سورة المآئدہ - آیت 4

يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ ۖ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۙ وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ ۖ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

لوگ آپ سے پوچھتے (15) ہیں کہ ان کے لیے کیا چیز حلال کی گئی ہے، آپ کہہ دیجئے کہ تمہارے لیے اچھی چیزوں کو حلال کیا گیا ہے، اور ان شکاری جانوروں کا شکار کیا ہوا جانور جنہٰں تم نے سکھا رکھا ہو، جو سدھائے ہوئے ہوں یعنی اللہ نے تمہیں جو علم دے رکھا ہے، اس میں سے انہیں کچھ سکھاتے رہے ہو، پس جو تمہارے لیے پکر رکھیں (16) اس میں سے کھاؤ، اور اس پر بسم اللہ (17) پڑھ لیا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ جلد حساب لینے والا ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے :﴿ يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ ﴾ ” آپ سے پوچھتے ہیں کہ کون کون سی چیزیں ان کے لئے حلال ہیں۔“ یعنی ان کے لئے کون کون سے کھانے حلال ہیں۔ ﴿قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ﴾” کہہ دیجیے ! تمہارے لئے پاکیزہ چیزیں حلال کردی گئی ہیں“ (طبیات) سے مراد ہر وہ چیز ہے جس میں کوئی فائدہ ہے اور بدن اور عقل میں نقصان پہنچے بغیر ان سے لذت حاصل ہوتی ہے۔ پس طیبات میں وہ تمام غلہ جات اور پھل وغیرہ شامل ہیں جو بستیوں اور صحراؤں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس آیت کریمہ کے مضمون میں وہ تمام حیوانات بھی شامل ہیں جو خشک زمین پر پائے جاتے ہیں سوائے ان حیوانات کے جن کو شارع نے مستثنی قرار دیا ہے۔ مثلاً درندے، ناپاک جانور اور ناپاک اشیاء وغیرہ۔ اسی لئے یہ آیت کریمہ اپنے مفہوم میں ناپاک چیزوں کی تحریم پر دلالت کرتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں صراحت کے ساتھ اس تحریم کو بیان کیا گیا ہے۔ ﴿وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ﴾ (الاعراف :7؍157) ” وہ پاک چیزوں کو انکے لئے حلال کرتا ہے اور ناپاک چیزوں کو ان کے لئے حرام ٹھہراتا ہے۔ “ ﴿وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِحِ ﴾ ” اور جن شکاری جانوروں کو تم نے سدھایا ہو۔‘‘ یعنی جو تم شکاری جانوروں کو شکار کرنا سکھاتے ہو وہ شکار بھی تمہارے لئے حلال ہے۔ یہ آیت کریمہ شکار کے متعلق متعدد امور پر دلالت کرتی ہے۔ (١) یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف و کرم اور اس کی رحمت ہے کہ اس نے ان کے لئے رزق حلال کی راہیں کشادہ کردی ہیں اور ان کے لئے شکاری جانوروں کے شکار کئے ہوئے اس شکار کو حلال کردیا جس کو ذبح نہیں کرسکتے۔۔۔ شکاری جانور سے مراد کتے، چیتے اور باز وغیرہ ہیں، جو اپنے دانتوں سے یا پنجے سے شکار کو پکڑتے ہیں۔ (٢) شکاری جانور کے لئے شرط یہ ہے کہ اس کو شکار کے لئے سکھایا گیا ہو۔ ایسا سکھانا جس کو عرف عام میں سکھانا کہتے ہیں، یعنی اگر اسے شکار پر چھوڑا جائے تو وہ شکار پر جھپٹے اور اگر اس کو روک دیا جائے تو فوراً رک جائے اور جب شکار کو پکڑ لے تو اس کو نہ کھائے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللّٰهُ ۖ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ ﴾ ”اور جس (طریق) سے اللہ نے تمہیں (شکار کرنا) سکھایا ہے (اس طریق سے) تم نے ان کو سکھایا ہو تو جو شکار وہ تمہارے لئے پکڑ رکھیں اس کو کھالیا کرو۔“ یعنی وہ شکار کو تمہارے لئے روک رکھیں اور جس شکار میں سے شکاری جانور نے کچھ کھالیا ہو تو اس کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ آیا اس نے شکار کو اپنے مالک کے لئے پکڑا ہے اور شاید یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس نے شکار خود اپنے لئے پکڑا ہو۔ (٣) شکاری جانور کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ کتا ہو یا باز وغیرہ، شکار کو زخمی کرتا ہو (اس کا گلا نہ گھونٹتا ہو) جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد﴿مِّنَ الْجَوَارِحِ ﴾سے واضح ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ گلا گھٹ کر مر جانے والے جانور کی حرمت گزشتہ صفحات میں گزر چکی ہے۔ اگر کتے وغیرہ نے شکار کا گلا گھونٹ دیا ہو یا اس اپنے بوجھ تلے دبا کر اسے ہلاک کردیا ہو تو اس کا کھانا جائز نہیں یہ اس اصول پر مبنی ہے کہ شکاری جانور وہ ہیں جو شکار کو اپنے دانتوں یا پنجوں سے زخمی کرتے ہیں۔ (جوارح) ” شکاری جانور‘‘ کے بارے میں مشہور یہ کہ اس سے مراد شکار کو حاصل کرلینے اور اس کو پا لینے والا ہے۔ یہ آیت کریمہ اس معنی پر دلالت نہیں کرتی۔ واللہ اعلم۔ (اس لئے ” جوارح“ کا وہی مفہوم صحیح ہے جس کی وضاحت اس سے پہلے کی جا چکی ہے) (٤) شکار کے لئے کتا پالنا جائز ہے جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہے۔ [صحيح بخاري، كتاب الحرث والمزارعة، باب اقتناء الكلب للحرث، حديث: 2322] اس کے ساتھ ساتھ عام کتا پالنا حرام ہے۔ کیونکہ کتے کے شکار اور اس کو شکار کے لئے سکھانے کے جواز سے لازم آتا ہے کہ اس کو پالنا بھی جائز ہے۔ (٥) شکار کو اگر کتے کے منہ سے نکلا ہوا لعاب وغیرہ لگ جائے تو وہ پاک ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کتے کے مارے ہوئے شکار کو مباح قرار دیا ہے اور شکار کو دھونے کا حکم نہیں ہے۔ یہ چیز شکار کو لگے ہوئے کتے کے لعاب کی طہارت پر دلالت کرتی ہے۔ (٦) اس میں علم کی فضیلت کی دلیل ہے، کیونکہ سدھائے ہوئے شکار يا جانور کا مارا یا پکڑا ہوا شکار علم ہی کی وجہ سے، مباح ہوتا ہے۔ اگر اسے تعلیم نہ دی گئی ہو تو اس کا مارا ہوا شکار جائز نہیں ہوتا۔ (٧) شکاری کتے اور شکاری پرندے وغیرہ کو سکھانے میں مشغول ہونا مذموم، عبث اور باطل نہیں ہے، بلکہ یہ تو امر مقصود ہے، کیونکہ شکاری جانور کو سکھانا اس کے مارے ہوئے شکار کی حلت اور اس سے فائدہ اٹھانے کا ذریعہ ہے۔ (٨) اس آیت کریمہ میں اس شخص کے لئے دلیل ہے جو کتے کی فروخت کو جائز قرار دیتا ہے وہ کہتا ہے کہ بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ خریدے بغیر کتے کا حصول ممکن نہیں۔ (٩) شکاری جانور کو شکار پر چھوڑتے وقت تکبیر پڑھنا شرط ہے۔ اگر شکاری جانور کو شکار پر چھوڑ تے وقت عمداً تکبیر نہ پڑھی گئی ہو تو اس کا مارا ہوا شکار جائز نہیں۔ (١٠) شکاری جانور کے مارے ہوئے شکار کو کھانا جائز ہے خواہ شکار مر گیا ہو یا زندہ ہو۔ اگر مالک شکار کو اس حالت میں پا لے کہ ابھی وہ زندہ ہو تو ذبح کئے بغیر اس کا کھانا جائز نہیں۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے بندوں کو تقویٰ اختیار کرنے کی ترغیب دی ہے اور قیامت کے روز حساب سے ڈرایا ہے اور یہ ایسا معاملہ ہے کہ بہت قریب آن لگا ہے۔ اس لئے فرمایا : ﴿وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ ﴾ ” اللہ تعالیٰ سے ڈرو بے شک وہ جلد حساب لینے والا ہے۔ “