بغیر باپ کے متولد ہونا کوئی انہونی اور تعجب خیز بات نہیں ﴿ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ﴾ ” وہ (اللہ) جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔“ چاہے تو عورت اور مرد کے ذریعے سے پیدا کرے، جیسا کہ تمام بنی آدم کی تخلیق ہوئی ہے۔ چاہے تو بغیر عورت کے، صرف مرد سے پیدا کرے جیسے حضرت حوا علیہا السلام کا معاملہ ہے۔ چاہے تو کسی کو بغیر مرد کے عورت سے پیدا کرے، جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تخلیق ہوئی اور چاہے تو مرد اور عورت دونوں کے بغیر پیدا کرے، جیسے حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنی مشیت نافذہ سے اپنی مخلوق کو الگ الگ انداز سے پیدا فرمایا جس کے سامنے کسی کو دم مارنے کی مجال نہیں، بنا بریں فرمایا ﴿وَاللّٰهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴾ ” اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ “